پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کے ملک میں قیام کی حتمی تاریخ میں توسیع نہ کیے جانے کے بعد حکام نے ان کے جبری انخلا کے عمل کا پھر سے آغاز کر دیا ہے۔امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پاکستان کی حکومت کے اس فیصلے سے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کے حامل لگ بھگ 14 لاکھ افغان پناہ گزین متاثر ہوں گے۔ ان افراد کے پاکستان میں قیام کی اجازت جون میں ختم ہو گئی تھی۔ان پناہ گزینوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں جائیدادیں فروخت کرنے اور اپنے کاروبار سمیٹنے کے لیے کم از کم ایک برس مزید قیام کی اجازت دی جائے۔پی او آر کارڈز رکھنے والوں کے علاوہ آٹھ لاکھ ایسے افراد بھی پاکستان میں موجود ہیں جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں اور ایسے افراد کو مشرقی پنجاب، جنوب مغربی بلوچستان اور شمالی سندھ کے مختلف علاقوں سے حراست میں کیا گیا ہے۔پاکستان کے افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کے پیر کے فیصلے پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے تنقید کی ہے۔یو این ایچ سی آر کے مطابق رواں برس ایران اور پاکستان سے کم از کم 12 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو جبری طور واپس ان کے وطن بھیجا گیا ہے۔
پی او آر کارڈز رکھنے والوں کے علاوہ آٹھ لاکھ ایسے افراد بھی پاکستان میں موجود ہیں جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی ملک واپسی سے معاشی چیلینجز کی شکار افغانستان کی حکومت کے لیے مسائل میں اضافہ ہو گا۔
پاکستان کی حکومت نے 31 جولائی کو ایک حکم نامے میں کہا تھا کہ وہ تمام افغان شہری جن کے پی او آر کارڈز زائد المیعاد ہو چکے ہیں، انہیں ملک سے بے دخل کیا جائے گا۔اس نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جن افغانوں کے پاس پاسپورٹ اور پاکستانی ویزا نہیں ہے، انہیں ہر صورت میں اپنے وطن واپس جانا ہو گا۔صوبہ خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کے کمشنر شکیل خان نے بھی کہا ہے کہ ’جو افغان پاکستان میں غیرقانونی طور پر پاکستا میں مقیم ہیں، انہیں باوقار طریقے سے واپس بھیجا جائے گا۔‘35 سالہ افغان شہری رحمت اللہ نے بتایا کہ ان کا خاندان کئی دہائیاں قبل پاکستان کے شہر پشاور منتقل ہوا تھا اور اب وہ وطن واپسی کی تیاری کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے پانچ بچے ہیں اور مجھے تشویش ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔‘
’میں یہاں پیدا ہوا، میرے بچے بھی یہیں پیدا ہوئے اور اب ہم واپس جا رہے ہیں۔‘گزشتہ 40 برسوں کے دوران لاکھوں افغان باشندے جنگ، سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات سے بچنے کے لیے پاکستان آئے۔
سنہ 2023 میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد ملک بدری کی مہم دوبارہ شروع کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے پاکستانی حکومت کے حالیہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانوں کو اس انداز میں واپس بھیجنا جبری واپسی کے مترادف ہے اور یہ کسی ریاست کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے۔‘انہوں نے 40 برس سے زائد عرصے تک لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کو سراہتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان شہریوں کی واپسی کے لیے ’انسان دوست، رضاکارانہ، بتدریج اور باوقار طریقہ کار‘ اپنائے۔‘