یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی محصولات پر تنازع چل رہا ہے اور امریکی صدر انڈیا پر 25 فیصد ٹیرف کا اعلان پہلے ہی کر چکے تھے تاہم اب انھوں نے مزید محصولات لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ دہلی نے ٹرمپ کی اس دھمکی کو ’غیر منصفانہ اور غیر معقول‘ قرار دیا ہے۔

انڈیا نے پہلی بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روسی تیل خریدنے پر محصولات میں اضافے کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’امریکہ نے خود انڈیا کو روسی گیس درآمد کرنے کی ترغیب دی تھی۔‘
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے آن لائن پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر سوموار کو لکھا تھا کہ ’انھیں (انڈیا کو) اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ یوکرین میں روسی جنگی مشین کتنے لوگوں کو مار رہی ہے۔‘
یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی محصولات پر تنازع چل رہا ہے اور امریکی صدر انڈیا پر 25 فیصد ٹیرف کا اعلان پہلے ہی کر چکے تھے تاہم اب انھوں نے مزید محصولات لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ دہلی نے ٹرمپ کی اس دھمکی کو ’غیر منصفانہ اور غیر معقول‘ قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ انڈیا اس وقت روسی تیل کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہے۔ سنہ 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد جب کئی یورپی ممالک نے روس سے تجارت بند کی تو انڈیا ماسکو کے لیے ایک اہم برآمدی منڈی بن گیا۔
انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ نے خود انڈیا کو روسی گیس درآمد کرنے کی ترغیب دی تھی تاکہ ’عالمی توانائی کی منڈیوں میں استحکام لایا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا نے روس سے درآمدات اس وقت شروع کیں جب روایتی ذرائع یورپ کی طرف منتقل ہو گئے۔‘
انڈیا نے امریکہ پر تنقید بھی کی کہ وہ انڈیا پر ٹیرف عائد کر رہا ہے جب کہ خود روس کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔ پچھلے سال امریکہ کی سخت پابندیوں اور محصولات کے باوجود روس سے اس کی اندازاً 3.5 ارب ڈالر مالیت کی تجارت ہوئی۔
دوسری جانب امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپانڈیا کا ’تلخ‘ جواب
انڈین وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’ہر بڑی معیشت کی طرح انڈیا بھی اپنے قومی مفادات اور اقتصادی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘
گذشتہ ہفتے ٹرمپ نے انڈیا کو ’دوست‘ قرار دیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ امریکی مصنوعات پر انڈیا کے ٹیرف ’بہت زیادہ‘ ہیں اور انھوں نے روس کے ساتھ انڈیا کی تجارت پر ایک غیر واضح ’سزا‘ کی وارننگ دی تھی۔
ان کا تازہ ترین ’ٹروتھ سوشل‘ پیغام بھی تنقیدی لہجے میں ہے۔ انھوں نے لکھا: ’انڈیا نہ صرف بڑی مقدار میں روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ اس میں سے اکثر تیل کو کھلی منڈی میں بھاری منافع کے ساتھ بیچ بھی رہا ہے۔‘
سابق انڈین تجارتی افسر اور دہلی میں قائم تھنک ٹینک ’گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو‘ (جی ٹی آر آئی) کے سربراہ اجے سریواستو نے کہا ہے کہ انڈیا کی روس سے تیل کی تجارت کے بارے میں ٹرمپ کے دعوے کئی لحاظ سے گمراہ کن ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تجارت شفاف طریقے سے ہوئی ہے اور امریکہ اس سے بخوبی واقف ہے۔
سریواستو نے کہا کہ انڈیا نے روسی تیل کی خریداری میں اضافہ اس لیے کیا تاکہ مغربی پابندیوں سے متاثرہ سپلائی کے بعد عالمی منڈیوں کو مستحکم رکھا جا سکے۔
ان کے مطابق اس قدم سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کے بحران سے بچنے میں مدد ملی۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’انڈیا کی تیل صاف کرنے والی کمپنیاں، خواہ سرکاری ہوں یا نجی، خام تیل کی خریداری کا فیصلہ قیمت، فراہمی کے تحفظ اور برآمدی قوانین جیسے عوامل کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں حکومت سے آزاد ہوتی ہیں اور انھیں روس یا کسی اور ملک سے تیل خریدنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
’انڈیا میں اب امریکہ پر کون بھروسہ کرے گا؟‘
ٹرمپ کی تازہ دھمکی سے قبل سٹیفن ملر نے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں انڈیا اور روس کے درمیان تجارت پر تبصرہ کیا تھا۔
ملر نے کہا: ’لوگ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ انڈیا روس سے تیل خریدنے کے معاملے میں چین کے برابر ہے۔ یہ حیران کن ہے۔ انڈیا خود کو ہمارا قریبی دوست کہتا ہے، لیکن ہماری مصنوعات نہیں خریدتا۔ انڈیا امیگریشن میں بے ضابطگیاں پیدا کرتا ہے۔ یہ امریکی کارکنوں کے لیے بہت خطرناک ہے اور روسی تیل بھی خریدتا ہے، جو کہ قابل قبول نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، لیکن ہمیں حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔‘
آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (او آر ایف) کے سینیئر فیلو سوشانت سرین ٹرمپ کی دھمکی کو انڈیا-امریکہ تعلقات کے درمیان اعتماد میں کمی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
انھوں نے ایکس پر لکھا: ’یہ دلچسپ ہے! انڈیا نے روس کے ساتھ یورپی یونین اور امریکہ کی تجارت کا ذکر کیا لیکن چین کی جانب سے روس سے تیل خریدنے اور ٹرمپ کے چین پر رویے کا ذکر نہیں کیا۔ امریکہ نے انڈیا کا اعتماد کھو دیا ہے۔ اگر ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف اٹھا بھی لیے جاتے ہیں تو انڈیا میں اب امریکہ پر کون بھروسہ کرے گا؟‘
امریکی صدر نے انڈیا کو کئی مرتبہ ’دوست‘ ملک کہا لیکن محصولات کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں دیانڈیا میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے ترجمان اور سینیئر لیڈر جے رام رمیش نے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے موجود مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے ٹرمپ کے بیان کے جواب میں لکھا کہ ’ہاؤڈی مودی کے لیے اتنا کچھ۔ نمستے ٹرمپ کے لیے اتنا کچھ۔ اب کی بار ٹرمپ سرکار کے لیے اتنا کچھ (کرنے کے بعد) نریندر مودی کو انڈیا کا ٹرمپ کارڈ قرار دینے والے بی جے پی کے اراکین پارلیمنٹ کے لیے بہت کچھ ہے۔ اتنا گلے ملنے، مصافحہ کرنے، اور بلند آواز میں برومانس (برادرانہ رومانس) دکھانے کے باوجود ’مائی فرینڈ ڈولانڈ‘ نے ایک اور جھٹکا دیا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’ٹیرف کے تھپڑ مارے جا رہے ہیں۔ مذاکرات کسی طرف نہیں جا رہے ہیں۔ لیکن عاصم منیر وائٹ ہاؤس میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں۔ یہی ہوتا ہے جب خارجہ پالیسی قومی مفاد میں نہیں بلکہ امیج بلڈنگ پر بنایا جاتا ہے۔‘
اس کے برعکس ایک دوسرے کانگریس کے رکن پارلیمان منیش تیواری نے ٹرمپ کو نشانہ بناتے ہوئے لکھا: ’آپ کے ملک نے 1971 میں خلیج بنگال میں 7 واں بحری بیڑہ بھیجا تھا تاکہ ہم جنوبی ایشیا کا سیاسی نقشہ نہ بدل سکیں، ہم نے اس کا سامنا کیا۔‘
’ایک قوم کے طور پر، ہم آپ کے ٹیرف کی دھمکیوں پر قابو پانے کے اہل ہیں۔ اس مسئلے پر توجہ دینے کے لیے آپ کا شکریہ۔‘
انڈین خاتون گُرمِہر کور نے صدر ٹرمپ کی دھمکی کے جواب میں لکھا: ’ایک ایسی قوم جو غزہ پر اسرائیل کی جنگ کو ہتھیار دیتی ہے، دوسرے کو بینک رول کرتی ہے، ایپسٹین کے کلائنٹ کی فہرست کو دفن کرتی ہے، اور فلسطینی بچوں کو بھوک سے مرنے کے دہانے پر لاتی ہے، وہ انڈیا کے توانائی کے انتخاب یا تجارتی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کم از کم ٹرمپ (تو نہیں رکھتے)۔‘
نلنی اناگر نامی ایک ایکٹوسٹ نے لکھا: ’امریکہ نے تیل کے لیے عراق پر بمباری کی، منافع کے لیے افغانستان کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اب قانونی طور پر، سستے داموں روسی تیل خریدنے کے لیے انڈیا کو لیکچر دیتا ہے۔ دوہرا معیار اب کام نہیں کرتا، مسٹر ٹرمپ۔ انڈیا نے روس-یوکرین جنگ نہیں کرائی ہے۔ نیٹو کی ناکامیوں پر خون بہانا انڈیا کا کام نہیں ہے۔‘
بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ کی بنیاد پر انڈیا کی توہین کر رہے ہیں لیکن مودی خاموش ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ امریکہ کو دوہرے معیار کے لیے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
جوے داس نامی ایک صارف نے لکھا: ’اگرچہ میں نریندر مودی کا ناقد رہا ہوں لیکن ایک بات مجھے معلوم ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ انڈیا کی توہین کر رہے ہیں، نریندر مودی زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے۔ بہت جلد وہ اپنی خاموشی توڑیں گے اور اس کا الزام نہرو پر ڈالیں گے۔‘
بہرحال انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے آنے والے بیان کے بعد بہت سے بی جے پی کے لوگ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ انڈیا ٹرمپ کی دھمکیوں کے سامنے جھکنے والا نہیں ہے۔ ایسے میں اگر کوئی انھیں ٹرمپ سے ان کی محبت کو یاد دلا رہا ہے تو ان کی جانب سے یہ جواب دیا جا رہا ہے کہ انھوں نے پہلے ٹرمپ کی حمایت انڈیا کے مفاد کے لیے کی اور ان کی مخالفت بھی انڈیا کے مفاد میں کر رہے ہیں۔
سدھارتھ نامی ایک صارف نے سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر لکھا: ’ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کو روس کے ساتھ تجارتی تعلقات پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جبکہ غزہ میں جاری نسل کشی، چھوٹے بچوں کو قتل کرنے اور پوری آبادی کو بھوک سے مرنے کے لیے فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔ امریکی منافقت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔‘