بھارت میں فضائی سفر کے دوران ایک مسلمان مسافر پر ہاتھ اٹھانے کا واقعہ نہ صرف سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنا بلکہ متاثرہ شخص کی اچانک گمشدگی نے بھی معاملے کو مزید حساس بنا دیا۔ واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اب اس مسافر کے حوالے سے اہم تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
یہ واقعہ انڈیگو کی ممبئی سے کولکتہ جانے والی پرواز 6E-138 میں پیش آیا، جہاں 32 سالہ حسین احمد مجمدار دورانِ پرواز گھبراہٹ کا شکار ہوئے۔ جیسے ہی وہ جہاز کے اندر راہداری سے گزر رہے تھے، ایک دوسرے مسافر نے انہیں تھپڑ مار دیا۔ واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم مسافر تشدد کی وضاحت یوں کر رہا ہے کہ حسین اس کے لیے مسئلہ بن رہا تھا۔
پرواز کے کولکتہ پہنچنے پر ایئرپورٹ سکیورٹی نے تشدد کرنے والے شخص کو حراست میں لیا، مگر کچھ دیر بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ دوسری طرف حسین احمد، جو آسام کے ضلع کاچر کے رہائشی اور ممبئی کے ایک ہوٹل میں ملازمت کرتے ہیں، ایئرپورٹ سے نکل کر لاپتہ ہو گئے۔ ان کے اہل خانہ، جو سلچر ایئرپورٹ پر ان کا انتظار کر رہے تھے، اس اچانک غائب ہونے سے لاعلم تھے۔
ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اہل خانہ نے ان سے رابطے کی کوشش کی، لیکن ان کا فون مسلسل بند ملا۔ معاملہ سنگین ہونے پر ان کے والد عبدالمنان مجمدار نے پولیس کو اطلاع دی۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ حسین نہ تو کولکتہ سے سلچر جانے والی کسی پرواز پر سوار ہوئے اور نہ ہی کسی اور منزل پر روانہ ہوئے۔
کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد پولیس کو اطلاع ملی کہ حسین احمد آسام کے ضلع برپیٹا کے ریلوے اسٹیشن پر موجود ہیں۔ انہیں وہاں سے بازیاب کیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کے مطابق بازیابی کے وقت حسین ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور دکھائی دے رہے تھے، اور اب انہیں گھر واپس بھیجا جا رہا ہے۔
دوسری جانب، انڈیگو ایئرلائن نے واقعے پر باضابطہ ردعمل دیا ہے اور تشدد کرنے والے مسافر پر اپنی تمام پروازوں میں سفر پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ مسافروں کے تحفظ، ذہنی صحت اور اقلیتی برادریوں کے ساتھ برتاؤ سے متعلق ضوابط پر عملدرآمد کس حد تک مؤثر ہے۔ حسین احمد جیسے مسافر، جو ایک معمول کے سفر پر نکلے تھے، ایک خوفناک تجربے سے دوچار ہو کر خاموشی سے گم ہو گئے، اور یہ خاموشی سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔