ماہرین کے مطابق یہ جزائر 1921 میں برطانوی کنٹرول میں چلے گئے تھے۔ لیکن جب 1971 میں برطانوی افواج خطے سے نکل گئیں تو متحدہ عرب امارات کے باضابطہ فیڈریشن بننے سے دو دن پہلے، ان علاقوں میں ایران کی خودمختاری بحال ہو گئی۔

خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) نے ایران کے زیر کنٹرول تین جزائر پر متحدہ عرب امارات کے دعوے کی حمایت کرتے ہوئے تہران کو خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے اس تنازع کو حل نہ کیا گیا تو اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائے گا۔
بحرین کے دارالحکومت ماناما میں ہونے والے اجلاس میں جزائر ابو موسیٰ، تنب بزرگ اور تنب کوچک پر متحدہ عرب امارات کے دعوے کو تسلیم کیا گیا ہے۔
تہران نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ تینوں جزائر ایرانی سرزمین کا حصہ ہیں اور اس نے اس معاملے پر کسی بھی قسم کے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
خلیج تعاون کونسل نے تینوں جزائر پر ایران کی انتظامی، فوجی اور تعمیراتی سرگرمیوں کو بھی ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا ہے۔
کچھ ایرانی ذرائع ابلاغاسے ایران اور اسرائیل کی رواں برس 12 روزہ جنگ کے ماحول میں ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
جی سی سی ممالک کے اعلامیے میں عرش (الدرہ) گیس فیلڈ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کویت اور سعودی عرب کا کہنا ہے کہ یہ میدان (گیس فیلڈ) مکمل طور پر اُن کے مشترکہ علاقے میں شامل ہے اور وہ اس جگہ ایرانی سرگرمیوں کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق ان دعوؤں کو دہرا کر خلیج تعاون کونسل تہران پر بیک وقت تینوں جزائر، عرش اور ایران کے میزائل اور جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔
کونسل کے حالیہ بیان پر ایران کا ردعمل بھی فوری اور جارحانہ تھا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے حکام نے اس بات پر زور دیا کہ تینوں جزائر ’ایران کی سرزمین کا ایک لازمی حصہ‘ ہیں اور اسے کسی ’بین الاقوامی اتھارٹی‘ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

متعدد سیاسی اور فوجی حکام نے بھی کونسل کی زبان کو ’قانونی بنیادوں کے بغیر‘ قرار دیا ہے اور یاد دلایا کہ جنگ کے بعد کے عدم استحکام کو ’سرخ لکیروں کی جانچ‘ کا بہانہ نہیں ہونا چاہیے۔
ایسے ماحول میں تین جزیرے صرف ایک تاریخی تنازع ہی نہیں ہیں۔ وہ ایک سٹریٹجک مسئلہ بن گئے ہیں جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ایران اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد علاقائی ممالک سے کیسے روابط رکھتا ہے۔
تین جزائر کا تنازع ہے کیا؟
ایران کا دعویٰ ہے کہ ابوموسیٰ، تنب بزرگ اور تنب کوچک کے جزائر تاریخی طور پر ایران کا حصہ رہے ہیں۔ ایران کا یہ موقف رہا ہے کہ تاریخی، قانونی اور جغرافیائی دستاویزات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ علاقے ایران کا حصہ ہیں۔ لیکن متحدہ عرب امارات ان جزائر پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ جزائر سنہ 1921 میں برطانوی کنٹرول میں چلے گئے تھے لیکن جب سنہ 1971 میں برطانوی افواج خطے سے نکل گئیں تو متحدہ عرب امارات کے باضابطہ فیڈریشن بننے سے دو دن پہلے، ان علاقوں میں ایران کی خودمختاری بحال ہو گئی تھی۔
خلیج تعاون کونسل نے تین جزائر کا معاملہ 1990 کی دہائی میں اپنے بیانات میں شامل کرنا شروع کیا۔ اُس وقت متحدہ عرب امارات نے تنازع کو دو طرفہ سے نکل کر جی سی سی کے اجلاسوں میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کیں۔
اس کے بعد سے لے کر اب تک خلیج تعاون کونسل کے وزارتی یا سربراہی اجلاسوں میں ان تین جزائر کا ذکر شامل کیا جاتا رہا ہے۔
21 ویں صدی کے آغاز میں ایران کی بڑھتی ہوئی جوہری قوت اور خطے کے ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات میں پیچیدگی کو ایک ساتھ رکھا گیا۔
متحدہ عرب امارات کے لیے، جزائر پر مسلسل زور نہ صرف جغرافیائی و سیاسی مسئلہ ہے، بلکہ، کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ’قوم کی تعمیر‘ کے عمل کا حصہ ہے۔ ایک شناخت جو ’مشترکہ قومی مطالبے‘ کو اجاگر کرنے سے مضبوط ہوتی ہے۔
تین جزیروںپر متحدہ عرب امارات کے دعوؤں پر اپنے سخت ردعمل کے باوجود، ایران نے اس ملک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھا ہے۔ یو اے ای، خاص طور پر پابندیوں میں شدت کے بعد سے، ایرانی کمپنیوں کے لیے تجارت اور سرگرمیوں کے اہم مراکز میں سے ایک بن گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ساتھامریکہ اور یورپ کی یکجہتی
مختلف مواقع پر امریکہ بھی، اس تنازع کے حل کی کوششیں کرتا رہا ہے اور اس ضمن میں یو اے ای کی حمایت کرتا ہےگذشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکہ میں صدر اوباما اور جو بائیڈن کی انتظامیہ مختلف اوقات میں اس تنازع کے پرامن حل پر زور دیتی رہی ہے۔ امریکہ اس معاملے پر امارات کا حمایتی رہا ہے۔
سنہ 2012 میں اوباما انتظامیہ نے امارات کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا تھا، جس پر ایران نے شدید ردِعمل دیا تھا۔
سنہ 2024 میں امریکہ اور امارات نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں تینوں جزائر پر تنازع کو بین الاقوامی قانون کے مطابق حل کرنے پر زور دیا تھا۔ ایران نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بین الاقوامی فورمز میں جزائر پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔‘
تین جزائر پر ایران کے دو پرانے اتحادیوں کے خیالات

جولائی 2023 میں روس کے وزرائے خارجہ اور عرب ریاستوں کی کونسل کے مشترکہ بیان کے بعد ’اس تنازع کو حل کرنے کے لیے امارات کے اقدام‘ کی حمایت کرنے کے بعد، تہران میں روسی سفیر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کیا گیا۔
جولائی 2014 میں بیجنگ کی جانب سے عرب ممالک کے ساتھ ایسا ہی بیان جاری کرنے کے بعد ایرانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا تھا اور اسی سال جون میں چینی سفیر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ، ایران، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، لیکن جزائر کے معاملے میں ان دونوں طاقتوں میں سے کسی نے بھی تہران کے اس معاملے پر سرکاری موقف کی تائید نہیں کی۔
جزائر، جنگ اور گیس فیلڈ
ماہرین کے مطابق ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ نے خطے میں سکیورٹی ماحول تبدیل کر دیا ہے اور کئی عرب حکومتوں نے اسے ایران کے پڑوس میں بڑھتے ہوئے خطرے کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس تبدیلی نے خلیج تعاون کونسل کو اپنے پرانے دعوؤں کو زیادہ پُر زور لہجے میں پیش کرنے کا موقع دیا ہے۔
اس عرصے کے دوران عرش گیس فیلڈ جسے سعودی عرب اور کویت میں ’الدرہ‘ کہا جاتا ہے، ایک بار پھر تنازع کا اہم محور بن گیا ہے۔
منقسم سمندری علاقوں سے متعلق اپنے معاہدوں کی بنیاد پر، کویت اور سعودی عرب ’الدرہ‘ کو دونوں ممالک کی مشترکہ سرزمین سمجھتے ہیں۔ لیکن ایران اسے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔
ایرانی حکام کا موقف رہا ہے کہ تنازع کا حل ’کویت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کی صورت میں‘ آگے بڑھنا چاہیے، یہ موقف تعاون کونسل کے کثیر جہتی بیانات سے مختلف ہے۔
حالیہ عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ ایران کے سیاسی اور عسکری حکام جزائر کے تواتر کے ساتھ دورے کرتے رہے ہیں۔ حکومتی نمائندے بھی ابو موسی کے دوروں کے دوران ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرتے رہے ہیں۔
تجزیہ کار کامران متین کہتے ہیں کہ جزائر کے حوالے سے خلیجی ممالک اور عالمی دباؤ کو ایران کی خودمختاری سے جوڑا جاتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ نے مغربی حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان تقسیم پیدا کر دی ہے، وہیں ایران کے ساتھ صورتحال مختلف ہے۔
ان کے بقول ایران کے جوہری اور میزائل پروگراموں کے ساتھ ساتھ تہران کے علاقائی کردار پر مغربی ممالک اور بہت سی خلیجی عرب ریاستوں کے درمیان وسیع تر اتفاقِ رائے ہے اور یہ ایران کو مزید کمزور پوزیشن میں ڈال دیتا ہے۔
اُن کے خیال میں غزہ کی جنگ کے خاتمے سے ان طاقتوں کی ایران پر توجہ مرکوز ہو سکتی ہے اور ملک پر سیاسی اور سکیورٹی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
متین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سعودی عرب، مصر اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ، گذشتہ دو برسوں میں ایران کے بہتر ہوتے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ بنیادی اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیں۔