الگ الگ عدالتوں سے سامنے آنے والے فیصلوں میں ناصرف پی ٹی آئی رہنماؤں کو دی جانے والی سزاؤں کی مدت، یعنی دس سال، ایک جیسی ہے بلکہ ان تینوں فیصلوں میں پنجاب پولیس کے تین اہلکاروں کی گواہیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جنھوں نے انسداد دہشت گردی عدالتوں کو بتایا کہ وہ کیسے ’پی ٹی آئی کے کارکنوں‘ کے بھیس میں اہم میٹنگز میں شریک ہوئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں پرتشدد احتجاج ہوا تھاگذشتہ چند ہفتوں کے دوران سرگودھا، فیصل آباد اور لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے پاکستان تحریک انصاف کے درجنوں اراکینِ پارلیمان، مرکزی رہنماؤں اور کارکنوں کو نو مئی 2023 کے جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری اور سکیورٹی املاک پر حملہ آور ہونے کے الزامات کے تحت قید کی سزائیں سُنائی ہیں۔
پاکستان کی فوج اور حکومت نو مئی کو پیش آنے والے واقعات کو ’ملک کے خلاف منظم اور سوچی سمجھی سازش‘ قرار دیتے رہے ہیں، مگر اس مبینہ سازش کی منصوبہ بندی کیسے اور کہاں کی گئی؟ اس کا ذکر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے سامنے آنے والے فیصلوں میں پراسیکیوشن (استغاثہ) کے دلائل میں ملتا ہے۔
الگ الگ عدالتوں سے سامنے آنے والے فیصلوں میں ناصرف پی ٹی آئی رہنماؤں کو دی جانے والی سزاؤں کی مدت، یعنی دس سال، ایک جیسی ہے بلکہ ان تینوں فیصلوں میں لاہور پولیس کے دو اہلکاروں حسام افضل اور محمد خالد کی گواہیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ راولپنڈی پولیس کی سپیشل برانچ کے ایک سابق انسپیکٹر عصمت کمال کی گواہی کا فیصل آباد اور سرگودھا سے آنے والے فیصلوں میں ذکر ہے۔
ان تینوں پولیس اہلکاروں نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو بتایا کہ وہ کیسے ’پی ٹی آئی کے کارکنوں‘ کے بھیس میں اہم میٹنگز میں شریک ہوئے جہاں سے انھیں اس مبینہ سازش کی تفصیلات معلوم ہوئیں۔
پولیس اہلکاروں کی گواہیاں
فیصل آباد اور سرگودھا کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق پراسیکیوشن کے گواہ اور راولپنڈی پولیس کی سپیشل برانچ کے سابق انسپیکٹر عصمت کمال کا دعویٰ تھا کہ ’مخبر کی اطلاع ملنے کے بعد‘ انھوں نے چار مئی کو پی ٹی آئی کارکن کا روپ دھار کر لاہور، اسلام آباد موٹروے کے چکری ریسٹ ایریا میں واقع ’روز ہوٹل‘ میں ایک ’خفیہ میٹنگ‘ میں شرکت کی تھی۔
انسپیکٹر عصمت کمال کا عدالت کے سامنے دعویٰ تھا کہ اِس میٹنگ میں عمران خان سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنما اور قیادت موجود تھی جبکہ بعض پارٹی کارکنان اور رہنماؤں نے بذریعہ زوم ایپ میٹنگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
انھوں نے عدالت کے روبرو الزام عائد کیا کہ اِس میٹنگ کے دوران عمران خان نے پارٹی کو ہدایت دی تھی کہ وہ 6 مئی کو راولپنڈی میں مریڑ چوک سے کچہری چوک تک ریلی نکالیں اور جی ایچ کیو کے قریب ’کچہری چوک کو بلاک کر دیں کیونکہ یہ فوجی افسران کے زیرِ استعمال مرکزی راستہ ہے۔۔۔ وہ (عمران خان) فوجی افسران کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ پورا ملک بند کر دیں گے۔‘
یاد رہے کہ عمران خان اور اُن کے وکلا اس نوعیت کے الزامات کیتردید کرتے ہیں۔
فیصلوں میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ عصمت کمال نے عمران خان کی یہ ہدایات سننے کا بھی دعویٰ کیا کہ ’اگر انھیں فوج یا رینجرز نے گرفتار کیا تو جی ایچ کیو اور دیگر فوجی افسران کو ہدف بنایا جائے گا۔‘
پولیس افسر نے عدالت میں یہ دعوے بھی کیے کہ عمران خان نے پارٹی کو ہدایت دی کہ ’فوج کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے جائیں۔۔۔‘، ’کوئی رہنما اُن (عمران) کی رہائی تک گھر نہ جائے۔۔۔‘، ’اگر پولیس روکے تو حملہ کریں۔۔۔‘، ’خواتین کارکنان کو بطور ڈھال استعمال کریں۔۔۔‘ اور یہ کہ ’جو بھی میرے لیے فوج کے خلاف کھڑا ہو گا اسے میری کابینہ کا رکن اور ہیرو بنایا جائے گا۔۔۔‘
پراسیکیوشن کی طرف سے نو مئی کی ’سازش‘ کا دعویٰ یہاں تک محدود نہیں۔ استغاثہ کی جانب سے سات مئی اور نو مئی کو زمان پارک لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ پر ہونے والی دو مبینہ میٹنگز کا تذکرہ بھی کیا گیا اور اس ضمن میں پراسیکیوشن کے دو گواہوں، یعنی پولیس اہلکار حسام افضل اور محمد خالد، نے اپنے بیانات عدالتوں میں ریکارڈ کروائے۔
ان گواہان نے اے ٹی سی عدالتوں میں دعویٰ کیا کہ سات مئی کی میٹنگ میں عمران خان نے بتایا تھا کہ وہ نو مئی کو اسلام آباد کی ایک عدالت میں پیش ہوں گے اور انھیں اپنی گرفتاری کا خدشہ ہے۔
گواہان نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے کارکنوں کو ہدایت دی تھی کہ ’اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ یاسمین راشد کی قیادت میں دفاعی محکموں، سرکاری عمارتوں، پولیس سٹیشنز کا جلاؤ گھیراؤ کریں تاکہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔‘
گواہان نے عدالت کے روبرو دعویٰ کیا کہ میٹنگ میں شامل رہنماؤں نے عمران خان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ (عمران خان) اُن کی ’ریڈ لائن‘ ہیں۔
پولیس اہلکاروں کا دعویٰ تھا کہ وہ نو مئی تک زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ پر تعینات تھے اور انھوں نے سادہ کپڑوں میں پی ٹی آئی ورکرز کا روپ دھار کر ’پی ٹی آئی کی قیادت کا اعتماد جیت لیا تھا۔‘
اس کے علاوہ اے ٹی سی کے فیصلوں میں نو مئی کی صبح بھی اسی نوعیت کی ایک میٹنگ کا احوال بیان کیا گیا ہے جس میں پولیس اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے اپنی گرفتاری کی صورت میں پارٹی قیادت کو حساس عمارتوں اور تنصیبات کے مقامات پر پُرتشدد مظاہروں کی ہدایت دی تھی۔
ان کا مزید دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے 'فوج کے خلاف نعرے بازی کی تاکہ فوج میں بغاوت کو اکسایا جائے۔۔۔ اور ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا جائے۔'
تاہم عدالت میں عمران خان، ان کے وکلا، پی ٹی آئی کے دیگر رہنما اور کارکنوں نے عدالتوں میں اس نوعیت کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔
بریت کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا؟
انسداد دہشتگردی عدالتوں میں نو مئی کے کیسز میں ملزمان کی تین اقسام تھیں۔ پہلی وہ جنھیں ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا، دوسری وہ جنھیں ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا مگر اُن کی نشاندہی شناخت پریڈ کے عمل کے دوران ہوئی اورتیسری قسم ان ملزمان کی تھی جن کی نشاندہی جیو فینسنگ کی بنیاد پر کی گئی۔
یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں نے چند پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کو بری بھی کیا ہے۔
اے ٹی سی فیصل آباد نے نو مئی سے متعلق ایک مقدمے میں زین قریشی اور فواد چوہدریسمیت 77 افراد کو بری کیا ہے۔ فیصلے کے مطابق اگرچہ پولیس اہلکاروں نے زین قریشی اور فواد چوہدری کو بھی اس مقدمے میں نامزد کیا تھا مگر یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ وہ سات سے نو مئی کے دوران زمان پارک میں موجود تھے۔
فیصلے کے مطابق فواد چوہدری نے ثابت کیا کہ وہ سات مئی کو بطور چیف گیسٹ ہدایتکار فیصل قریشی کی فلم ’منی بیک گارنٹی‘ دیکھنے گئے تھے۔
جبکہ اے ٹی سی لاہور کے فیصلے کے مطابق پراسیکیوشن شاہ محمود قریشی سمیت کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف کیس ثابت نہیں کر سکی اور یہ کہ انھیں شک کے فائدے کی بنیاد پر بری کیا گیا ہے۔
’پراسیکیوشن نے ٹھوس شواہد پیش کیے، جن کی بنیاد پر سزائیں ہوئیں‘

فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جن تین مقدمات کے فیصلے سنائے ہیں، ان مقدمات میں پیش ہونے والے پراسیکیوٹر شاہد ملک نے نمائندہ بی بی سی شہزاد ملک کو بتایا کہ استغاثہ کی جانب سے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی ملزمان کو مجرم گردانتے ہوئے سزائیں سنائی گئیں ہیں۔
اس کیس میں پیش کیے گئے سرکاری گواہان، یعنی پولیس اہلکاروں سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شاہد ملک کا کہنا تھا کہ چونکہ اِن پولیس اہلکاروں نے نو مئی سے متعلق کی جانے والی ’سازش‘ کے بارے میں خود معلومات لی تھیں اس لیے اگر ملک کے کسی بھی شہر میں 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کی سماعت ہو گی تو یہ پولیس اہلکار بطور سرکار گواہ ان عدالتوں میں پیش ہوں گے۔
شاہد ملک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس سازش کی وجہ سے ہی ملک کےمختلف علاقوں میں سرکاری املاک کے علاوہ حساس عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اس لیے ان کا بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان پولیس اہلکاروں کے علاوہ دیگر گواہانمیں بھی پولیس اہلکار شامل تھے جو مظاہرین کے حملوں میں زخمی ہوئے تھے۔
پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر ہونے والے حملے میں 14 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے جنھیں گواہان میں شامل کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس طرح انسداد دہشت گردی کے دیگر دو مقدمات میں پولیس اہلکار سرکاری گواہان میں شامل ہیں جو 9 مئی کو حملوں کے نتیجے میں زخمی ہوئے تھے۔
شاہد ملک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ مقدمات بہت عرصہ پہلے ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہوتے اگر ان مقدمات میں نامزد ملزمان ہر پیشی پر عدالت میں حاضر ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ مختلف اوقات میں بعض ملزمان کی عدالت میں عدم پیشی کی وجہ سے 9 مئی کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کچھعرصہ پہلے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو حکم دیا تھا کہ 9 مئی کے واقعات سے متعلق درج ہونے والے مقدماتمیں عدالتی کارروائی 4 ماہ میں مکمل کر کے ان کا فیصلہ سنائیں۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرِ قانون عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ بظاہر پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت اتنے وسیع پیمانے پر سیاسی شخصیات کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔
اُن کی رائے میں ’یہ معاملہ توڑ پھوڑ کا تھا جس میں مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور اس میں انسداد دہشتگردی کی دفعات نہیں لگائی جانی چاہیے تھیں۔‘
’ہم نے دہشتگردی کی تعریف کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ پھر بھی یہ لوگ اس میں فِٹ نہیں آتے۔ بظاہر وہ (تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن) یہ سب عوام میں دہشت پھیلانے کے لیے نہیں کر رہے تھے۔‘
عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی مظاہرہ تھا جو ’پُرتشدد، غلط اور غیر قانونی‘ تھا مگر یہ ’دہشتگردی‘ نہیں تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں مبینہ سازش کو ثابت کرنے کے لیے علیل شواہد پیش کیے گئے جن کے بارے میں 'کسی پولیس اہلکار نے سُن لیا تھا یا کسی مخبر خاص نے اطلاع دی تھی'۔۔۔ انھوں نے کہا اسی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں میں اس نوعیت کے فیصلے کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں۔
’یہ فیصلے کسی کورٹ آف اپیل میں اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔۔۔ لیکن یہ فیصلے کب کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، اس کے لیے تمام نظریں اعلی عدالتوں کی طرف ہو گی۔‘
اس سوال پر کہ کیا اے ٹی سی کے فیصلوں میں عدم تسلسل ہے؟ عبدالمعیز جعفری کا کہنا تھا کہ ’کریمینل کیسز میں ہر شخص کے لیے حقائق مختلف ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ تمام لوگ ایک ہی جرم میں ملوث پائے جائیں۔ (اے ٹی سی کے فیصلوں میں) عدم تسلسل یہ ظاہر کرتا ہے کہ۔۔۔ کسی کو کسی چیز کا فائدہ مل رہا ہے تو کسی کو نہیں مل رہا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘
ادھر اے ٹی سی فیصل آباد کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے فوجداری قوانین کے ماہر ایڈووکیٹ عثمان احمد کا کہنا ہے کہ نو مئی کے مقدمات میں پراسیکیوشن کے پاس ٹھوس شواہد کی کمی تھی جن کی بنیاد پر اس پورے معاملے کو ’سوچی سمجھی سازش‘ ثابت کرنا مشکل ہے۔
’ابتدائی فیصلے میں یہاں تک کہاں گیا تھا کہ کسی بھی فرد پر سازش کا الزام سب سے کمزور ہوتا ہے، اسے ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد درکار ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پولیس اہلکاروں کو مبینہ سازش کا پہلے سے علم ہو گیا تھا تو یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کس حد تک حفاظتی اقدامات کیے اور نامزد کردہ کتنے ملزمان کو نقضِ امن کے خدشے کے باعث حراست میں لینے کا حکمنامہ جاری کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر چار، سات اور نو مئی کی صبح ایک چیز کا علم ہو چکا تھا تو اس بارے میں بعد ازاں تاخیر سے کیوں بتایا گیا۔‘
ایڈووکیٹ عثمان احمد 2019 کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر عدالت میں ایک شخص بعض لوگوں پر الزام عائد کرتا ہے تو عدالت یا تو ان کو شواہد تمام افراد کی حد تک سچ مان سکتی ہے یا انھیں مسترد کر سکتی ہے۔‘
اُن کی رائے میں ’اگر پولیس اہلکاروں کی گواہی کے باوجود اکثر پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں دی گئی ہیں مگر چند کو بری کر دیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گواہی کو دو لوگوں کی حد تک نہیں مانا گیا تو باقیوں کی حد تک اُسی گواہی کو کیسے مانا جا سکتا ہے؟‘
ایڈووکیٹ عثمان احمد کا کہنا تھا کہ ’پراسیکیوشن کو کسی شک سے بالاتر ہو کر اپنا کیس ثابت کرنا ہوتا ہے اور اگر ایک ہی کیس میں نامزد ایک ملزم کو شک کا فائدہ ملتا ہے تو دیگر نامزد ملزمان بھی شواہد ناکافی ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور انھیں بھی شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے۔‘

تحریک انصاف اور حکومت کے موقف
تحریک انصاف کے رہنما سلمان اکرم راجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جماعت اے ٹی سی کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کا کیس ان پولیس اہلکاروں کی ’مضحکہ خیز‘ گواہیوں پر مبنی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے چار اور سات مئی کو پی ٹی آئی ورکر کا روپ دھار کر پارٹی کی میٹنگز میں شرکت کی تھی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اے ٹی سی سرگودھا کے ایک سابق جج عباس نے اس گواہی کو مسترد کر کے تمام پی ٹی آئی قیادت کو بری کر دیا تھا مگر اب اسی گواہی کی بنیاد پر لوگوں کو سزا دینا ’بے بنیاد‘ ہے۔
سلمان اکرم راجہ کے مطابق ہائی کورٹ میں یہ فیصلہ زیرِ التوا ہے کہ آیا ان لوگوں کی شہادت قابل یقین ہے اور جب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک کسی کو سزا نہیں ہونی چاہیے تھی۔
وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’اگر یہ اتنی خفیہ میٹنگ ہو رہی تھی تو اِن پولیس اہلکاروں کو وہاں کیسے کسی نے بیٹھنے دیا تھا۔۔۔ اتنی خفیہ میٹنگ جس میں سازش تیار ہو رہی ہے، وہ تو بڑی محدود ہو گی جس میں گنے چنے ٹاپ لیڈر موجود ہوں گے، کوئی ورکر نہیں ہو گا۔ اگر وہاں ورکر موجود نہیں تھے تو یہ لوگ کیسے عمران خان کے ڈرائنگ روم میں پہنچ گئے؟‘
اس سوال پر کہ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کو اے ٹی سی عدالتوں نے کیسے بری کر دیا؟ وہ کہتے ہیں کہ ’سب بے ایمانی پر مبنی تھا۔ جس کو چھوڑنا تھا، انھوں نے چھوڑ دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان (بری ہونے والے رہنماؤں) کا کیس بہت مختلف تھا۔ گواہان نے تو ان لوگوں کو بھی نامزد کیا تھا جن کو بری کیا گیا ہے۔ کیا اب ان کی گواہی قابل اعتماد ہے؟ اگر کوئی گواہی دو لوگوں کے لیے قابل اعتماد نہیں تو کسی کے لیے قابل اعتماد نہیں ہونی چاہیے۔‘
وہ مثال دیتے ہیں کہ اے ٹی سی فیصل آباد کے فیصلے میں زین قریشی اور فواد چوہدری کو بری کیا گیا ہے تاہم پولیس کے دونوں گواہان نے ان کے نام بھی لیے تھے۔ ’اس کا مطلب ہے زین اور فواد کی حد تک ان پولیس اہلکاروں کی گواہی کو درست تسلیم نہیں کیا گیا۔‘
سلمان اکرم راجہ اس معاملے کو 'ڈبل جیپرڈی' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آئین کا آرٹیکل 13 کہتا ہے کہ آپ ایک ہی جرم پر دو بار سزا نہیں دے سکتے کیونکہ الزام تو ایک ہی ہے کہ یہ لوگ ملے اور انھوں نے سازش تیار کی۔۔۔ جب ایک بار وہ سازش ثابت ہی نہیں ہوئی اور وہ معاملہ اب اعلیٰ عدالت میں ہے۔‘
’اگر دوبارہ اس گواہی کو استعمال کیا جا رہا ہے تو اس میں بھی پِک اینڈ چوز کیا گیا ہے۔۔۔ یہ سب ایک ڈھونگ ہے۔‘
دوسری طرف پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے نو مئی کے کیسز میں اے ٹی سی کے فیصلوں کا خیر مقدم کیا تھا۔
جمعرات کو انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ ’آج ملک کے اندر قانون کی حکمرانی اور قانونی دفعات پر عمل درآمد کی جیت کا دن ہے۔ 9 مئی کے حملوں کے ناقابل تردید شواہد موجود تھے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا طویل عرصے تک ٹرائل ہوا۔ عدالت کے سامنے ناقابل تردید شواہد پیش کیے گئے، فیئر ٹرائل ہوا۔ وکلاء نے جرح کی، گواہ پیش ہوئے اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔‘
عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ان تمام چیزوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کی پہچان بالکل کلیئر ہے کہ یہ کون لوگ تھے جو دفاعی تنصیبات کی طرف گئے۔ یہ ان کا گھناؤنا جرم تھا۔‘
بعض لوگوں کی بریت سے متعلق وزیر اطلاعات نے کہا تھا کہ ’کچھ لوگوں نے اختلاف بھی کیا کہ ہمیں یہ حملے نہیں کرنے چاہییں مگر ان بلوائیوں اور حملہ آوروں نے دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔۔۔ آئندہ کوئی بھی ملک دشمن سازش کا حصہ بننے کی جرأت نہیں کرے گا۔‘
انھوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان واقعات کا ’ماسٹر مائنڈ اس جماعت کا بانی ہے جو اس وقت جیل میں ہے جس نے زوم میٹنگز کے ذریعے یہ حملے منظم کروائے۔‘