محکمہ آبپاشی سندھ کے انڈس ریور کمیشن کی سب کمیٹی نے دریائے سندھ کے اہم حفاظتی بندوں ایس ایل بند اور آگانی عاقل لعل بند کے کمزور مقامات کی نشاندہی کرتے ہوئے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر مرمتی کام کی سفارش کردی ہے۔
چیف انجینئر اکرام اللہ قریشی، چیف انجینئر مختار احمد ابڑو اور سپرینٹینڈنگ انجینئر جمیل احمد سانگی پر مشتمل سب کمیٹی نے بندوں کا دورہ کیا اور اپنی تفصیلی رپورٹ سیکریٹری آبپاشی کے توسط سے وزیر آبپاشی کو پیش کردی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایس ایل بند کے مائل 40/3 سے 40/5 کا علاقہ سب سے زیادہ کمزور ہے جو سکھر سے 40 میل، خیرپور لاڑکانہ پل سے 18 میل، اور نئوں دیرو و گڑھی خدابخش کے سامنے رتودیرو میں واقع ہے۔ اس مقام کو 2017ء میں اسٹون پچنگ اور آپرن کے ذریعے مستحکم کیا گیا تھا جبکہ 2024 کے سیلاب میں بند پر دباؤ بڑھنے کے بعد اضافی اقدامات کیے گئے، جن میں 200 میٹر حفاظتی دیوار اور اسٹون بولڈر شیلڈ کی تنصیب شامل تھی۔
اسی طرح آگانی عاقل لوپ بند کے مائل 1/5 سے 2/0 تک کا علاقہ سکھر بیراج سے 43 کلومیٹر دور لاڑکانہ کے سامنے واقع ہے جو دریائے سندھ کے رائٹ بینک کی اولین دفاعی لائن ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مقام گزشتہ 30 برسوں سے پانی کے دباؤ کا سامنا کر رہا ہے اور 1994 ، 2010 اور 2024 کے سیلابوں میں شدید دباؤ برداشت کر چکا ہے جس سے بند کو بارہا نقصان پہنچا ہے۔
مزید برآں اولڈ نیو آباد بند (مائل 0/0 تا 1/3+410) تعلقہ باقرانی میں واقع ہے، جو 2015 ، 2017 اور 2019 کے سیلابوں میں شدید خطرے کی زد میں رہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء میں سکھر بیراج سے 3 لاکھ کیوسک پانی کے بہاؤ کے باعث بند کو بچانے کے لیے انتھک محنت کی گئی تاہم 2700 فٹ چوڑائی کے باوجود بند پر کٹاؤ ہوا۔
سب کمیٹی نے اپنی سفارشات میں تجویز دی ہے کہ ایس ایل بند مائل 40/3 پر ٹی ہیڈ اسپر تعمیر کیا جائے۔ایس ایل بند مائل 40/3 سے 93/3 تک اسٹون پچنگ اور اسٹون آپرن فراہم کیے جائیں۔
سب کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ آگانی عاقل لوپ بند کے مائل 1/16 تک ٹی ہیڈ اسپر اور مائل 2/0 پر اسٹون اسٹڈ تعمیر کیا جائے اور اولڈ و نیو آباد بند 1/3+410 کو مکمل بحال کیا جائے، اور اسٹون پچنگ و آپرن کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
سب کمیٹی نے زور دیا کہ یہ تمام کام سیلاب سے قبل ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیے جائیں اور انہیں روایتی مرمتی منصوبوں کی طرز پر نامکمل نہ چھوڑا جائے، کیونکہ تاخیر یا لاپروائی کی صورت میں دریائے سندھ کے دباؤ سے بڑے پیمانے پر نقصانات کا خدشہ ہے۔