’پیرس کا آخری ہاکر‘: 50 سال سے اخبار بیچنے والے پاکستانی کے لیے اعلیٰ ایوارڈ

image

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں نصف صدی سے اخبار بیچنے والے پاکستانی شخص کو فرانس کا اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 73 سالہ پاکستانی شہری علی اکبر کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ 1973 سے شہر کے فیشن ایبل علاقے لیٹن کوارٹر کی سڑکوں، ریستورانوں اور دوسرے مقامات پر اخبارات فروخت کرتے آ رہے ہیں۔

ٹی وی اور انٹرنیٹ پر آن لائن ایڈیشن آنے کے بعد جب اخبارات کی مانگ میں کمی ہوئی تو انہوں نے فروخت کے لیے مزاح اور بعض دوسرے ایسے اقدامات سے کام لیا جن کی بدولت لوگ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

ستمبر میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں علی اکبر کو ’دی نیشنل آرڈر آف میرٹ‘ سے نوازیں گے اور یہ ایک ایسا انعام ہے جو حکومت کی جانب سے ملک کے لیے سول یا فوجی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔

ٹی وی کی آمد کے بعد 70 کی دہائی میں اخبارات کی فروخت کا کام ایک ایسا پیشہ تھا جو دم توڑ رہا تھا کیونکہ اس کی بدولت خبریں لوگوں تک جلدی پہنچ جاتی تھیں جبکہ انٹرنیٹ آنے کے بعد اس میں تیزی پیدا ہوئی۔

تاہم علی اکبر شہر کے وہ آخری ہاکر ہیں جو آج تک اخبار بیچنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس کے لیے انہوں نے نیا انداز اپنایا ہوا ہے جس میں مسلسل لگن کے علاوہ ان کی مخصوص مسکراہٹ، مزاح اور بعض دوسرے اقدامات شامل ہیں جن سے وہ گاہکوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور اخبارات کی فروخت کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے علی اکبر 1973 سے پیرس میں اخبار فروخت کر رہے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

علی اکبر کا کہنا ہے کہ ’مجھے اخبارات کے لمس سے محبت ہے، میں ٹیبلٹس اور اس قسم کی دوسری اشیا کو زیادہ پسند نہیں کرتا مگر مجھے پڑھنا اچھا لگتا ہے، وہ کتاب کی شکل میں ہو یا پھر کسی شائع شدہ شکل میں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں لکھے ہوئے مواد کو سکرین پر پڑھنا پسند نہیں ہے۔

انہوں نے اخبارات کی فروخت کے حوالے سے بتایا کہ ’میرے پاس اس کے لیے ایک خاص طریقہ ہے، میں اس دوران مزاحیہ جملے بولتا رہتا ہوں جس پر لوگ ہنستے ہیں اور میری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’میں لوگوں کے دلوں میں اترنے کی کوشش کرتا ہوں، جیبوں میں نہیں۔‘

 تاہم دوسری جانب ڈیجیٹل ذرائع کی مقبولیت کے بعد ان کے کام کی رفتار میں کمی آئی ہے جس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں۔

علی اکبر کہتے ہیں کہ ’اب کام کچھ مشکل ہو گیا ہے۔ میں آٹھ گھنٹے میں صرف 20 تک اخبار ہی بیچ پاتا ہوں کیونکہ اب سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا اور کم لوگ ہی اخبار خریدتے ہیں۔‘

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں ستمبر میں علی اکبر کو ایوارڈ سے نوازیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

ان مشکلا ت کے باوجود بھی علی اکبر عزم رکھتے ہیں کہ جب تک ان کی صحت اجازت دے گی وہ اخبار بیچتے رہیں گے۔

وہ یہ خدمات ایک ایسے علاقے میں انجام دیتے ہیں جہاں بڑی بڑی فیشن بوتیکس اور کھانے کے سامان کی دکانوں نے بڑی حد تک کتابوں کی دکانوں کی جگہ لے لی ہے جنہوں نے 20ویں صدی کے بڑے فلسفی پیدا کرنے میں مدد دی تھی۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ علی اکبر ان چیزوں میں سے ایک ہیں جو لیٹن کوارٹر کی اصل شکل برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ان کی ایک گاہک میری لورے کیریئرے کا کہنا ہے کہ ’علی اکبر ایک ادارہ ہیں، میں اور میرے کچھ دوست ان سے روزانہ اخبار خریدتے ہیں، ہم ان کے ساتھ کبھی کبھی کافی بھی پیتے ہیں اور لنچ بھی کرتے ہیں۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US