پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی قید کو دو برس مکمل ہونے پر پارٹی کی جانب سے احتجاج کی کال کے بعد کم از کم چھ صوبائی اراکین اسمبلی اور درجنوں حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 5 اگست 2023 کو عمران خان کو پہلی بار حراست میں لیا گیا تھا۔ ان پر درجنوں مقدمات درج ہیں جنہیں وہ سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔پی ٹی آئی کے لندن میں موجود ترجمان زلفی بخاری نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اب تک متعدد گرفتاریاں رپورٹ ہوئی ہیں، جن میں پنجاب اسمبلی کے سات اراکین بھی شامل ہیں۔‘
یہ گرفتاریاں لاہور میں اس وقت ہوئیں جب عمران خان کے حمایتی اراکینِ اسمبلی احتجاج کے لیے طے شدہ مقام کی طرف جا رہے تھے۔
پارٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر اور ویڈیوز کے مطابق درجنوں مزید حامیوں کو پولیس وینوں میں اٹھا لیا گیا۔بار بار ہونے والے کریک ڈاؤنز نے عمران خان کی جماعت کی سٹریٹ پاور کو کمزور ضرور کیا ہے لیکن ان کی عوامی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔عمران خان کو سنہ 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔وہ اگست 2023 سے حراست میں ہیں اور ان پر درجنوں مقدمات درج کیے گئے ہیں جنہیں وہ سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔جنوری میں انہیں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ سزا سنائی گئی تھی۔ عمران خان کو 14 برس اور ان کی اہلیہ کو 7 برس قید کی سزا دی گئی تھی۔اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالتوں نے سنہ 2023 میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے دوران ہونے والے ملک گیر احتجاج میں ملوث پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنان، اراکین اسمبلی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو سزائیں سنائی تھیں۔ان سزاؤں کا اعلان جولائی اور اگست میں کیا گیا جن میں ہنگامہ آرائی پر اکسانے کے الزامات میں 10 سال تک کی سزائیں شامل ہیں۔دوسری جانب عمران خان کے بیٹے قاسم اور سلیمان نے ان کی رہائی کے لیے بین الاقوامی میڈیا مہم شروع کر دی ہے۔منگل کو پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارالحکومت مطفرآباد میں بھی پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین اور پولیس کا آمنا سامنا ہوتا رہا اور اس دوران کئی رہنما اور کارکن گرفتار بھی ہوئے۔