اتراکھنڈ میں سیلابی ریلے سے تباہی، پانچ ہلاک اور فوجیوں سمیت 100 سے زیادہ لاپتہ: ’پہلی لہر بہت خوفناک تھی، آنکھوں کے سامنے ہوٹل بہہ گیا‘

انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے علاقے اترکاشی میں بادل پھٹنے کے بعد آنے والے سیلابی ریلے سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ 100 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جن میں انڈین فوج کے متعدد جوان بھی شامل ہیں۔

انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے ضلع اترکاشی میں بادل پھٹنے کے بعد آنے والے سیلابی ریلے سے کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ 100 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جن میں انڈین فوج کے متعدد جوان بھی شامل ہیں۔

کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنے کا واقعہ منگل کی دوپہر پیش آیا، جس نے دھرالی گاؤں کو متاثر کیا۔ انڈیا کے محکمۂ موسمیات نے اترکاشی ضلعے اور آس پاس کے علاقوں کے لیے ریڈ الرٹ جاری کیا تھا اور بتایا ہے کہ 24 گھنٹے میں وہاں کچھ علاقوں میں 300 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی۔

انڈیا کے نائب وزیر دفاع سنجے سیٹھ نے خبر رساں اجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’صورتحال سنگین ہے۔ ہمیں تقریبا 100 لوگوں کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی ہے۔ ہم ان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔‘

اترکاشی پولیس کے مطابق بدھ کو جاری تلاش اوربچاؤ کی کارروائیو کے دوران دھرالی کے ایک رہائشی کی لاش برآمد ہوئی ہے جس کے بعد اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق ’ریسکیو ٹیموں نے تباہی کے مقام سے 135 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا ہے اور اترکاشی کے ضلعی مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ آفات سے متاثرہ علاقوں کی مسلسل نگرانی اور معائنہ کر رہے ہیں۔‘

بی بی سی اردو کے نیاز فاروقی کے مطابق چین کی سرحد کے قریبدریائے کھیر گنگا کے کنارے واقع دھرالی ہندوؤں کے مقدس چار دھام یاترا کے راستے میں ایک اہم جگہ ہے اور سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے یہاں ہوٹلوں اور رہائشی عمارتوں کی بہتات ہے سے بھرا ہوا ہے اور ہے۔

سانحے کے وقت ریکارڈ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مٹی اور پتھروں والے پانی کا ایک زبردست ریلا گاؤں کی طرف بڑھتا ہے اور مکانات، دکانوں اور دیگر عمارتوں کو بہا لے کر جاتا ہے۔

ڈی آئی جی این ڈی آر ایف محسن شہیدی نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق ’اس واقعے میں 40 سے 50 مکانات بہہ گئے ہیں اور درجنوں افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے۔‘

مقامی حکام نے خبردار کیا کہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انڈین آرمی کے نو فوجی بھی لاپتہ، آرمی کیمپ بھی متاثر

انڈین فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل منیش سریواستو نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ 14 راجپوتانہ رائفلز کے کمانڈنگ آفیسر کرنل ہرش وردھن 150 فوجیوں کے ساتھ راحت اور بچاؤ کی کارروائیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ لیکن ’ان کا یونٹ بھی شدید بارشوں سے متاثر ہوا ہے اور ان کے نو جوان اب بھی کیمپ سے لاپتہ ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کیمپ میں پانی داخل ہونے کے بعد کل 11 فوجی لاپتہ ہو گئے تھے تاہم بعد میں دو فوجی محفوظ پائے گئے۔ باقی نو فوجی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ان کی تلاش جاری ہے۔‘

آفت زدہ دھرالی گاؤں سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک فوجی کیمپ قائم ہے۔ اس کے پیش نظر فوج کے ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک انفارمیشن (اے ڈی جی، پی آئی) نے ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعے حادثے کی معلومات شیئر کی ہیں۔

بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر مندیپ ڈھلوں نے بتایا کہ ہرشل پوسٹ پر تعینات فوج کے دستے نے سب سے پہلے موقع پرکارروائی کی اور صرف 10 منٹ میں دھرالی گاؤں پہنچ گئے۔

انھوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن ابھی بھی جاری ہے اور اب تک تقریباً 20 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ زخمیوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔

بریگیڈیئر ڈھلوں کے مطابق لینڈ سلائیڈنگ اور بادل پھٹنے کے اس واقعے میں آرمی کیمپ کا ایک حصہ اور ریسکیو ٹیم بھی متاثر ہوئی ہے۔

دریں اثنا، دھرالی کے مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ تباہی کی سطح بہت بڑی ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر جان و مال کا نقصان ہوا ہے۔

کرنل ہرش وردھن کے مطابق ’امدادی کارروائیوں میں تیزی لانے کے لیے فوج کے اضافی دستے، فوج کے ٹریکر کتے، ڈرون اور ملبہ ہٹانے کا سامان وغیرہ بھیج دیا گیا ہے۔ ضروری سامان، ادویات لے جانے اور پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے فوج اور فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بارش کے پانی کی سطح کو دیکھتے ہوئے مقامی باشندوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔‘

ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کو ٹیگ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’ ریاستی حکومت کی نگرانی میں راحت اور بچاؤ ٹیمیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ عوام کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔‘

حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے بھی جانی مالی نقصان پر پر گہرے دکھ کا اظہار اور کانگریس کے اراکین سے ہر ممکن امداد کی اپیل کی ہے۔

عینی شاہد نے کیا بتایا؟

دھرالی گاؤں کی رہائشی آستھا پوار نے بی بی سی کے نامہ نگار وکاس ترویدی کے ساتھ بات چیت میں اس ہولناک واقعے کو بیان کیا۔

آستھا نے کہا: ’میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہت سے ہوٹل بہتے دیکھے، ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ایک ساتھ بہہ گئے۔ جو پہلی لہر آئی وہ بہت شدید اور خوفناک تھی، آپ نے وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی، اس کے بعد بھی ہر 10-15 یا 20 منٹ بعد ملبے کی چھوٹی چھوٹی مزید لہریں آ رہی ہیں اور وہ بھی ہوٹلوں کو بہا کر لے جا رہی ہیں۔ ایک ایک دو دو ہوٹل بہتے دیکھے جا سکتے ہیں۔‘

کیا حکومت یا انتظامیہ نے پہلے سے کوئی اطلاع دی تھی؟ آستھا کا کہنا ہے کہ وہ اس سے واقف نہیں ہیں۔

آستھا کہتی ہیں: ’ہمیں کوئی وارننگ نہیں دی گئی۔ سکول کی چھٹیاں بھی نہیں تھیں۔ کسی کو کوئی اطلاع نہیں تھی کہ اتنا بڑا حادثہ ہونے والا ہے۔ یہ واقعہ دوپہر کو پیش آیا۔ ہم چھت پر گئے، وہاں سے سب کچھ صاف نظر آرہا تھا۔ جیسے کچھ بچا ہی نہ ہو۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ گاؤں کے زیادہ تر لوگ مقامی پوجا میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے تھے۔ آستھا نے بتایا: ’4 اگست کی رات اور 5 اگست کی صبح بھی پوجا تھی۔ شکر ہے کہ یہ واقعہ 4 اگست کی رات کو نہیں ہوا، جب پورا گاؤں پوجا میں شریک تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی وارننگ ہوتی تو ہم پوجا میں نہ جاتے۔ کہیں اور الرٹ جاری ہوا ہو تو ہوا ہو، یہاں تک نہیں پہنچا۔ یہاں سب کچھ نارمل تھا۔ سکول کھلے تھے، چھٹی نہیں تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اتنا بڑا سانحہ ہونے والا ہے۔‘

خراب موسم کی وجہ سے امدادی کام سست روی کا شکار ہیں
Reuters
خراب موسم کی وجہ سے امدادی کام سست روی کا شکار ہیں

دھرالی گاؤں کہاں ہے اور آس پاس کیا تھا؟

دھرالی چین کی سرحد کے قریب واقع ہے اور یہ جگہ ہرشل وادی کے قریب ہے۔ کلپ کیدار یہاں کا مقامی مندر ہے، جہاں عقیدت مند زیارت کو آتے ہیں۔

چاردھام یاترا (چار بڑے مندروں کی زیارت) کا راستہ بھی دھرالی سے گزرتا ہے۔ ایسے میں عقیدت مند اکثر دھرالی کے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔

آستھا اسی جگہ رہتی ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہاں بڑے بڑے ہوٹل تھے، تین چار منزلہ ہوٹل۔ اب تو ان کی چھتیں بھی نظر نہیں آتیں۔ نقصان اتنا شدید ہے کہ پوری مارکیٹ تباہ ہو گئی ہے۔ دھرالی کا ایک بہت بڑا بازار تھا۔ ایک بہت بڑا مندر تھا۔ اب وہاں کچھ نظر نہیں آتا۔ سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ کلپا کیدار مندر بھی نظر نہیں آتا۔‘

وادی ہرشل کے باگوری گاؤں میں رہنے والے کرن نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ اب وادی کے آس پاس کے علاقوں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ لوگوں کو قریبی اونچے علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے، تاکہ رات کو بارش ہونے کی صورت میں جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

بادل پھٹنے اور زمین کھسکنے کے واقعات ہمالیائی ریاستوں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔ ماحولیاتی کارکنان غیر منظم تعمیرات، جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی کو ان آفات کی شدت بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

گذشتہ ماہ ہماچل پردیش کے ماحولیاتی طور پر نازک علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے خبردار کیا تھا کہ اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو ’وہ دن دور نہیں جب پورا ہماچل پردیش ملک کے نقشے سے غائب ہو جائے گا۔‘

بادل پھٹنا کیا ہے؟

محکمہ موسمیات کی تعریف کے مطابق اگر کسی چھوٹے علاقے (ایک سے دس کلومیٹر کے اندر) میں ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ شدید بارش ہوتی ہے تو اس واقعے کو ’بادل کا پھٹنا‘ کہا جاتا ہے۔

بعض اوقات ایک جگہ پر ایک سے زیادہ بادل پھٹ سکتے ہیں۔ ایسے میں جان و مال کا بہت نقصان ہوتا ہے جیسا کہ سنہ 2013 میں اتراکھنڈ میں ہوا تھا، لیکن شدید بارش کے ہر واقعے کو بادل پھٹنا نہیں کہا جاتا۔

یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر کی تیز بارش سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر قریب ہی کوئی دریا یا جھیل ہو اور وہ اچانک زیادہ پانی سے بھر جائے تو قریبی رہائشی علاقوں میں زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

کیا بادل پھٹنا صرف مون سون میں ہوتا ہے؟

اس طرح کے واقعات مون سون کے دوران اور اس سے کچھ وقت پہلے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ انڈیا کے شمالی علاقوں میں مئی سے جولائی اور اگست کے درمیان نظر آتا ہے۔

کیا بادل پھٹنے کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے؟

بادل پھٹنے کا واقعہ ایک سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے پیمانے پر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ محکمہ موسمیات ریڈار کی مدد سے کسی بڑے علاقے میں بہت زیادہ بارشوں کی پیشین گوئی کر سکتا ہے، تاہم یہ بتانا مشکل ہے کہ بادل کس علاقے میں ہو گا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق ایسی موسمی تبدیلیوں کی پیش گوئی یا نگرانی کے لیے بادل پھٹنے کے خطرے والے علاقوں میں ایک گھنے ریڈار نیٹ ورک کی ضرورت ہوتی ہے یا بہت اعلی ریزولیوشن کے موسم کی پیشن گوئی کے ماڈلز کی ضرورت ہے جو اس طرح کے چھوٹے پیمانے پر ہونے والے واقعات کو پکڑ سکیں۔

اگرچہ بادل پھٹنے کا امکان میدانی علاقوں میں بھی ہوسکتا ہے لیکن پہاڑی علاقوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی پہاڑی ڈھلوانیں بادلوں کے اوپر اٹھنے اور تیز بارش کا باعث بننے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US