والدین ابھی اس جھٹکے سے نہیں نکل پائے تھے کہ ان پر یہ انکشاف بھی بجلی بن کر گرا کہ ان کی بیٹی لایا صرف قوتِ سماعت سے ہی محروم نہیں بلکہ اُن کی نشونما بھی سست روی کا شکار ہے۔ یعنی لایا کا جسم صحت مند بچوں کی طرح حرکت نہیں کر پا رہا۔
’آپ کی بیٹی قوتِ سماعت سے محروم ہے۔ یہ سن کر ایسا لگا جیسے وقت رُک گیا ہو اور زندگی کا احساس تک نہ رہا ہو۔‘
یہ وہ اندوہناک خبر تھی جو ہسپانوی جوڑے پابلو گیریگوس اور الموڈینا ویلاسکو کو اس وقت ملی جب اُن کی بیٹی صرف چند ماہ کی تھی۔
وہ ابھی اس جھٹکے سے نہیں نکل پائے تھے کہ ان پر یہ انکشاف بھی بجلی بن کر گرا کہ ان کی بیٹی لایا صرف قوتِ سماعت سے ہی محروم نہیں بلکہ اُن کی نشو و نما بھی سست روی کا شکار ہے۔ یعنی لایا کا جسم صحت مند بچوں کی طرح حرکت نہیں کر پا رہا۔
آخرکار متعدد ٹیسٹ اور طبی معائنوں کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ لایا ایک انتہائی نایاب بیماریکا شکار ہو گئی ہے جو 10 ہزار میں 50 سے بھی کم افراد کو ہوتی ہے۔
سپینیشن فیڈریشن آف ریئر ڈیزیز (فیڈیر) کے مطابق دنیا بھر میں اس طرح کی نایاب بیماری کے تقریباً سات ہزار معلوم کیسز ہیں۔ جبکہ دو ہزار مزید کیسز کو تاحال دستاویزی شکل نہیں دی جا سکی۔
عالمی کمیشن ٹو اینڈ ڈائیگنوسٹک اوڈیسی فار ریئر ڈیزیز کے مطابق اس نوعیت کی بیماری کی تشخیص کے لیے اوسطاً پانچ برس لگ جاتے ہیں۔ لیکن لایا کی جلد تشخیص غیر معمولی ہے۔
لایا کے والدین اس کا سہرا خوش قسمتی اور ڈاکٹرز کی محنت کے سر باندھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کسی نایاب بیماری کا نام رکھنے سے اس کے جلد علاج کی راہ ہموار نہیں ہو پاتی کیوںکہ اس سلسلے میں بہت کم تحقیق ہو پاتی ہے۔
ایسی صورتحال میں والدین کے مطابق اُنھیں خود کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ کاغذی کارروائی کے انبار اور فنڈز کی تلاش کے لیے کئی راتوں کی نیندیں تک قربان کرنا پڑتی ہیں۔
تو چلیے آپ کو واپس لیے چلتے ہیں پابلو اور الموڈینا کی کہانی کی طرف جو اپنی بیٹی لایا کے علاج کے معاملے پر پریشان ہیں۔ جوڑے کے لیے زچگی اور اس سے قبل حمل کے دوران سب کچھ ٹھیک تھا۔ معمول کے طبی معائنے بھی سب اچھا بتا رہے تھے۔
پہلی وارننگ
لموڈینا نے بیلجیم میں لایا کو جنم دیا جس دوران سب کچھ نارمل تھا۔ ڈیلیوری سے قبل اور بعد میں بھی بچی کے طبی معائنے میں سب ٹھیک تھا۔ لیکن بعد ازاں نومولود بچوں کے دیگر طبی معائنوں کے دوران لایا کی سماعت کی بھی سکریننگ کی گئی۔
پہلی مرتبہ ٹیسٹ رپورٹ ٹھیک نہ آنے پر دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا جس پر بھی لایا نے کوئی ردِعمل نہیں دیا۔ اس کے بعد لایا کو ناک، کان، گلے کے (ای این ٹی) کے ماہر ڈاکٹر کو ریفر کر دیا۔
ای این ٹی ماہر کو چیک کرانے کے بعد دونوں میاں، بیوی دوبارہ ماہرِ اطفال کے پاس گئے جہاں یہ پتا چلا کہ کوئی سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے۔
ڈاکٹر نے والدین کو بتایا کہ ٹیسٹ رپورٹس میں یہ سامنے آیا ہے کہ لایا سُن نہیں پا رہی۔
الموڈینا کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس بارے میں مزید معلومات جمع کیں، ہمیں بیلجیئم میں ہی اس حوالے سے رہنمائی فراہم کرنے والی ایسوسی ایشن سے رُجوع کا مشورہ دیا گیا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس طرح کے دیگر بچوں کے اہلخانہ سے رابطہ کیا۔ ہمیں کوکلیر ڈیوائسز اور امپلانٹ کا مشورہ دیا گیا۔‘
کوکلیر امپلانٹ میں سماعت سے محروم بچوں یا بڑوں کے کان میں ایک مختصر آپریشن کے ذریعے ایک آلہ نصب کیا جاتا ہے جس سے وہ کسی حد تک سننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
پابلو کے مطابق اس سب کے بعد اُنھیں اُمید کی کرن نظر آئی۔
اُن کے بقول ہمیں سماعت سے محروم بچوں کے سکول اور یونیورسٹی جانے کے بارے میں پتا چلا جو سُن اور بول سکتے تھے۔ یہ حیرت انگیز تھا۔
لایا کا دُوسرا مسئلہ سر ہلانے اور حرکت میں مشکلات کا تھا۔
اس معاملے پر جوڑے نے سب سب سے پہلے بچوں کے ڈاکٹر سے اُس وقت رُجوع کیا تھا جب لایا کو بریسٹ فیڈنگ کے لیے اپنا سر ہلانے اور حرکت میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔
ڈاکٹرز نے سب سے پہلے اسے پٹھوں کی کمزوری اور سماعت سے محرومی کی وجہ سے حرکت میں کمی کو قرار دیا۔ ڈاکٹر نے اس مسئلے کا حل فزیو تھیراپی قرار دیا۔
لیکن جب فزیو تھیراپی کے باوجود بھی کوئی افاقہ نہ ہوا تو جوڑے نے اس معاملے پر خود تحقیق کا فیصلہ کیا۔
جب اُمید دم توڑنے لگی
ایک نیورو ڈاکٹر نے لایا کے مختلف ٹیسٹ کے جن کا مقصد مختلف وائرسز اور جینیاتی امراض کے امکانات کو رد کرنا تھا۔ لیکن آخر کار ان ٹیسٹ کے نتائج سے پتہ چلا کہ وہ کارس ون سنڈروم نام کی انتہائی نایاب بیماری کا شکار ہیں۔
کارس سنڈروم ’کارس ون‘ جین میں خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں خلیات جسم کو زیادہ توانائی مہیا نہیں کر پاتے۔ اس سے اعصابی نظام، آنکھوں اور جگر جیسے اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں۔
اس مرض میں علامات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن سب سے زیادہ عام قوت سماعت اور بینائی کا متاثر ہونا ہے۔ جبکہ بولنے میں مشکلات جیسی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔
یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے والی بیماری ہے جس میں مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
پابلو کہتے ہیں کہ یہ وہ لمحہ تھا جب اُنھوں نے اپنی بچی کے کسی بہتر مستقبل کی اُمید چھوڑ دی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’آپ منصوبہ بناتے ہیں کہ آپ اسے کہاں لے جائیں گے۔ آپ اسے کیا سکھائیں گے. لیکن مجھے یاد ہے کہ [اس لمحے میں] سب کچھ غائب ہو گیا۔ تکلیف کی شدت کی وجہ سے میری دلچسپی ختم ہو گئی۔‘
لیکن الموڈینا کے لیے یہ صورتحال مختلف تھی۔
اُن کے بقول میں نہیں جانتی تھی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ میں نے پوچھا کہ لایا زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ زندہ رہ سکے گی۔ اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ لیکن ڈاکٹر نے یہ بتانے کی ہمت نہیں کی۔
جوڑے نے اس معاملے پر دوسری رائے لینے کے لیے سپین میں بھی ایک ڈاکٹر سے رُجوع کیا، لیکن اس کا نتیجہ بھی پہلے جیسا ہی تھا۔
برطانیہ کی نیشنل ڈیف چلدڑن سوسائٹی کے مطابق سماعت سے محروم 30 سے 40 فیصد بچوں میں ایک اور ڈس ایبلیٹی بھی ہو سکتی ہے۔
لایا حرکت نہیں کر سکتی، اسے ایک ٹیوب کے ذریعے خوارک دی جاتی ہے اور اکثر قے ہو جاتی ہے۔ اس کے والدین کو یقینی بنانا پڑتا ہے کہ وہ اپنا وزن برقرار رکھے اور اسے اتنی توانائی ملتی رہے جو نشو و نما کے لیے ضروری ہے۔
بی بی سی کو تقریباً ڈھائی گھنٹے تک ویڈیو کال پر دیے گئے انٹرویو کے دوران بھی جوڑے کو بار بار پیچھے موڑ کر لایا کو دیکھنا پڑ رہا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ لایا بڑی ہو رہی ہے، لیکن ساتھ ساتھ بیماری کی شدت بھی بڑھ رہی ہے۔
وقت کا حساب
اس نایاب بیماری کے لیے مزید ریسرچ کے دوران جوڑے کو ایک فیس بک سپورٹ گروپ ملا جہاں ایسے بچوں کے والدین آپس میں رابطے میں رہتے ہیں۔
بیماری کے حوالے سے اُنھیں کئی سائنسی مقالے ملے، لیکن علاج کے لیے کسی کلینیکل ٹرائل سے متعلق اُنھیں معلومات نہیں ملیں۔ لہذٰا اُنھوں نے زیادہ سے زیادہ جینیاتی ماہرین سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
پابلو کے بقول وہ (جینیاتی ماہرین) جانتے ہیں کہ والدین بہت مایوس اور پریشان ہوتے ہیں اور اس بیماری سے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر جینیاتی ماہری یہی بتا پائے کہ لایا کو یہ کیوں ہوا؟
آخرکار ان کا رابطہ جینیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر اگناسیو پیریز ڈی کاسترو سے ہوا جو اسپین کے کارلوس III ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے نایاب امراض کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں جین تھراپی کے سربراہ ہیں۔
انھوں نے انھیں مشورہ دیا کہ ان کے تجربے میں ایسے حالات میں والدین کسی فاؤنڈیشن میں شامل ہو جائیں یا اپنی کوئی فاؤنڈیشن بنائیں۔
ڈاکٹر کاسترو نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کی بیماری میں وقت کا حساب رکھنا پڑتا ہے۔
لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ جوڑے کو کوئی ایسی فاؤنڈیشن نہیں ملی جو اس بیماری پر کام کر رہی ہو۔ لہذٰا ڈاکٹر کاسترو نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تحقیق پر مبنی سفارشات مختلف لیبارٹریز کو بھجوائے گے ، تاکہ اس حوالے سے مزید تحقیق ہو سکے۔
اس کے بعد جوڑے نے کیور کارس لایا فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تاکہ کارس سنڈروم سے نمٹنے کے لیے جین تھیراپی اور علاج کے لیے دنیا بھر میں تحقیقی مراکز کی مدد کی جا سکے۔
اس ضمن میں جوڑے نے ابتداً دو لاکھ نوے ہزار ڈالرز جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے اور اب تک ان کے پاس 60 ہزار ڈالرز جمع ہو چکے ہیں۔
کارلوس III ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم کیور کارس لایا فاؤنڈیشن کے تحت جمع ہونے والی اس رقم کو بیماری کا علاج تلاش کرنے سے متعلق تحقیق میں خرچ کرے گی۔
ماہرین کے مطابق سازگار حالات اور لامحدود فنڈنگ کے باوجود اس مرض کا علاج تلاش کرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
پابلو اور المودینا حقیقت پسند ہیں- وہ جانتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے ٹھیک ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس کا معیار زندگی بہتر ہو، ’تاکہ وہ لمبی اور خوشگوار زندگی گزار سکے۔‘