لاہور میں ڈیلیوری ایپ کا رائیڈر ’45 ہزار روپے کا‘ کھانا لے کر غائب: ’ہمارے گھر کے قیمتی برتن بھی گئے‘

لاہور کے رہائشی حماد حسن نے تھانہ ہربنس پورہ میں درج کرائی گئی رپورٹ میں بتایا کہ انھوں نے ایک نجی کمپنی کے بائیک رائیڈر کے ذریعے اپنے ایک عزیز کے گھر ’45 ہزار روپے‘ کا کھانا بھیجا تھا مگر کچھ دیر بعد رائیڈر کا نمبر ’بند ہو گیا۔‘
بائیک رائیڈر، کھانا
Getty Images
(فائل فوٹو)

اگر آپ اپنے کسی عزیز سے یہ کہیں کہ آج رات آپ کا کھانا ہماری طرف سے ہوگا مگر یہ کھانا ان تک پہنچ ہی پائے تو یقیناً آپ ایک بڑی مصیبت سے دوچار ہوجائیں گے۔

ایسا ہی کچھ لاہور کے رہائشی حماد حسن کے ساتھ ہوا۔ تھانہ ہربنس پورہ میں درج کرائی گئی رپورٹ میں وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک نجی کمپنی کے بائیک رائیڈر کے ذریعے اپنے ایک عزیز کے گھر ’45 ہزار روپے‘ کا کھانا بھیجا تھا مگر کچھ دیر بعد رائیڈر کا نمبر ’بند ہو گیا۔‘

حماد حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تو اپنے اُن رشتہ داروں سے شرمندگی کے مارے بات بھی نہیں کر پا رہے جنھیں ہم نے یہ کہا تھا کہ آج کا کھانا آپ کے لیے ہم بنا کر بھیجوائیں گے۔‘

تھانہ ہربنس پورہ کے اے ایس آئی راؤ شفقات نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے اس سلسلے میں تحقیقات کی جا رہی ہے اور آئندہ ایک، دو روز میں مزید تفصیلات دی جائیں گی۔

’مسئلہ کھانے کا نہیں بلکہ شرمندگی کا ہے‘

ایف آئی آر میں حماد حسن کی جانب سے شکایت کی گئی ہے کہ ’ہم نے ایک آن لائن ٹیکسی ایپ پر ڈیلیوری بائیک کی رائیڈ بُک کروائی جس کی پک آپ لوکیشن سلامت پورہ اور ڈراپ آف لوکیشن ماڈل ٹاؤن تھی۔‘

ایف آئی آر میں حماد حسن کا مزید کہنا تھا کہ ’نجی کمپنی کی جانب سے آنے والے رائیڈر نے ہمارے گھر سے کھانا لیا اور کُچھ دیر بعد رائیڈ کینسل کر دی۔‘

اس کے بعد انھوں نے کمپنی سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ’تاحال کوئی جواب نہیں ملا اور جب بائیک رائیڈر سے رابطہ کیا تو نمبر بند جا رہا تھا۔‘

حماد حسن کا کہنا ہے کہ ’میں نے آن لائن ٹیکسی سروس سے شکایت کرنے کی کوشش کی مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہماری شکایت کو نہیں سُنا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ کھانے کا نہیں۔ یہ بھی چلیں ہم برداشت کر لیں گے کہ ہمارے گھر کے قیمتی برتن بھی کھانے کے ساتھ غائب ہو گئے مگر تکلیف اس شرمندگی کی وجہ سے ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے رشتہ داروں سے بات بھی نہیں کر پائے۔‘

حماد حسن کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’یہ تو ایسا تھا کہ ہم اب اپنے رشتہ داروں کو فون کر کے یہ کہتے کہ جی کھانا چوری ہو گیا، تو یہ تو ان کا مذاق اُڑانے والی بات ہی ہے جو کھانے کا انتظار کر رہے تھے اور ہم سب اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے نازک معاملات میں فیملیز یا خاندانوں کے درمیان کس قدر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ یہاں پاکستان میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہو گا مگر ایک تو اس معاملے کی ایف آئی آر درج کروانا اس لیے ضروری تھا کہ ایسی باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسی رائیڈنگ ایپس سے جواب دہی ہونی چاہیے کہ ایسے معاملات میں اُن کی جانب سے کیا کارروائی کی گئی اور وہ اپنے صارف کے نقصان کا ازالہ کیسے کریں گے۔‘

45000 کے کھانے میں تھا کیا؟

حماد حسن کا کہنا تھا کہ ’آج کل کے اس مہنگائی کے دور میں 10 سے 15 افراد کے کھانے پر 45 ہزار تو لگ ہی جاتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کھانے میں مٹن یعنی بکرے کے گوشت سے بنی چار سے پانچ دششز تھیں، مٹن بریانی تھی، مٹن قورمہ تھا اور وہ بھی ایسا کہ جس میں کاجو، بادام، کشمش اور دیگر مہنگے خشک میوہ جات کا استعمال کیا گیا تھا۔‘

حماد حسن کا کہنا تھا کہ ’کھانے کے ساتھ ساتھ برتن بھی ہمارے گھر کے انتہائی قیمتی تھے جن میں ہم نے کھانا بھیجا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کھانا نہ پہنچنے پر رشتہ داروں نے کہا تو کُچھ بھی نہیں مگر اکثر اوقات خاموشی سب کُچھ کہہ دیتی ہے۔ ہم تو اپنی جگہ شرمندگی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں کہ ہم نے اُنھیں کھانا بنانے سے بھی روک دیا اور بعد میں یہ کہہ دیا کہ معذرت چاہتے ہیں کھانا چوری ہو گیا۔‘

حماد حسن نے کہا کہ ’آپ اس بات کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ اگر کوئی آپ کو کھانے پر مدعو کرے اور پھر کھانے کا نہ پوچھا جائے۔‘

کھانا، قیمتی برتن
Getty Images
(فائل فوٹو)

’ایسے معاملے کی شکایت درج کروانا بھی مُشکل ہے‘

حماد حسن نے جہاں کھانے کے گُم ہو جانے سے متعلق افسوس کا اظہار کیا تو وہیں اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایسے معاملات کی شکایات درج کروانا بھی مُشکل ہو جاتا ہے۔ انتظامیہ آپ سے ہی سوال جواب شروع کر دیتی ہے کہ ایسی شکایت پہلے تو کسی نے کبھی درج نہیں کروائی مگر آپ کیوں کروا رہے ہیں؟‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ ایسے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ بس کوشش یہی ہوتی ہے کہ شکایت کرنے والا تھانے کے ایک دو دن چکر لگائے گا اور تھک ہار کر گھر بیٹھ جائے گا۔‘

حماد حسن کا کہنا ہے کہ ’میں تو اس معاملے کو آخر تک لے کر جاؤں گا۔ میں نے تو جہاں بائیک رائیڈر کا نام ایف آئی آر میں شامل کیا، وہیں آن لائن ٹیکسی ایپ کے مینجر کو بھی نامزد کیا۔ اب پولیس والوں کا کام ہے کہ وہ اس پر کارروائی کریں۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں کہ سارا سسٹم خراب ہے۔ یہاں اچھے لوگ بھی ہیں مگر اس کے باوجود اب دور بدل چُکا ہے ایسے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ تیزی لانے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان میں رائیڈنگ ایپس

پاکستان کے متعدد شہروں میں کئی ایسی آن لائن رائیڈنگ ایپس کام کر رہی ہیں، جو شہریوں کو نقل و حمل کی مختلف سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

یہ ایپس اپنے صارفین کو گھر سے ان کی منزل تک پہنچانے کی سہولت کے ساتھ ساتھ سامان کی ترسیل کا کام بھی کرتی ہیں۔

ان ایپس پر موجود احتیاطی تدابیر کے مطابق اپنا سامان محفوظ طریقے سے کسی جگہ پہنچانے کے لیے رائیڈ بک کرنے سے پہلے دوسرے صارفین کی جانب سے ڈرائیور کو دیا گیا فیڈ بیک اور ریٹنگز ضرور چیک کریں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US