’غزہ پر کنٹرول‘ کا اسرائیلی منصوبہ: فلسطینیوں کے لیے مزید مشکلات اور نتن یاہو کے لیے بڑا خطرہ

اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ پر قبضے کے فیصلے کی خبر پر اس شہر میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ غزہ سٹی ایک طرح سے تباہی کے دہانے پر ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ حماس آنے والے ہفتوں میں ہتھیار نہیں ڈالے گی، اسرائیلی فوج جنگ کے ایک تباہ کن نئے مرحلے کا آغاز کرنے والی ہے۔
غزہ
Getty Images

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ پر قبضے کے فیصلے کی خبر پر اس شہر میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ غزہ سٹی ایک طرح سے تباہی کے دہانے پر ہے۔

یہ فرض کرتے ہوئے کہ حماس آنے والے ہفتوں میں ہتھیار نہیں ڈالے گی، اسرائیلی فوج جنگ کے ایک تباہ کن نئے مرحلے کا آغاز کرنے والی ہے۔

غزہ شہر، جہاں ایک اندازے کے مطابق اب بھی دس لاکھ لوگ رہتے ہیں، اس کے لیے مستقبل کے امکانات زیادہ روشن نہیں۔

لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو جنگ کے ابتدائی مہینوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے لیکن جنوری میں جب جنگ بندی کے بعد لڑائی کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی تو وہ واپس غزہ آئے۔

انھوں نے ایک سال سے زیادہ وقت اپنے گھروں سے دور گزارا اور اس عرصے کے دوران وہ ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے جہاں انھوں نے انتہائی مایوس کن حالات میں زندگی گزاری۔

واپسی پر بہت سے شہریوں کو ان کے گھر تباہ ملے لیکن پھر بھی انھوں نے اس امید پر وہاں رہنے کو ترجیح دی کہ ایک دن جنگ ختم ہو جائے گی۔

لیکن اس شہر میں زندگی جو پہلے ہی کافی مشکل تھی مارچ کے وسط میں اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے اور امدادی سامان منقطع کرنے کے بعد تیزی سے بگڑ گئی، جس نے تنازع کے بدترین انسانی بحران کو جنم دیا۔

اب لگتا ہے کہ ایک نیا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔

اسرائیلی حکومت ایک بار پھر غزہ شہر کی پوری آبادی کو جنوب کی طرف جانے پر مجبور کرنے کی کوشش کرنے جا رہی ہے، رپورٹس کے مطابق یہ عمل دو ماہ میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔

ایک بار پھر کرفیو، انخلا کے احکامات اور سڑکوں پر تھکے ہوئے شہریوں کے قافلے متوقع ہیں۔

گذشتہ انخلا کے بعد لوگوں نے خان یونس اور رفح میں پناہ لی تھی لیکن یہ شہر تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں، جس سے اس بارے میں سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اب انخلا کے بعد شہری کہاں جائیں گے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ مزید امداد دستیاب ہو گی لیکن اس بارے میں تفصیلات بہت کم ہیں۔

لیکن غزہ شہر کی کہانی میں جلد ہی رفح کی کہانی کی بازگشت سنائی دے گی۔

غزہ
AFP

مئی 2024 میں اسرائیل نے اس جنوبی شہر سے 10 لاکھ افراد کو انخلا کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد زیادہ تر لوگ شمال مغرب میں المواسی کے نام سے مشہور ساحلی علاقے میں چلے گئے۔

اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ رفح پر حملہ ان کی انتظامیہ کے لیے ’سرخ لکیر‘ ہے۔

لیکن شہری آبادی کے جانے کے بعد اسرائیلی فوج رفح کو تباہ کرنے کے لیے آگے بڑھی۔ اس کے لیے اسرائیلی فوج نے یہ دلیل دی کہ حماس کے جنگجوؤں اور انفراسٹرکچر کی وجہ سے اس شہر کی صفائی ضروری ہے۔

ایک برس بعد یہ ہلچل والا شہر اب بمشکل موجود ہے۔

اگر اکتوبر کے اوائل سے پہلے کوئی سفارتی پیشرفت نہیں ہوتی تو غزہ شہر کا مستقبل بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔

اس سے غزہ کی پٹی پر موجود کیمپس نصیرات اور دیر البلح کی قسمت پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال ان کا ان کیمپس پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں اگرچہ وہ متعدد بار ان پر حملہ کر چکا ہے۔

لیکن اگر حماس وہاں موجود رہتی ہے، خاص طور پر اگر اس کے پاس اب بھی یرغمالی ہیں، تو پھر یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہاں رفح جیسی کہانی سامنے نہیں آئے گی۔

رفح
AFP

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کا خیال ہے کہ حماس پر مکمل فتح حاصل کرنے کے لیے انھیں یہ سب حاصل کرنا ہو گا۔

20 لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کو اب بھی راستے سے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کہا جا سکتا ہے، یا انھیں افراتفری اور ہلاکت خیز (امداد ملنے کے مقامات) ماحول میں بھی زندہ رکھا جا سکتا ہے، انھیں بہت کم امداد فراہم کی جائے جبکہ جن مقامات کو وہ گھر کہتے ہیں انھیں تباہ کر دیا جائے۔

اسرائیلی شہریوں کی اکثریت اس کی مخالفت کرتی ہے کہ باقی 50 یرغمالیوں کی قسمت کے لیے اس سب کا مطلب کیا ہو گا، جن میں سے تقریباً 20 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔

بیشتر دنیا اس صورتحال کو خوف کی نظروں سے دیکھ رہی ہے جبکہ سفارتی سطح پر اسرائیل کی تنہائی مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

نتن یاہو کی غزہ میں فتح کا معاملہ وائٹ ہاؤس میں موجود ان کے سب سے قریبی اتحادی کے صبر کا امتحان بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن لبنان میں حزب اللہ کو شکست دینے، شام میں اسد حکومت کے خاتمے میں مدد کرنے اور اپنے پرانے دشمن ایران کو بڑی حد تک نقصان پہنچانے کے بعد، اسرائیل نے علاقائی سپر پاور کے طور پر اپنی شناخت بنائی ہے، جو متعدد دشمنوں کا مقابلہ کرنے اور انھیں شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اکتوبر 2023 میں حماس کی طرف سے حملہ کے بعد نتن یاہو اب خطرہ مول لینے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔

وہ بھی سوچ رہے ہوں گے آخر انھیں روک کون سکتا ہے؟


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US