انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں دو درجن سے زیادہ کتابوں پر پابندی عائد: ’حکومت کو کتاب پسند نہیں تو جوابی کتاب لکھوائے، پابندی نہ لگائے‘

حکومت نے کشمیر کی تاریخ اور انسانی حقوق سے متعلق 25 کتابوں کی فروخت، اشاعت اور ترسیل پر پابندی عائد کردی ہے۔ ایک سرکاری حکمنامے کے بعد ان کتابوں میں علیحدگی پسندانہ اور انڈیا مخالف بیانیہ ہے جس سے نوجوانوں میں شدّت پسندی کا رجحان اور انڈیا مخالف جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔
سینئیر صحافی نعیمہ احمد مہجور
BBC
سینئیر صحافی نعیمہ احمد مہجور کہتی ہیں کہ اس پابندی نے مصنفوں اور قارئین کو شدید مایوس کردیا ہے

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت نے کشمیری تاریخ اور عوامی مزاحمت سے متعلق مغربی، انڈین اور کشمیری مصنفوں کی دو درجن سے زیادہ کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

ایک ایسے وقت جب سرینگر میں کتابوں کے قومی میلے کا اہتمام کیا جارہا ہے، حکومت نے کشمیر کی تاریخ اور انسانی حقوق سے متعلق 25 کتابوں کی فروخت، اشاعت اور ترسیل پر پابندی عائد کردی ہے۔

ایک سرکاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ ان کتابوں میں علیحدگی پسندانہ اور انڈیا مخالف بیانیہ ہے جس سے نوجوانوں میں شدّت پسندی کا رجحان اور انڈیا مخالف جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔

کالعدم قرار دی گئی کتابوں میں کرسٹوفر سنیڈن کی ’آزاد کشمیر‘، ارون دھتی رائے کی ’آزادی‘ ڈیوِڈ دیوداس کی ’مسقتبل کی تلاش‘ اور انورادھا بھسین کی ’منہدم ریاست‘ سمیت مقامی طور شائع شدہ کتابیں بھی شامل ہیں۔

حکم نامے کے مطابق ’ان کتابوں میں ایک جھوٹا بیانیہ پیش کیا گیا ہے جو کشمیریوں میں شکایتی رجحان اور شدّت پسندی کے جذبات پیدا کرسکتا ہے۔‘

اس حکم نامے کے ایک روز بعد جمعرات کو پولیس نے کئی کتب خانوں پر چھاپے مارے اور پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ کالعدم کتابیں کسی کے پاس پائی گئیں تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

’پابندی غیر جمہوری ہے‘

کشمیر میں کتب میلہ
BBC
حکومت نے کشمیر کی تاریخ اور انسانی حقوق سے متعلق 25 کتابوں کی فروخت، اشاعت اور ترسیل پر پابندی لگائی

سینئیر صحافی نعیمہ احمد مہجور کہتی ہیں کہ اس پابندی نے مصنّفوں اور قارئین کو یکساں طور پر مایوس کردیا ہے۔ ’جن کتابوں پر پابندی ہے اُن کے لکھنے والے تو مایوس ہوں گے ہی، لیکن جو لوگ کتاب لکھنا چاہتے ہیں ان پر بھی نفسیاتی دباوٴ بڑھے گا کہ کہیں کوئی بات حکومت پر گراں نہ گزرے۔ کتاب کا کوئی نریٹِیو(اقتباس/ بیانیہ) اگر حکومت کو اچھا نہیں لگتا تو وہ جوابی کتاب لکھوا سکتی ہے، اظہار رائے کی آزادی تو آئینی حق ہے۔‘

معروف کشمیری شاعر فیاض دلبر کہتے ہیں ماضی میں بھی کئی کتابوں پر پابندی لگائی گئی تھی، لیکن پابندی لگانے والوں نے وہ کتابیں پڑھی ہی نہیں تھیں۔

’آپ قاری کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ کیا پڑھے اور کیا نہ پڑھے۔ یہ اُس کی اپنی مرضی ہے۔ ہاں اگر حکومت نے باضابطہ سروے کرکے پتہ لگایا ہے کہ کوئی کتاب منفی سوچ پیدا کررہی ہے تو اس کا علاج بھی پابندی نہیں، اس کے لیے دوسرے طریقے ہیں۔‘

قابل ذکر ہے کہ کالعدم قرار دی گئیں کتابوں میں اکثر ایسی ہیں جنہیں امریکہ، برطانیہ اور انڈیا کے معروف اشاعتی اداروں نے شائع کیا ہے۔

محقق اور ادیب سالمِ سُہیل کہتے ہیں کہ ’حکومت کو ماہرین کا ایک پینل بنانا چاہیے تھا، جو ان کتابوں کا بغور مطالعہ کرتا۔ پھر اگر واقعی یہ ثابت ہوجاتا کہ ان میں کچھ غلط مواد ہے تو ان پر مباحث کا آغاز کیا جاسکتا تھا۔ پابندی اور قدغنیں مسائل کا حل نہیں ہے۔‘

سالِم نے کتاب میلے کے افتتاح پر یہاں کی وزیر تعلیم سکینہ یتو کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’اب وہ وقت کہ ہم نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق اور پتھر نہیں بلکہ کتاب ہے، اس میں بھی حکومت مداخلت کرے گی تو علمی سرگرمیاں ایک فضول مشق بن کر رہ جائیں گی۔‘

نصاب سے کشمیریوں کی تصانیف خارج

کتب میلا
BBC

حالانکہ پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں عالمی اور وفاقی سطح پر شایع ہوئی کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن ماضی قریب میں بھی اس طرح کی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

آرٹیکل 370 منسوخی کے بعد انتظامیہ نے یہاں کی یونیورسٹیوں کو حکم دیا کہ بشارت پیر کی ’کرفیوڈ نائٹس‘، مرزا وحید کی ’کولابوریٹر‘ اور آغا شاہد علی کی انگریزی غزلوں کے مجوعے کو نصاب سے خارج کیا جائے۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ کتابوں پر پابندی ان کتابوں کی مشہوری کا سبب بنتی ہیں۔

کتاب میلے میں موجود ایک قاری نے بتایا کہ ’ابھی تک ایک مخصوص حلقے نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا تھا، لیکن اب پوری آبادی میں تجسّس ہے کہ آخر ان کتابوں میں اتنا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ اب آن لائن اور دوسری ریاستوں سے ان کتابوں کو خرید کر پڑھیں گے۔ پابندی فلم پر ہو یا کتاب پر یہ مشہوری کا سبب بنتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US