پاکستان کے شہر کراچی میں ایک فلاحی ادارے کی سربراہ کو مقامی عدالت کی جانب سے بچوں کی بیرونِ ملک سمگلنگ کے الزام پر جیل بھیجنے کی چونکا دینے والی پیش رفت ایک بار پھر امریکی شکایت کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

پاکستان کے شہر کراچی میں ایک غیرسرکاری ادارے کی سربراہ کو مقامی عدالت کی جانب سے بچوں کی بیرونِ ملک سمگلنگ کے الزام پر جیل بھیجنے کی چونکا دینے والی پیش رفت ایک بار پھر امریکی شکایت کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایک غیر سکاری تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر موبینہ قاسم پر الزام ہے کہ انھوں نے 23 بچوں کو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات اور کراچی میں مقیم خاندانوں کے حوالے کیا۔ یعنی ان میں سے مبینہ طور 17 بچوں کو بیرونِ ملک سمگل کیا گیا۔
یہ الزامات پاکستانی حکام کے علم میں اس وقت آئے جب سنہ 2023 میں کراچی میں امریکی سفارت خانے کے شعبۂ انسداد فراڈ یونٹ نے تحقیقات مکمل کر کے ایف آئی اے کو شکایت کا خط لکھا، جس پر ادارے نے جولائی 2025 میں اپنی انکوائری مکمل کر کے مقدمہ درج کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق یہ مبینہ واقعات سنہ 2006 سے سنہ 2015 کے درمیان ہوئے۔
لگ بھگ ایک برس کے دوران یہ کسی فلاحی ادارے کے خلاف مبینہ طور پر بچوں کی بیرونِ ملک سمگلنگ کے الزام پر کارروائی کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل صارم برنی ٹرسٹ کے بانی صارم برنی کو گذشتہ برس جولائی میں مبینہ طور پر بچوں کی سمگلنگ کے الزام میں جیل بھیجا گیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ اس وقت زیرِ سماعت ہے۔
ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق ملزمہ کو عدالت سے ضمانت منسوخ ہونے کے بعد پیر کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے منگل کو انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
ملزمہ ڈاکٹر موبینہ قاسم کے وکیل شہاب سرکی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان سنگین الزامات کو عدالتوں میں ثبوتوں کے ساتھ ثابت کرنا ہو گا اور ہماری موکلہ کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ انھوں نے ہر کام قانون کے دائرے میں رہ کر کیا ہے۔ ان کے پاس تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں اور ہم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا ہے۔‘
ایڈووکیٹ شہاب سرکی کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کے خلاف کوئی سازش ہے جس کا عدالتوں میں ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔‘
امریکی قونصل خانے کے خط میں کیا کہا گیا؟
ایف آئی اے کے پاس درج مقدمہ میں کراچی میں امریکی قونصل خانے کے خط کی تفصیلات درج ہیں جس میں انھوں نے اس ضمن میں سنہ 2023 میں شکایت کی تھی۔
اس خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کے انسداد فراڈ یونٹ نے سندھ ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ قائم کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ ’یہ ادارہ 1997 کے قوانین کے مطابق تعلیم اور صحت کے لیے رجسڑ غیر سرکاری ادارہ ہے لیکن یہ یتیم خانے کے طور پر رجسڑ نہیں ہوا اور اس کے پاس قانونی طور پر بچوں کی کفالت حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔‘
خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ’امریکی ادارے کی جانب سے شک کی بنیاد پر پاکستانی نژاد امریکی جوڑے کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا جنھوں نے سال 2011 میں ایک بچے کی سول فیملی کورٹ سے گارڈیئن اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت کفالت حاصل کی تھی۔ جس کے بعد ہوپ نامی تنظیم نے مبینہ لاوارث بچے کو اس جوڑے کے حوالے کر دیا تھا۔‘
اسی طرح اس خط میں مزید ایسے کیسز کا ذکر کیا گیا ہے جس میں مبینہ طور ہوپ تنظیم کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا تھا کہ ’جن بچوں کی کفالت امریکی شہریوں نے حاصل کی تھی ان کو عدالت کی جانب سے گارڈیئن شپ دیے جانے اور پھر ہوپ کے کاغذات پر ویزے جاری کیے گئے تھے۔‘
ایف آئی اے کی انکوائری میں کیا بتایا گیا ہے؟
ایف آئی اے نے درج مقدمے میں کہا ہے کہ دوران انکوائری ملزمہ اور ادارے کے ایک ملازم کا بیان ریکارڈ کرنے کے علاوہ دیگر دستاویزی ثبوت حاصل کیے گئے۔
ایف آئی آر میں درج انکوائری کی تفصیلات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ادارے کے ایک ملازم کے بیان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جن بچوں کی فہرست تیار کی گئی ہے وہ بچے ادارے کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتال، کلینگ کے اردگرد ملے تھے اور انھیں فوری طور پر متعلقہ سپروائزر کے حوالے کر دیا گیا تھا۔‘
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’ادارہ کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکا کہ اس کو بچے ہسپتال، کلینک کے اردگرد کے علاقے سے ملے تھے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی نیت اور ارادہ ٹھیک نہیں تھا اور انھوں نے بظاہر بچے ایک ہی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے حوالے کیے جن کے پاس غیر ملکی شہریت اور پاسپورٹ تھے۔‘
ایف آئی اے کی انکوائری میں کہا گیا ہے کہ ’یہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ ادارہ نے بچے مختلف خاندانوں کے حوالے کیے ہیں، ان کی کفالت کا حکم عدالتوں سے حاصل کیا ہے، مگر تمامکیسز کی کہانی ایک جیسی ہی ہے جو کہ بہت غیر معمولی ہے‘۔
ایف آئی کی انکوائری میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ’کراچی کی فیملی کورٹ سے بچوں کی کفالت، گارڈیئن شپ حاصل کرنے کے دوسرے روز ہی ان بچوں کو مجاذ اداروں، متعلقہ پولیس سٹیشن کو اطلاع دیے بغیر مختلف خاندانوں کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔ جس میںچودہ بچوں کی کفالت امریکی شہریوں، ایک، ایک بچے کی کفالت برطانیہ، کینیڈا اور متحدہ عرب امارات کے شہریوں کو دی گئی تھی جبکہ باقی بچوں کی کفالتکراچی ہی میں مقیم جوڑوں کو دی گئی۔‘
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’دوران انکوائری ایک بچے کی کفالت حاصل کرنے والے امریکی شہری نے تحریری طور پر بتایا ہے کہ اس نے مذکورہ ادارے سے عدالت کے ذریعے بچے کی کفالت حاصل کی تھی اور اس میں کوئی بھی پیسوں کا لین دین نہیں ہوا ہے۔‘
انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ’ان میں سے دو بچے ملزمہ نے خود اپنی زیر کفالت رکھے تھے۔ جس میں سے ایک اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے جبکہ دوسرا اس ٹرسٹ پر ٹرسٹی ہے اور ٹرسٹ کے معاملات کو دیکھتا ہے۔‘

ماہرین کے اس حوالے سے کیا خدشات ہیں؟
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ تحقیق داناور کارکن کاشف مرزا کا کہنا ہے کہ ’یہ کیس انتہائی حسّاس ہے۔ اس میں غیر سرکاری ادارے کی جانب سے بچوں کی کفالت کا حق حاصل کرنے سے لے کر ان کو امریکہ یا کسی اور ملک کا ویزہ دلانے تک تمام قانونی مراحل پورے کیے گئے ہیں۔‘
’مگر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ غیر سرکاری ادارہ کبھی بھی حکومتی اداروں کی جانب سے ایک یتیم خانہ یا بچوں کے شیلٹر ہوم کے طور پر رجسڑڈ نہیں تھا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کبھی بھی اس بات کے پابند نہیں تھے کہ وہ حاصل کردہ بچوںیا جو ان کی کفالت میں ہیں ان کے حوالے سے مختلف رپورٹیں حکومتی اداروں کو جمع کروائیں جو کہ عموماً بچوں کا یتیم خانہ یا شیلٹر ہوم چلانے والے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ وہ یہ پورا ریکارڈ رکھتے ہیں کہ کیسے اور کس طرح بچہ ان کے پاس آیا۔ اس کے والدین کون ہیں یا یہ لاوارث ہے یا یہ کوئی اور معاملہ ہے۔‘
کاشف مرزا کا کہنا تھا کہ ’غیر سرکاری ادارے کے پاس اس بات کے بھی کوئی واضح ریکارڈ نہیں تھا کہ بچے کیسے حاصل کیے گے۔جب کچھ عرصے کے دوران ملتے جلتے کیسز کے ویزوں کی درخواستیں گئیں تو امریکی ادارے اس پر متحرک ہوئے اور انھوں نے اس پر اپنی تحقیقات کر کے حکومت پاکستان کے حوالے کر دی۔‘
کاشف مرزا کا کہنا تھا کہ ’امریکہ اور یورپ میں اس حوالے سے بہت سخت قوانین ہیں۔ جس میں ان ممالک کے متعلقہ ادارے کسی بھی بچے جس کی کفالت حاصل کی گئی ہو اس کی فلاح و بہبود پر نظر رکھتے ہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں فوری کارروائی کرتے ہیں۔‘
انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے ایس ایس ڈی او کےایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ان بچوں کی اکثریت روڈ پر ہے۔ ان میں سے کئی لاوارث ہیں اور اگر لاوارث نہیں بھی ہیں تو ان کے ماں باپ نے ان کو روزی روٹی کے چکر میں چھوڑا ہوا ہے۔ یہ سب بچے خطرے کا شکا رہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ کراچی میں دوسرا ایسا مبینہ واقعہ منظر عام پر آ رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کفالت اور گاڑیئن شپ کا کوئی واضح قانون نہیں ہے، جس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور پھر اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔‘
’اس وقت ایک قانون پاکستان کی پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے۔ امید کرتے ہیں کہ یہ قانون جلد ہی منظور ہو جائے گا جس میں بچوں کی کفالت یا گارڈیئن شپ کے تمام معاملات واضح ہوں گے۔‘