انڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ کا دعویٰ ہے کہ رواں سال مئی میں انڈیا نے پاکستان کے چھ طیارے مار گرائے تھے۔ ادھر پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایک بھی پاکستانی طیارے کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی تباہ ہوا ہے۔‘
انڈین ایئر چیف اے پی سنگھ کا دعویٰ ہے کہ اکثر پاکستانی طیارے روسی ساختہ ایس 400 ایئر میزائل سسٹم کے ذریعے تباہ کیے گئےانڈین فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ کا دعویٰ ہے کہ رواں سال مئی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران انڈیا نے پاکستان کے کم از کم چھ طیارے مار گرائے تھے۔
ایئر چیف مارشل سنیچر کے روز کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں ’آپریشن سندور‘ سے متعلق معلومات فراہم کر رہے تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس آپریشن میں پاکستان کے پانچ لڑاکا طیارے اور ایک بڑا طیارہ مار گرایا گیا۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر شدت پسند حملے کے بعد انڈیا نے کہا تھا کہ 6-7 مئی کی درمیانی شب کو اس نے پاکستان میں شدت پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا۔ اس آپریشن کو ’آپریشن سندور‘ کا نام دیا گیا، جس کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع شروع ہوا تھا۔
ادھر پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایک بھی پاکستانی طیارے کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی کوئی تباہ ہوا ہے۔‘ اس سے قبل پاکستانی حکام رفال سمیت متعدد انڈین جنگی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
امریکی صدر نے ایک تقریب کے دوران ’انڈیا پاکستان جنگ رُکوانے‘ کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس دوران ’پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے گئے‘ تاہم ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ یہ طیارے کس ملک کے تھے اور کس ملک نے گِرائے۔
خیال رہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے بعد سے انڈیا کی اپوزیشن جماعت کانگریس اور اس کے رہنما راہل گاندھی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ خارجہ جے شنکر سے یہ سوال بارہا پوچھتے رہے ہیں کہ انڈیا نے اس لڑائی میں کتنے طیارے کھوئے۔
انڈیا نے اس تنازع میں اپنے طیارے گرائے جانے کے حوالے سے کبھی کوئی واضح بیان نہیں دیا تاہم انڈین مسلح افواج کے چیف آف ڈیفینس سٹاف انیل چوہان نے پاکستان کی جانب سے طیارے گرائے جانے کے دعوؤں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرائے گئے بلکہ یہ کہ وہ کیوں گرائے گئے۔ کیا غلطیاں ہوئیں، یہ باتیں اہم ہیں۔ نمبر اہم نہیں ہوتے۔‘
یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی فروری 2019 میں بھیانڈیا نے پاکستان میں شدت پسند تنظیم کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانے کا دعوی کیا تھا۔ اس کارروائی کے 24 گھنٹے کے اندر ہی پاکستان نے ایک انڈین مگ-21 جنگی طیارہ مار گرایا اور انڈین فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کر لیا جسے بعد میں رہا کر دیا گيا۔
اس کارروائی میں بھی انڈیا نے پاکستانی ایف 16 جیٹ گرانے کا دعوی کیا تھا تاہم امریکہ نے اس کے بعد پاکستان میں تمام طیاروں کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
واضح رہے کہ غیرملکی فوجی طیاروں کی فروخت پر استعمال کے معاہدے کے مطابق امریکہ پاکستان میں موجود ایف 16 طیاروں کی گنتی کر سکتا ہے۔ عموماً اس قسم کے معاہدوں میں امریکہ کی شرط ہوتی ہے کہ خریدنے والا ملک امریکی حکام کی جانب سے سازوسامان کا باقاعدگی سے معائنہ کروائے تاکہ سازوسامان کی گنتی اور حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
پاکستان انڈیا کے ساتھ اس تنازع کے دوران انڈین طیارے گرائے جانے کے دعوے تصاویر کے ساتھ شیئر کرتا رہا ہے جن کی کسی حد تک تصدیق بعد ازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کی تھیانڈیا اور پاکستان کے طیارے تباہ کرنے کے دعوے
سنچیر کو انڈین ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے مار گرایا جانے والا ’یہ بڑا طیارہ ای ایل آئی این ٹی یا اے ای ڈبلیو اینڈ سی ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس طیارے کو زمین سے 300 کلومیٹر کے فاصلے پر نشانہ بنایا گیا اور ایک طرح سے یہ زمین سے فضا میں ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا۔‘
واضح رہے کہ انڈیا کی جانب سے اب تک کسی قسم کے پاکستانی طیاروں کے گرائے جانے سے متعلق کوئی تصویری یا ویڈیو شواہد بھی پیش نہیں کیے گئے۔
دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ انڈین فضائیہ کے پانچ گرائے جانے والے طیاروں میں سے ’تین رفال طیارے تھے جبکہ ایک مگ 29 لڑاکا طیارہ اور ایک ایس یو طیارہ شامل ہے۔‘
یاد رہے کہ بی بی سی ویریفائی نے تین ایسی ویڈیوز کی تصدیق کی تھی جن کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کہ ان میں نظر آنے والا ملبہ ایک فرانسیسی ساختہ رفال طیارے کا ہے جو انڈیا کی فضائیہ کے زیراستعمال ہیں۔
ان میں سے ایک ویڈیو کی جیو لوکیشن سے بی بی سی ویریفائی کو علم ہوا تھا کہ یہ انڈین ریاست پنجاب میں بھٹنڈہ کے مقام کی ہے۔ اس ویڈیو میں یونیفارم میں ملبوس اہلکار لڑاکا طیارے کا ملبہ اکھٹا کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
بی بی سی ویریفائی نے رات کے وقت بنائی جانے والی دو مزید ویڈیوز کو بھی چیک کیا اور یہ بھی اسی مقام پر بنی ہیں۔ ان میں سے ایک میں کھیتوں میں موجود ملبہ دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک اڑنے والی چیز کو پہلے آسمان میں آگ لگتی ہے اور پھر وہ ایک کھلے کھیت میں گرتی ہے۔
جسٹن کرمپ برطانوی فوج کے سابق افسر ہیں جو اب رسک انٹیلیجنس کمپنی سبیلائن چلاتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی ویریفائی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا یہ ملبہ فرانسیسی میزائل کا لگتا ہے جو میراج دو ہزار اور رفال لڑاکا طیاروں، دونوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک اور تصویر میں ایک لڑاکا طیارے کی ٹیل فن، جس پر بی ایس زیرو زیرو ون اور رفال لکھا ہوا ہے، دیکھی جا سکتی ہے۔
بی بی سی ویریفائی نے اس تصویر کو جانچنے کے لیے گوگل ریورس امیج کا استعمال کیا تو معلوم ہوا کہ اس تصویر کا اس سے پہلے کوئی اور ورژن نہیں۔
ایئر چیف مارشل نے اور کیا کہا؟
انڈین ایئر چیف نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی تنازع کو ’ہائی ٹیک جنگ‘ بھی قرار دیا۔
’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک ہائی ٹیک جنگ تھی جو ہم نے لڑی۔ یہ جنگ تقریباً 80-90 گھنٹے تک جاری رہی۔ اس میں ہم نے ان (پاکستان) کے فضائی دفاعی نظام کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔‘
’اس نقصان کو دیکھ کر ان پر واضح تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو انھیں مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی لیے وہ آگے آئے اور ہمارے ڈی جی ایم او کو دوبارہ پیغام بھیجا کہ ہم بات کرنا چاہتے ہیں۔ اسے اعلیٰ سطح پر قبول کر لیا گیا۔‘
اے پی سنگھ کا دعویٰ تھا کہ اکثر پاکستانی طیارے زمین سے فضا تک مار کرنے والے روسی ساختہ ایس 400 ایئر میزائل سسٹم کے ذریعے تباہ کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا نے جس بڑے پاکستانی طیارے کو مار گرایا وہ ممکنہ طور پر جاسوسی کرنے والا طیارہ تھا اور اسے 300 کلو میٹر کی دوری سے مار گرایا گیا۔
انھوں نے ایس 400 کو ’گیم چینجر‘ قرار دیا اور کہا کہ حریف اس نظام کو ناکام نہیں بنا سکا۔
انڈین ایئر چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کامیابی کی وجہ ’واضح سیاسی ارادہ‘ تھا۔ ’ہم پر کوئی (سیاسی) رکاوٹ نہیں تھی۔ بدقسمتی سے ہر کوئی اس بارے میں بات کر رہا ہے۔۔۔ فورسز نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم نے کیسے تناؤ کو کم رکھنا ہے۔‘
’ہم پر کوئی (سیاسی) رکاوٹ نہیں تھی۔ ہمیں مکمل آزادی دی گئی تھی۔‘
خیال رہے کہ جون میں جکارتہ میں قائم انڈین سفارتخانے نے ایک وضاحت جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ انڈونیشیا میں انڈیا کے ڈیفنس اتاشی کے ایک بیان کو میڈیا میں ’سیاق و سباق سے ہٹ‘ کر رپورٹ کیا جا رہا ہے۔
اپنی پریزینٹیشن میں انڈین ڈیفنس اتاشی شیو کمار نے کہا تھا کہ ’ہم نے چند طیارے ضرور کھوئے اور یہ صرف انڈیا کی سیاسی قیادت کی اس پابندی کی وجہ سے ہوا تھا۔‘
پاکستانی وزیر دفاع کا ردعمل
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈین ایئر چیف کے دعوے کو ’ناقابلِ یقین‘ قرار دیا اور کہا کہ ’تین ماہ تک ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا۔‘
ان کا دعویٰ تھا کہ ’انڈین فوج کے سینیئر افسران کو انڈین سیاستدانوں کی ناکامی چھپانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ ’اگر سوال سچ کا ہے تو دونوں فریقین آزادانہ جائزے کے لیے اپنے طیاروں کی انونٹریوں کو منظر عام پر لائیں۔ لیکن ہمیں شک ہے کہ یہ اس حقیقت کو عیاں کرے گا جو انڈیا چھپانا چاہتا ہے۔‘
سوشل میڈیا رد عمل
https://twitter.com/avi_nash_jha_/status/1954084936920838527
انڈین ایئرچیف مارشل کی وضاحت نے انڈیا میں مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔
کچھ صارفین طنز کر رہے ہیں کہ انڈیا کو اتنی دیر سے کیوں یاد آیا کہ پانچ پاکستانی طیارے تباہ ہوئے تھے۔ وہیں کچھ انڈین صارفین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکی صدر نے جن پانچ طیاروں کا ذکر کیا وہ انڈیا کے نہیں تھے۔
اویناش جھا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’تو کیا یہ خبر گذشتہ مہینوں میں جاری ہونے کے لائق نہیں تھی؟ کیا پارلیمنٹ میں جواب دیتے وقت وزیر دفاع کو اس کا علم نہیں تھا۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’پاکستان نے جیٹ طیارے کھوئے، ’جنگ‘ ہاری اور پھر بھی اس نے ایسا بیانیہ دیا کہ اس نے اپنی جیت کا دنیا کو یقین دلایا۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کا انڈیا کے اندر ہندو مسلم کرنا اچھا ہے لیکن عالمی سطح پر انڈیا کے بیانیے کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔‘
ایرو برنر نامی ایک صارف نے لکھا کہ کیا یہ سٹریٹجک تاخیر جان بوجھ کر کی گئی۔ ’تو کیا آپ لوگ پی اے ایف کے نقصانات کو پی اے ایف سے چھپانے جا رہے تھے؟ کیا آپ لوگ بیوقوف ہو؟‘