سائنسدانوں کی تیار کردہ ایسی آئس کریم جو پگھلتی ہی نہیں

آئس کریم جو پگھلتی نہیں ہے اور پگھل جائے تو ربڑ کی مانند شکل اختیار کر جائے، اصل میں یہ وہ نہیں ہے جو ہم میں سے زیادہ تر آئس کریم سے توقع کرتے ہیں۔
Getty Images
Getty Images

ویسے تو سردیوں میں بھی آئس کریم ہماری پسندیدہ چیزوں میں سے ایک ہوتی ہے مگر گرمیوں میں آئس کریم کا استعمال معمول سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ پارہ بڑھنے پر اس کے جلدی پگھلنے کی شکایت کرتے ہیں۔

کیا اب جدید دُنیا کے سائنسدان آئس کریم کو جلد پگھلنے اور اسے زیادہ دیر تک اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں؟

کُچھ برس قبل جاپان میں صنعت کار کانازاوا آئس اور بعد میں نرم سرو آئس کریم (جو آئس کریم کی ہی ایک قسم ہے مگر یہ عام آئس کریم کی طرح جلد پگھلتی نہیں ہے) کے بارے میں رپورٹس وائرل ہوئی تھیں۔ یہ آئس کریم پگھلے بغیر گرمی کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ اس آئس کریم کو بنانے والے سائنس دانوں نے ان میں ’پولیفینولز‘ کا استعمال کیا ہے۔

یہ پولیفینولز بہت سے پھلوں اور پودوں میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹ مالیکیولز کی ایک کلاس یعنی انھیں کی ایک قسم یا شکل ہے۔

پولیفینولز کا استعمال اور اس کے بعد سامنے آنے والا نتیجہ مختلف ہے اور وہ آئس کریم جس میں یہ کیمیکل ہو کم تو پگھلتی ہے مگر ایسا ہوتا کیسے ہے؟ آج اس کے بارے میں کُچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

Getty Images
Getty Images

آئس کریم بنیادی طور پر دودھ سے بنی کریم اور چینی پر مشتمل ہوتی ہے۔ آئس کریم بنانے والی مشینوں کی مدد سے پھلوں کی مٹھاس، کُچھ مصنوعی رنگ اور کیمیکلز کو ایک ٹھنڈے ڈرم میں تیار کیا جاتا ہے۔ جب اس ٹھنڈے ڈرم کے اندرونی حصے پر پھلوں کا رس، ان کی میٹھاس اور کیمیکلز اچھے سے مکس ہو کر جم جاتے ہیں تو پھر ایک سکریپر کی مدد سے انھیں ڈرم کی دیواروں سے اسے کُھرچ کر اُتار لیا جاتا ہے۔

آج کے جدید دور میں اس طریقے سے بنائے جانے والی آئس کریم کے کرسٹلز کو ایک مناسب حد اور سائز تک بڑھنے دیا جاتا ہے۔

جب آئس کریم فیکٹری سے آپ کے گھر میں موجود فریزر تک کا طویل سفر تہہ کرتی ہے تو کبھی یہ پگھلتی ہے اور کبھی اسے دوبارہ سے ٹھنڈا کر کے جمنے کے عمل سے گُزارا جاتا ہے۔ ایسے میں اس آئس کریم میں چکنی اور ناخوشگوار سی ایک سطح سامنے آتی ہے۔

آئس کریم کو جس فریزر میں تیار کیا جاتا ہے اُس کا درجہ حرارت تو صفر ڈگری سے بھی کم ہوتا ہے مگر باہر ہماری دُنیا میں درجہ حرارت تقریباً ہر کُچھ سو گز کے بعد مختلف ہوتا ہے۔

تاہم ایسے میں اس آئس کریم کو اس کی اصل شکل میں رکھنے کے لیے بڑی محنت کی جاتی ہے۔ آئس کریم بنانے والے پہلے تو اس میں سٹیبلائزرز استعمال کرتے ہیں یعنی اس کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے اور اسے گاڑھا کرنے کے لیے اجزا شامل کیے جاتے ہیں جن میں کیریگینن، سی ویڈ، اور گوار گوم شامل ہیں۔ آئس کریم بنانے والے ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری دُنیا کا درجہ حرارت اور اس میں آئس کریم کے سفر کو آسان بنایا جا سکے۔

آئس کریم جو پگھلتی نہیں ہے اور پگھل جائے تو ربڑ کی مانند شکل اختیار کر جائے، اصل میں یہ وہ نہیں ہے جو ہم میں سے زیادہ تر آئس کریم سے توقع کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف وسکونسن میں زیر تعلیم ماہرِ خوراک کیمرون وکس جو اب فوڈ پروڈیوسر جنرل ملز میں کام کرتے ہیں نے جب کانازاوا آئس کی نہ پگھلنے والی آئس کریم کی ویڈیو دیکھی تو وہ حیران رہ گئیں کہ پولیفینولز کا استعمال اور اسے کے بعد اس کے آئس کریم پر اثرات کیسے ہوتے ہیں۔

پولیفینولز کے مالیکیولز کسی بھی مادے کو جم جانے کے بعد اسے دیر تک ایک ہی شکل میں رکھنے یا جمے رہنے میں مدد دینے کی خصوصیات کے لیے جانے جاتے ہیں۔

تجربات میں جہاں انھوں نے کریم کو 0.75 فیصد، 1.5 فیصد اور 3 فیصد ٹینک ایسڈ کے ساتھ ملایا، انھوں نے دیکھا کہ فوری طور پر ہی کریم کے جمنے کا عمل شروع گیا۔

24 گھنٹوں تک مرکب کو ٹھنڈا کرنے کے بعد انھوں نے پیمائش کی اور نوٹ کیا کہ ٹینک ایسڈ کی وجہ سے وہ جم گئے تھے۔ اتنی مضبوطی سے کہ 3 فیصد مرکب کو چاقو سے کاٹا جا سکتا تھا یا اگر کپ کو الٹا کر دیا جاتا تو وہ اس میں سے باہر نہ گرتا۔

Getty Images
Getty Images

کریم کو جب مائیکروسکوپ کے نیچے رکھا تو ویکس نے یہ دیکھا کہ کریم کے زیادہ جم جانے والے حصے میں فیٹس کی مقدار زیادہ تھی۔ ویکس اور اُن کے ساتھیوں کا اس سب کو دیکھنے کے بعد اندازہ یہ تھا کہ ٹینک ایسڈ کریم میں موجود پروٹین کے ساتھ مل کر فیٹس کو ایک ہی شکل میں رکھنے یا اس کے دیگر اجزا کے ساتھ مل جانے یا آئس کریم میں موجود ہونے پر پگھلنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا کر رہا تھا۔

اس سے اس بات کی وضاحت ہوگی کہ اس طرح کے مادے سے بنی آئس کریم کم پگھلتی ہے۔ کریم کے پگھلے ہوئے کرسٹل سے الگ ہو جانے والی چربی یا فیٹس پولیفینول کے اضافے کی بدولت اسے اپنی شکل کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے اور ایسے میں ان اجزا سے بنی آئس کریم آپکی کون پر سے پگھل کر آپ کے ہاتھ پر سے ہوتی ہوئی پگھل کر نیچے نہیں گرتی۔

اُن کا کہنا ہے کہ یہ کیمیائی چال یا ترکیب وقت کو ایک جگہ روک نہیں سکتی یعنی یہ کہ کائنات کے قوانین کو تبدیل یا توڑنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ آپ کی آئس کریم کے لیے ہی ایک اہم اور مددگار کیمیکل ضرور ہے۔

ویکس کا کہنا ہے کہ ہمارے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے اس طرح سے بنائی گئی آئس کریم اپنی شکل تو برقرار رکھتی ہے مگر وہ حلوے کی طرح ہو جاتی ہے اور پولیفینول یقیناً آئس کریم کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد نہیں کرتے۔

آئس کریم جو پگھلتی نہیں ہے، جو اس کے بجائے ربڑ کے سی شکل اختیار کر جاتی ہے ویسی نہیں کہ جیسی روایتی آئس کریم سے متعلق ہم میں سے اکثر کے ذہن میں ہوتی ہے۔ جب کھانے کی بات آتی ہے تو توقع اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے جتنا آپ سوچتے ہیں۔ اگر آپ ونیلا آئس کریم کی توقع کرتے ہیں اور کاٹنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ میش شدہ آلو ہے تو یہ ایک بڑی اور ناخوشگوار تبدیلی ہے۔

شاید پولیفینول زیادہ مستحکم اور ایسے اچھے سٹیبلائزرز کی صف میں شامل ہوجائیں گے جو آئس کریم کو کم پگھلنے اور آسانی سے طویل فاصلہ تہہ کرنے جیسی مُشکلات پر قابو پانے کا ذریعے ہو جائیں۔ لیکن کیا ہائی ڈوز پولیفینول جو ڈیزرٹس کو شدید گرمی میں اپنی شکل کو برقرار رکھنے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں، آپ کے قریب آئس کریم سٹینڈز یا فریزر تک پہنچ جائیں گے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US