اُن پر الزام ہے کہ انھوں نے انڈین ریاست ہریانہ کے رہنے والے ایک ہندو کو گذشتہ برس جبری طور پر کلمہ پڑھوایا تھا۔ تاہم عدالت میں سماعت کے دوران ہریانہ کے مسلمان ہونے والے اس شہری نے بیان دیا تھا کہ وہ انھوں نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا۔
ڈاکٹر کمال فاروقی نے فرانس سے زراعت کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی تھیڈاکٹر کمال فاروقی گذشتہ ڈیڑھ سال سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی معروف درگاہ حضرت بل میں نماز ادا نہیں کر پائے ہیں۔
کمال فاروقی درگاہ حضرت بل کے سابق پیش امام اور خطیب ہیں مگر اس درگاہ میں اُن کے داخلے یا وہاں خطبہ دینے پر سرکاری وقف بورڈ نے پابندی عائد کر دی ہے۔
اُن پر الزام ہے کہ انھوں نے انڈین ریاست ہریانہ کے رہنے والے ایک ہندو کو گذشتہ برس جبری طور پر کلمہ پڑھوایا تھا۔ تاہم عدالت میں سماعت کے دوران ہریانہ کے مسلمان ہونے والے اس شہری نے بیان دیا تھا کہ وہ انھوں نے اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا۔
جج کے سامنے دیے گئے اس بیان کے باوجود ڈاکٹر فاروقی پر پابندی اب بھی برقرار ہے۔
عالمی شہرت یافتہ ڈل جھیل کے کنارے واقع 400 سال پرانی درگاہ حضرت بل کے ساتھ ڈاکٹر فاروقی کی جذباتی وابستگی ہے، اور اسی لیے، اُن کے مطابق، وہ آج کل ڈل جھیل میں کشتی میں بیٹھے بیٹھے درگاہ کا دیدار کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کمال فاروقی کشمیر کی زرعی یونیورسٹی میں ایک شعبے کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجیے، میرا خاندان 400 سال سے اس درگاہ کے ساتھ وابستہ ہے، خود مغل حکمرانوں نے ہمارے خاندان والوں کو یہ ذمہ داری دی تھی۔ میں اسی وابستگی کا تسلسل ہوں۔‘
وائرل ویڈیو
ہریانہ سے تعلق رکھنے والے ہندو شہری کے قبول اسلام کے موقع پر بنائی گئی ویڈیوگذشتہ اپریل میں درگاہ حضرت بل میں ماہ رمضان کے دوران تراویح کی نماز کے لیے کافی بھیڑ تھی۔ اسی دوران بنائی گئی ایک ویڈیو بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ڈاکٹر فاروقی کے ہاتھوں ہریانہ کے شہری سندیپ اسلام قبول کرتے ہیں اور اس کے بعد ’اللہ اکبر‘ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔
اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ سندیپ نے اپنا نیا نام ’محمد عبداللہ‘ رکھا۔
اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی پولیس نے ڈاکٹر فاروقی کے خلاف جبری تبدیلیِ مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا اور وقف حکام نے ڈاکٹر کمال فاروقی کو درگاہ سے بے دخل کر کے اُن کی وہاں حاضری یا خطبہ دینے پر پابندی عائد کر دی۔
وقف بورڈ کی سربراہ اور بی جے پی کی سینیئر رہنما ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے اس معاملے میں ردعمل دینے سے انکار کیا ہے۔
تاہم ان کے محکمے کہ افسران کو کہنا ہے کہ ’پولیس اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔‘
تاریخی درگاہ حضرت بل ماضی میں بھی تنازعات میں گھری رہی ہےکمال فاروقی نے بی بی سی کو اس واقعے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ برس اپریل میں رمضان کے دوران تراویح کی نماز سے ذرا پہلے وقف کے کچھ ملازمین اُن کے پاس آئے اور کہا کہ ہریانہ کا رہنے والا ایک ہندو سندیپ رادھے کلمہ پڑھنا چاہتا ہے۔
’میں نے اُن سے کہا نماز قریب ہے، بعد میں دیکھتے ہیں، لیکن انھوں نے کہا کہ وہ جامع مسجد گیا تھا جسے حکام نے مقفل کیا ہے، آپ مدد کیجیے۔‘
اُن کے بقول انھوں نے ’تین مرتبہ اُس شخص سے پوچھا کہ وہ کسی دباوٴ یا مجبوری میں تو یہ فیصلہ نہیں کر رہا۔ اُس نے کہا نہیں وہ اپنی مرضی سے آیا ہے۔‘
’پھر میں نے کلمہ پڑھوایا، اور وہاں اللہ اکبر کے نعرے گونجے۔ کوئی حکومت مخالف یا وطن دشمن سرگرمی نہیں ہوئی۔‘
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تو انڈیا بھر سے اِس پر ردعمل سامنے آیا۔ اس کے بعد پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور ڈاکڑ فاروقی کے درگاہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔
’میں روایتی مولوی نہیں ہوں‘
’میں روایتی مولوی نہیں ہوں۔ میں نے چالیس سال تک لوگوں کو سچ بولنے کی ترغیب دی‘ڈاکٹر کمال فاروقی نے کشمیر سے گریجوئیشن کے بعد انڈین ریاست مدھیہ پردیش کی یونیورسٹی سے زرعی ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی اور بعد میں اعلی تعلیم کے لیے فرانس چلے گئے۔ انھوں نے پیرِس کی زرعی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ وہ انگریزی، فرانسیسی اور عربی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں روایتی مولوی نہیں ہوں۔ میں نے چالیس سال تک لوگوں کو سچ بولنے کی ترغیب دی۔ میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں ہوں، البتہ اگر حکمران طبقہ کبھی لوگوں سے جھوٹ بولتا ہے یا اپنی ذمہ داریوں سے کتراتا تو میں انھیں اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہوں۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ وقف انتظامیہ درگاہوں اور خانقاہوں میں خطیب یا امام سے توقع کرتی ہے کہ وہ حکومت کی تعریف کریں۔ ’انھیں یس مین (ہاں میں ہاں ملانے والا) چاہیے، جو میں نہیں ہوں۔۔۔ اسی لیے قبولِ اسلام کے واقعہ کو بہانہ بنا کر مجھے چالیس سال بعد درگاہ سے بے دخل کر دیا گیا۔‘
حضرت بل سیاسی تنازعات سے گھِرا رہتا ہے

ڈاکٹر فاروقی کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ اس درگاہ سے جڑے تنازعات کافی پرانے ہیں۔
درگاہ حضرت بل پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تقسیم ہند سےپہلے میرواعظ یوسف شاہ اور شیخ محمد عبداللہ کے درمیان رسہ کشی ہوتی رہی ہے۔
دسمبر 1963 میں جب حضرت بل میں موجود موئے مقدس (پیغمبر اسلام کا بال) اچانک غائب ہوا تو پورے کشمیرمیں احتجاجی مظاہرے ہوئے جو کئی مہینوں تک جاری رہے، یہاں تک کہ اس کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی کشیدگی پیدا ہوئی اور انڈیا کے مغربی بنگال میں فرقہ ورانہ فسادات بھڑک اُٹھے۔
موئے شریف ڈرامائی طور پر دوبارہ اپنی جگہ پایا گیا تو اس کی شناخت کے لیے علماٴ کی ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق کر دی۔
سنہ 1990 کی دہائی میں مسلح عسکریت پسندوں نے حضرت بل درگاہ کے اندر ہتھیاروں سمیت پناہ لی اور وہاں موجود عقیدت مندوں کو یرغمال بنایا تو فوج نے اس درگاہ کا محاصرہ کیا جو کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ درگاہ کے قریب اسلامی لائبریری میں موجود مسلح عسکریت پسندوں کا محاصرہ کیا گیا تو جھڑپ کے دوران عسکریت پسند مارے گئے لیکن لائبریری آگ لگنے سے تباہ ہو گئی۔
ڈاکٹر فاروقی سے جُڑے اس حالیہ تنازع سے متعلق مبصرین کا دعویٰ ہے کہ ’انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کشمیر کے مذہبی اداروں پر کنٹرول چاہتی ہے، اور اس عمل کے دوران غیرسیاسی خطیبوں کو ہٹایا جا رہا ہے۔‘