اگر یہ منصوبہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو یہ رقبے کے لحاظ سے یورپ میں کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سفارتخانہ ہو گا۔ لیکن اس منصوبے کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ اس منصوبے سے بہت سے خطرات بھی منسلک ہیں۔
چین لندن میں اپنا بڑا سفارتخانہ قائم کرنا چاہتا ہےمیرے سامنے موجود دستاویز کی سب سے پہلی لائن میں جعلی حروف میں لکھا ہے ’انتہائی مطلوب‘۔
اس لائن کے اوپر ایک نوجوان خاتون کی تصویر ہے جو شاید کسی سٹوڈیو میں بنائی گئی ہے۔ تصویر میں خاتون کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا رہی ہیں اور اُن کے دانت واضح نظر آ رہے ہیں۔ اُن کی مختصر سیاہ بال، جنھیں خوبصورتی سے بنایا گیا ہے، اُن کے کندھوں تک آ رہے ہیں۔
خاتون کی اِس تصویر کے نیچے سُرخ روشنائی میں یہ الفاظ درج ہیں ’دس لاکھ ڈالرز کا انعام‘۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ کا ایک فون نمبر دیا گیا ہے۔
یہ دس لاکھ ڈالر کا انعام حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کے لیے ایک سادہ سی ہدایت درج ہے: ’اِس انتہائی مطلوب خاتون کے بارے میں معلومات فراہم کریں اور ان کی گرفتاری میں مدد کریں۔‘
اصل معاملہ یہ ہے کہ جب میں یہ پوسٹر پڑھ رہا تھا تو تصویر میں موجود یہ خاتون میرے سامنے ہی کھڑی تھیں۔
ہم دونوں ایک ایسی عمارت کے سامنے کھڑے ہیں جو کسی زمانے میں برطانیہ کے شاہی ٹکسال، رائل منٹ (برطانیہ میں سکے بنانے والی کمپنی) کی بلڈنگ تھی۔ مگر اب چین کو امید ہے کہ وہ لندن میں موجود اس عمارت کو اپنے نئے سفارتخانہ میں بدلے گا۔ یہ نیا سفارتخانہ چین کے لندن میں موجود اُس سفارتخانے سے کہیں بڑا ہو گا جو فی الحال اُس چھوٹی سی بلڈنگ میں ہے جس پر چین نے سنہ 1877 سے قبضہ کر رکھا ہے۔
چین کے سفارتخانے کی یہ نئی عمارت ’ٹاور آف لندن‘ کے بالکل سامنے واقع ہے اور یہاں پہلے ہی چینی سکیورٹی گارڈز گشت کر رہے ہیں۔ اس عمارت پر جا بجا سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کر دیے گئے ہیں۔
کارمین لو 2021 میں ہانگ کانگ سے فرار ہو کر برطانیہ پہنچی تھیں اور اب ان سے متعلق اطلاع دینے پر 10 لاکھ ڈالرز کا انعام رکھا گیا ہےجبکہ میرے ساتھ موجود خاتون (جن کی تصویر میرے ہاتھ پر موجود پوسٹر پر بھی ہے اور جن کی اطلاع دینے پر انعام کا اعلان کیا گیا) کارمین لو ہیں۔ وہ 30 سال کی ہیں اور سنہ 2021 میں ہانگ کانگ سے فرار ہو کر اُس وقت برطانیہ پہنچی تھیں جب اُن کے علاقے میں جمہوریت کے حامی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا اور کریک ڈاؤن جاری تھا۔
کارمین کا کہنا ہے کہ برطانیہ کو چین کی 'آمرانہ حکومت' کولندن میں واقع اِس نوعیت کے اہم مقام پر اپنا نیا سفارتخانہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اُن کو بڑا خدشہ یہ ہے کہ اتنے بڑے سفارتخانے کی مدد سے چین اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کر سکتا ہے اور انھیں کچھ وقت کے لیے عمارت میں تفتیش کی غرض سے روک بھی سکتا ہے۔
کارمین کا کہنا ہے کہ انھیں لندن آنے کے باوجود مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اُن کا پیچھا کیا جا رہا ہےکارمین جیسے چند دیگر افراد کو یہ خدشات بھی ہیں کہ جس مقام پر چین کو یہ سفارتخانہ بنانے کی اجازت دی جا رہی ہے وہ لندن کی فنانشل ڈسٹرکٹ کے انتہائی قریب ہے اور اسی لیے ایسے مقام پر جاسوسی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ اس علاقے کے رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ چین کے سفارتخانے کی ان کے علاقے میں موجودگی اُن کے لیے سکیورٹی رسک ہو گی۔
اس مقام پر چین کی جانب سے سفارتخانہ بنانے کے منصوبے کو پہلے مقامی کونسل نے مسترد کر دیا تھا، لیکن اب اس ضمن میں فیصلہ حکومت کو کرنا ہے اور حکومت کے سینیئر وزرا نے اشارہ دیا ہے کہ اگر چین سفارتخانہ تعمیر کرنے کے اپنے پلان میں معمولی ایڈجسٹمنٹ (ردوبدل) کر دے تو وہ اجازت دے دیں گے۔
یہ سائٹ 20 ہزار مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے، اور اگر چین کا یہ منصوبہ کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو یہ یورپ میں کسی بھی ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا سفارتخانہ ہو گا۔ مگر کیا چین کی جانب سے نیا سفارتخانہ بنانے کے ساتھ وہ خطرات بھی منسلک ہیں جن کا اظہار چین کے مخالفین کر رہے ہیں؟
یورپ میں سب سے بڑا سفارتخانہ
چین نے رائل منٹ کورٹ کی یہ پرانی عمارت سنہ 2018 میں 255 ملین پاؤنڈز (25 کروڑ، 50 لاکھ پاؤنڈ) کی خریدی تھی۔ لندن میں جس جگہ یہ عمارت واقع ہے وہ تاریخی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے جہاں بہت سی تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں۔ اس عمارت کے بالکل سامنے ٹاور آف لندن ہے جس کی تعمیر صدیوں قبل ہوئی تھی اور جس میں ماضی میں بہت سے برطانوی بادشاہ اور ملکائیں رہ چکی ہیں۔
اس مقام کی تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چین کا منصوبہ بھی بذات خود اس عمارت کو ایک ثقافتی مرکز بنانا ہے جس میں عملے کے 200 اراکین کی رہائش بھی شامل ہو گی۔ لیکن اسی منصوبے میں تہہ خانے میں اور حفاظتی دروازوں کے پیچھے، ایسے کمرے بھی موجود ہیں جن کے حوالے سے چین نے کوئی وضاحت نہیں دی ہے کہ وہاں کیا بنایا جائے گا۔
کارمین کہتی ہیں کہ 'میرے لیے یہ تصور کرنا آسان ہے کہ اگر مجھے اس چینی سفارتخانے لے جایا جائے گا، تو اس کے بعد کیا ہو گا۔'
یاد رہے کہ سنہ 2022 میں ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز مظاہرین کو مانچسٹر واقع چینی قونصل خانے کے گراؤنڈ میں ناصرف گھسیٹا گیا تھا بلکہ مارا پیٹا بھی گیا تھا۔
رائل منٹ کی موجودہ عمارت: اگر درکار اجازت نامے مل جاتے ہیں تو لندن میں چین کا یہ سفارتخانہ یورپ میں کسی بھی ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا سفارتخانہ ہو گااس سے قبل سنہ 2019 میں ہانگ کانگ میں بڑے پیمانے پر اس وقت مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جب ہانگ کانگ کی حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں کو چین کے حوالے کرنے کی اجازت دینے والا ایک نیا قانون لانے کی کوشش کا آغاز کیا گیا تھا۔
یہ وہی وقت تھا جب چین کی جانب سے ایسا قانون سامنے لایا گیا جس کے تحت ہانگ کانگ کے تمام منتخب عہدیداروں کو مجبور کیا گیا کہ انھیں چین سے وفاداری کا حلف اٹھانا ہو گا۔ بطور منتخب عہدیدار کارمین، جو اُس وقت ضلعی کونسلر تھیں، کو بھی چین سے وفاداری کا حلف اٹھانے کا کہا گیا مگر اس کے بجائے انھوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔
کارمین کا دعویٰ ہے کہ ان کی جانب سے مستفعی ہونے کے بعد چینی سرکاری میڈیا سے منسلک صحافیوں نے اُن کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ بیجنگ میں چین کی مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ایک اخبار نے صفحہ اول پر اُن کے خلاف یہ خبر چلائی اور الزام لگایا کہ کارمین اور اُن کے ساتھ اپنے کونسل کے دفاتر میں نجی پارٹیاں منعقد کرتے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ حکومت کے ہتھکنڈوں کو تو جانتے ہی ہیں۔ وہ آپ کا پیچھا کرتے ہیں،آپ کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے چند دوست اور ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘
کارمین اس کریک ڈاؤن کے دوران فرار ہو کر لندن چلی آئیں لیکن اُن کا دعویٰ ہے کہ اس کے باوجود انھیں ’مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔‘
کارمین کے فرار کے بعد ہانگ کانگ کی حکومت نے ان کی گرفتاری کے دو وارنٹس جاری کیے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ’لوگوں کو علیحدگی کے لیے اُکسانے اور بیرونی ملک یا بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔‘
اس کے بعد ان کی گرفتاری سے متعلق اطلاع دینے اور اس پر انعام سے متعلق اشتہار چھاپے گئے اور اُن کے برطانیہ میں موجود پڑوسیوں کو بھی بھیجے گئے۔
وہ کہتی ہیں ’حکومت ہر وقت اس کوشش میں ہوتی ہے کہ بیرون ملک مقیم کارکنوں کو بھی مار دیا جائے۔‘
ماہر سیاسیات اور مؤرخ سٹیو سانگایس او اے ایس چائنا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہانگ کانگ اور کچھ دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد لندن میں چین کے نئے سفارتخانے پر تشویش کا شکار کیوں ہیں۔
اس منصوبے کے خلاف پہلے ہی لندن میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے ہیںتاہم وہ کہتے ہیں کہ ’سنہ 1949 سے چینی حکومت کا کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے کہ وہ بیرون ملک لوگوں کو اغوا کریں یا انھیں اپنے سفارتخانوں میں رکھیں۔‘
لیکن اُن کا کہنا ہے کہ سفارتخانے کے عملے کے کچھ اراکین کو یہ ٹاسک ضرور دیا جا سکتا ہے کہ وہ برطانیہ میں موجود چینی طلبا یا چین کے مخالف افراد کی نگرانی کریں۔ ان کے مطابق سفارتخانے کے اراکین چین کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے برطانیہ کے شہریوں جیسا کہ سائنسدانوں، کاروباری افراد اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
چینی سفارتخانے نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’چین اور برطانوی عوام کے درمیان افہام و تفہیم اور دوستی کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے فروغ کے لیے پرُعزم ہیں۔ نئے سفارت خانے کی تعمیر سے ہمیں ایسی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے انجام دینے میں مدد ملے گی۔‘
جاسوسی کے خدشات
چین کے چند مخالفین ایک اور خدشے کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ انھیں یہ خدشہ ہے کہ رائل منٹ کورٹ کی عمارت میں بیٹھ کر چین برطانیہ کے فنانشل سسٹم کو ٹیپ کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق ایسا لندن شہر میں فرموں کے لیے حساس ڈیٹا لے جانے والی فائبر آپٹک کیبلز کو ٹیپ کر کے کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اسی مقام پر ماضی میں بارکلیز بینک کا فلور بھی تھا، اور اسی وجہ سے اسے براہ راست برطانیہ کے فنانشل انفراسٹرکچر سے منسلک کیا گیا تھا۔ اسی مقام کے پاس وہ سرنگ موجود ہے جسے 1985 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا مقصددریائے تھیمز کے نیچے سے فائبر آپٹک کیبلز کو گزارنا تھا، وہ کیبلز جو لندن شہر کی سینکڑوں فرموں کو خدمات پیش کرتی ہیں۔
اور رائل منٹ کے گراؤنڈ میں، واپنگ ٹیلی فون ایکسچینجکی اینٹوں سے بنی وہ پانچ منزلہ عمارت ہے جو لندن شہر کو خدمات فراہم کرتی ہے۔
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے آپٹو الیکٹرانکس کے محقق پروفیسر پیرکلس پیٹرو پولوس کے مطابق، ٹیلی فون ایکسچینج تک براہ راست رسائی لوگوں کی معلومات اکٹھی کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔
ان تمام معاملات نے ممکنہ جاسوسی کے بارے میں خدشات کو بڑھاوا دیا ہے۔ امریکہ میں سینیئر ریپبلکز اور کنزرویٹو کیون ہولنریک بھی انھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں سکیورٹی کا تجربہ رکھنے والے ایک اہلکار نے مجھے بتایا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ کیبلز کو ایسے آلات کی مدد سے ٹیپ کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنے سے معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اُن کے مطابق اور اس سب کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن ہو گا۔
’چینی سفارتخانے سے آدھے میل کے دائرے کے اندر خطرات موجود رہیں گے۔‘
تاہم وہ دلیل دیتے ہیں کہ چین کو ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ کیونکہ اس کے پاس سسٹمز کو ہیک کرنے کے دوسرے بہت سے طریقے ہیں۔
ان خدشات کے بارے میں، چینی سفارتخانے نے کہا کہ ’چین مخالف قوتیں سکیورٹی خطرات کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں تاکہ چینی منصوبے کی درخواست پر برطانوی حکومت کے غور و غوص کے عمل میں مداخلت کی جا سکے۔‘
سفارتخانے نے مزید کہا کہ ’یہ قابل نفرت اقدام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائے گا۔‘
علاقہ مکین کیا سوچتے ہیں؟
مارک نیگیٹ کو خدشہ ہے کہ چین کا سفارتخانہ بننے سے اُن کی پرائیویسی متاثر ہو گیرائل منٹ کورٹ کی عمارت کے عقب میں چند فلیٹس ہیں جنھیں 1980 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مارک نیگیٹ یہاں 20 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں۔ انھوں نے اپنے فلیٹ کے عقبی حصے میں وجود باغ کی دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'سفارت خانے کا عملہ یہاں قریب میں موجود ہو گا، وہ وہاں سے ہم پر نظر رکھیں گے۔'
'ہم اپنے علاقے میں سفارتخانہ اس لیے بھی نہیں چاہتے کیونکہ سفارتخانوں کے باہر عموماً احتجاج ہوتے ہیں، پھر ایسی بلڈنگز کی وجہ سے سکیورٹی خطرات بھی ہوتے ہیں اور علاقہ مکینوں کی پرائیویسی بھی متاثر ہوتی ہے۔'
یاد رہے کہ اس مجوزہ سفارتخانے کے مخالفین، جن میں زیادہ تعداد ہانگ کانگ، تبت، ایغور اور دیگر مخالف سیاست دانوں کی ہے، وہ پہلے ہی یہاں احتجاج کر چکے ہیں اور مظاہرین کی تعداد لگ بھگ چھ ہزار کے قریب تھی۔
مارک کو خدشہ ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے اور کوئی بھی اس سفارتخانے کو نشانہ بناتا ہے تو اس سے پڑوسیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لیکن ٹونی ٹریورز، جو ایل ایس ای ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ میں ایک وزٹنگ پروفیسر ہیں، موجودہ سفارت خانے کے قریب رہتے ہیں اور انھیں یقین نہیں ہے کہ یہاں مستقبل میں ہونے والے مظاہروں سے پڑوسیوں کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔
لندن میں چینی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے نئی جگہ پر سفارتخانہ بنانے سے 'اس علاقے کے آس پاس کے ماحول میں بہت بہتری آئے گی اور مقامی کمیونٹی اور ڈسٹرکٹ کو فائدہ پہنچے گا۔'
جب صدر شی نے یہ مسئلہ اٹھایا
چین کے صدر یہ معاملہ برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ بھی اٹھا چکے ہیں، جس کے بعد اس معاملے میں پیش رفت سامنے آئی تھینئے سفارتخانے سے متعلق چین کی پہلی درخواست کو مقامی کونسل نے سنہ 2022 میں حفاظت اور سلامتی کے خدشات کے پیش نظر مسترد کر دیا تھا۔ کونسل نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہاں ہونے والے ممکنہ احتجاجوں اور حفاظتی اقدامات کے باعث اس تاریخی علاقے مںی ہونے والی سیاحتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ابتدائی طور پر درخواست کے مسترد ہونے کے بعد چین نے انتظار کیا، پھر اگست 2024 میں لیبر پارٹی کے اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد دوبارہ وہی درخواست جمع کروا دی۔
23اگست کو سر سٹارمر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد چینی صدر شی جن پنگ سے فون کے ذریعے بات کی۔ بعدازاں سر سٹارمر نے تصدیق کی کہ چینی صدر نے اس بات چیت کے دوران سفارتخانے کا مسئلہ اٹھایا تھا۔
اس ٹیلی فون کال کے بعدنائب برطانوی وزیر اعظم انجیلا رینر نے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے اس معاملے کوکونسل کے دائرہ کار سے نکال پر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔