چین کے بے روزگار نوجوانوں میں یہ رجحان خاصا مقبول ہو رہا ہے کہ وہ کمپنیوں کو پیسے دیتے ہیں تاکہ وہ یہ بہانہ کر سکیں کہ وہ ان کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔
شوئی زو صبح آٹھ یا نو بجے دفتر آ جاتے ہیں اور کبھی کبھی رات کو 11 بجے تک بھی یہاں ہوتے ہیںکوئی بھی شخص ایسی جگہ کام نہیں کرنا چاہے گا جہاں اسے تنخواہ نہ ملے، یا اس سے بھی بدتر کہ آپ کو اپنے ہی باس کو تنخواہ دینی پڑے تاکہ وہ آپ کو نکال نہ دے۔
لیکن چین کے بے روزگار نوجوانوں میں یہ رجحان خاصا مقبول ہو رہا ہے کہ وہ کمپنیوں کو پیسے دیتے ہیں تاکہ وہ یہ بہانہ کر سکیں کہ وہ ان کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔
یہ پیشرفت چین کی سست معیشت اور روزگار کی صورتحال کے درمیان ہوئی۔ مارکیٹ میں حقیقی ملازمتوں کا پیدا ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے تو کچھ لوگ گھر میں رہنے کی بجائے دفتر جانے کے لیے ادائیگی کرنا پسند کرتے ہیں۔
30 سالہ شوئی زو کا کھانے کا کاروبار تھا جو گذشتہ برس ناکام ہو گیا۔ اس سال اپریل میں انھوں نے ہانگ کانگ کے شمال میں 114 کلومیٹر دور ڈونگوان شہر میں ’پریٹینڈ ٹو ورک کمپنی‘ نامی کاروبار کے ذریعے چلائے جانے والے ایک فرضی دفتر میں جانے کے لیے یومیہ 30 یوآن (4.20 ڈالر) ادا کرنا شروع کیے۔
ان کے وہاں پانچ ’کولیگ‘ اور ہیں اور وہ بھی یہی کر رہے ہیں۔
شوئی زو کہتے ہیں کہ ’میں بہت خوشی محسوس کرتا ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ایک گروپ کی صورت میں کام کر رہے ہیں۔‘
چین کے بڑے شہروں میں ایسے بہت سے آپریشن اب نظر آنے لگے ہیں۔ اکثر وہ مکمل طور پر کام کرنے والے دفاتر کی طرح نظر آتے ہیں اور وہاں کمپیوٹر، انٹرنیٹ تک رسائی، میٹنگ رومز اور چائے کے کمرے بھی ہوتے ہیں۔
لیکن صرف وہاں بیٹھنے کی بجائے نوجوان ان کمپیوٹرز کا استعمال نوکری کی تلاش یا اپنے سٹارٹ اپ کاروبار شروع کرنے کی کوشش کرنے کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔
یومیہ فیس عام طور پر 30 سے 50 یوآن کے درمیان ہوتی ہے، اس میں دوپہر کا کھانا، سنیکس اور مشروبات بھی شامل ہوتے ہیں۔
اس طرح کے ادارے ایسے وقت میں مشہور ہو رہے ہیں، جب چینی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 14 فیصد سے زیادہ ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی نوکری ڈھونڈنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس سال ایسے گریجویٹس کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ ہو جائے گی، جو بہت بڑا ریکارڈ ہے۔
یہاں آنے والے لوگ اپنی مرضی سے آنے جانے کا وقت سیٹ کر سکتے ہیںنیوزی لینڈ میں وکٹوریا یونیورسٹی آف ویلنگٹن سکول آف مینجمینٹ کے سینیئر لیکچرار ڈاکٹر کرسچن یاؤ چینی معیشت کے ماہر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کام کرنے کے بہانے کا رجحان اب بہت عام ہے۔ معاشی تبدیلی، تعلیم اور جاب مارکیٹ کے درمیان عدم مطابقت کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنے اگلے اقدامات کے بارے میں سوچنے یا تبدیلی کے طور پر نئی ملازمتوں کے لیے ان جگہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
’ایسی کمپنیاں اس صورتحال کا ایک طرح کا حل ہیں۔‘
شوئی زو کو ایک سوشل میڈیا سائٹ سے ’پریٹینڈ ٹو ورک کمپنی‘ کا پتا چلا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے محسوس کیا کہ اگر دفتر جیسا ماحول ملے گا تو ان میں نظم و ضبط آئے گا۔ وہ اب تین ماہ سے زیادہ عرصے سے اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔
شوئی زو کہتے ہیں کہ وہ دفتر سے اپنے والدین کو تصاویر بھیجتے ہیں اور اپنی بے روزگاری کو لے کر اب زیادہ بے چینی محسوس نہیں کرتے۔
یہاں آنے والے لوگ اپنی مرضی سے آنے جانے کا وقت سیٹ کر سکتے ہیں لیکن شوئی زو صبح آٹھ یا نو بجے دفتر آ جاتے ہیں اور کبھی کبھی رات کو11 بجے تک بھی دفتر میں ہی ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں موجود دیگر لوگ اب ان کے دوستوں کی طرح ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب کوئی نوکری ڈھونڈنے کا کام کر رہا ہوتا ہے تو وہ لگن سے کام کرتے ہیں لیکن فارغ وقت میں وہ باتیں اور مذاق کرتے ہیں، گیمز بھی کھیلتے ہیں اور اکثر اوقات کام کے بعد رات کا کھانا بھی ساتھ کھاتے ہیں۔
شوئی زو کہتے ہیں کہ وہ اب پہلے سے زیادہ خوش ہیں۔
شنگھائی میں شی اووین تانگ نے اس برس کے آغاز میں ایک ایسی ہی کمپنی میں کام شروع کیا۔ 23 سالہ شی اووین نے گذشتہ برس ہی یونیورسٹی سے اپنی ڈگری مکمل کی تھی لیکن ان کے پاس نوکری نہیں۔
ان کی یونیورسٹی کا ایک غیر تحریری اصول یہ ہے کہ گریجویشن کے ایک سال کے اندر اندر طلبا کو کوئی نوکری کرنا ہو گی یا انٹرن شپ کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا ورنہ انھیں ڈپلومہ نہیں دیا جائے گا۔
انھوں نے اپنی یونیورسٹی کو اس آفس کا منظرنامہ اپنی انٹرن شپ کے ثبوت کے طور پر بھیجا لیکن حقیقت میں وہ اس کمپنی میں یومیہ فیس ادا کرتی ہیں اور یہاں بیٹھ کر آن لائن ناول لکھتی ہیں تاکہ وہ کچھ جیب خرچ کما سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ جعلی کام کر رہے ہیں تو اسے پوری طرح کریں۔‘

جرمنی میں میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ فار سوشل اینتھروپولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر باؤ زیانگ کا کہنا ہے کہ چین میں نوکریوں کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے دکھاوے کے کام کا رجحان بڑھ رہا ہے جو ’مجبور اور بے بسی کے احساس کی عکاسی‘ کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کام کرنے کے دکھاوے کے ذریعے نوجوان افراد اپنے لیے وقت نکالتے ہیں اور معاشرے سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔‘
اساتذہ اور والدین سے تنگ نوجوان جو اپنے لیے ’وقار‘ خریدتے ہیں
چین کے شہر ڈونگوان میں ایسی ہی ایک کمپنی کے مالک 30 سالہ فیو (فرضی نام) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایک کام کی جگہ نہیں فروخت کر رہا۔ بلکہ میں وہ وقار بیچ رہا ہوں کہ جس میں آپ کو یقین دہانی کرائی جاتی ہیں کہ آپ بے کار شخص نہیں۔‘
وہ ماضی میں خود بھی بے روزگار رہ چکے ہیں۔ ان کا ایک ریٹیل کاروبار کووڈ کے دوران بند ہو گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں بڑا مایوس تھا اور خود کو تباہ کرنے کے دہانے پر تھا۔ یہ ایسا ہے جیسے آپ کچھ بدلنا چاہیں مگر بے بس ہوں۔‘
رواں سال اپریل کے دوران انھوں نے اپنی کمپنی کی تشہیر کی اور ایک ہی ماہ میں دفتر لوگوں سے بھر گیا۔ ان کے نئے ’ملازمین‘ نے باقاعدہ درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
فیو کا کہنا ہے کہ ان کے 40 فیصد گاہک نئے یونیورسٹی گریجویٹس ہیں جو یہاں آ کر تصاویر لیتے ہیں اور اپنے اساتذہ کو بھیج کر ثابت کرتے ہیں کہ انھیں انٹرنشپ کا تجربہ حاصل ہو گیا ہے۔ ایک قلیل تعداد ان نوجوانوں کی ہے جو والدین کے دباؤ سے نمٹنا چاہتے ہیں۔
جبکہ 60 فیصد تعداد فری لانسرز یا ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کی ہے۔ وہ بڑی ای کامرس کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں یا سائبر سپیس کے مصنف ہیں۔ ان کی اوسط عمر 30 کے لگ بھگ ہے اور سب سے کم عمر شخص 25 سالہ ہے۔
سرکاری طور پر ان ملازمین کو ’فلیکسیبل امپلائرمنٹ پروفیشنل‘ کہتے ہیں۔ اس گروہ میں رائیڈ ہیلنگ کمپنیوں سے منسلک لوگ اور ٹرک ڈرائیور بھی شامل ہیں۔
فیو کہتے ہیں کہ طویل مدت میں یہ سوال برقرار ہے کہ آیا کاروبار منافع بخش رہے گا۔ مگر وہ اسے ایک سوشل تجربہ قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں اپنا وقار رکھنے کے لیے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے ذریعے کچھ لوگ سچ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
’ہم اس فریب میں صارفین کا ساتھ دیتے ہیں جب ہم انھیں اپنی اداکاری کو طول دینے میں مدد کرتے ہیں۔‘
زاؤ اب اکثر وقت مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کے ہنر سیکھنے میں گزار رہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا ہے کہ بعض کمپنیاں بھرتیوں کے وقت اے آئی کی صلاحیتیں جانچتی ہیں۔
انھیں لگتا ہے کہ ایسی اے آئی مہارتوں کے ذریعے انھیں نوکری ملنا ’آسان ہو جائے گا۔‘