انڈیا میں اپنی والدہ کے ساتھ مقیم ہادیہ اپنی ’اماں ہی کے ساتھ‘ رہنا چاہتی ہیں مگر پاکستان میں موجود اُن کے والد اُن کے کسٹڈی کے دعویدار ہیں۔ پانچ سالہ پاکستانی لڑکی کی کہانی جس کا بچپن سرحدوں، قانونی دستاویزات اور دو ملکوں کے درمیان جاری سفارتی رسہ کشی کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔
گُل فشاں: ’حقیقت یہ ہے کہ میں اندر ہی اندر خوفزدہ ہوں‘یہ منظر انڈین ریاست پنجاب کے علاقے ملیرکوٹلہ میں واقع ایک الگ تھلگ نظر آنے والے مکان کا ہے۔ اِس گھر کے آنگن میں پانچ سالہ ہادیہ آفریدی اپنی والدہ کے ڈوپٹے کو مضبوطی سے تھامے کھڑی ہیں۔
ابھی ہم نے ہادیہ سے بات چیت کا آغاز کیا ہی تھا کہ وہ دھیمے سے لہجے میں بولیں ’میں اپنی اماں (امی) کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔‘ ہادیہ نے یہ بات کہہ تو دی مگر شاید یہ بچی تاحال اِس بات سے ناواقف ہے کہ اِس کا بچپن سرحدوں، قانونی دستاویزات اور دو ملکوں کے درمیان جاری سفارتی رسہ کشی کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔
پانچ سالہ ہادیہ کی کہانی اس جدوجہد میں گِھری ہے کہ انھیں اُس گھر رہنے کی اجازت دی جائے جو ہوش سنبھالنے کے بعد سے اُن کا واحد مسکن رہا ہے، مگر پاکستان میں رائج بچوں کی کسٹڈی سے متعلق فیملی قوانین اس جدوجہد کی راہ میں حائل ہیں۔
مگر ہادیہ ہمیشہ سے انڈین پنجاب میں واقع اِس گھر میں نہیں رہ رہیں۔ سنہ 2020 میں اُن کی پیدائش پاکستان کے شہر لاہور میں ہوئی تھی۔ اُن کی والدہ گُل فشاں کا تعلق انڈیا سے ہے اور وہ انڈین شہری ہیں مگر والد معیز خان پاکستانی شہری ہیں۔
گُل فشاں اور معیز آفریدی کی شادی سنہ 2019 میں ویلنٹائن ڈے (14 فروری) کے موقع پر ہوئی تھی۔ مگر یہ شادی کچھ زیادہ عرصہ چل نہ سکی۔
گُل فشاں کہتی ہیں کہ اُن کی شادی کا اختتام ڈائیورس پر ہوا جس کے بعد انھوں نے اپنی کم عمر بچی (ہادیہ) کی کسٹڈی سے متعلق کیس پاکستان کے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کیا، فیصلہ گُل فشاں کے حق میں آیا اور وہ ہادیہ کے ہمراہ انڈیا واپس چلی آئیں۔
انڈیا واپسی پر گُل فشاں کی منزل اُن کا میکہ (امی کا گھر) تھا جو پنجاب کے شہر ملیرکوٹلہ میں ہے۔ وہی گھر جہاں ہماری ہادیہ اور گُل فشاں سے ملاقات ہو رہی تھی۔
اس کے بعد سے ہادیہ کی پرورش انڈیا ہی میں ہوئی۔ یہیں انھوں نے سکول میں داخلہ لیا، وہ وہی زبان بولتی ہیں جو اس شہر میں بولی جاتی ہے اور وہ انھیں لوگوں کو جانتی پہچانتی ہیں جو اُن کی والدہ کے رشتہ دار ہیں۔
گُل فشاں کہتی ہیں کہ ’اب انڈیا ہی اِس کا گھر ہے۔‘
گُل فشاں اور معیز آفریدی کی شادی 2019 میں ویلنٹائن ڈے (14 فروری) پر ہوئی، مگر یہ شادی زیادہ عرصہ چل نہ سکیایک نئی زندگی، مگر رکاوٹوں سے بھرپور
گل فشاں اور معیز آفریدی میں علیحدگی کے بعد دونوں نے دوسری، دوسری شادی کر لی۔
گُل فشاں کی دوسری شادی سنہ 2022 میں ہوئی اوراُن کے شوہر کا تعلق انڈیا سے ہی ہے اور وہ روزگار کے سلسلے میں دبئی میں رہتے ہیں۔ سنہ 2024 میں ان کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔
کچھ ہی عرصے بعد ہادیہ کے پاکستان میں موجود والد نے نئی دہلی میں پاکستانی سفارتخانے میں ایک درخواست جمع کروائی اور انڈیا میں موجود اپنی بیٹی کی تحویل (کسٹڈی) کا مطالبہ کر دیااور اِس بات پر بھی اعتراض کیا کہ ایک پاکستانی شہری (ہادیہ) انڈیا میں کیسے اتنے طویل عرصے تک رہ سکتی ہیں۔
اس درخواست میں والد کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان میں رائج قوانین کے تحت کسی جوڑے میں طلاق کے بعد کم عمر بچوں کی کسٹڈی والدہ کو دی جاتی ہے مگر اگر والدہ دوسری شادی کر لیں تو وہ کم عمر بچے یا بچی کی کسٹڈی سے محروم ہو جاتی ہیں۔
چونکہ ہادیہ کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھیں، اسی لیے وہ پاکستانی شہری ہیں۔ وہ اپنی والدہ کے ہمراہ انڈیا مخصوص مدت کے ویزے پر گئی تھیں۔ ویزے کی معیاد پوری ہونے پر جب گذشتہ دنوں ہادیہ کی والدہ نے اپنی بیٹی کے ویزے کی مدت میں توسیع کی درخواست جمع کروائی تو اسے مسترد کر دیا گیا۔
ہادیہ کی پیدائش پاکستان کے شہر لاہور میں ہوئی مگر بعدازاں وہ والدہ کے ساتھ انڈیا منتقل ہو گئیںانڈیا میں امیگریشن حکام نے توسیع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ہادیہ کے والد کی جانب سے جمع کی گئی درخواست کو ایک رکاوٹ کے طور پر بیان کیا۔
یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس نے پانچ سالہ بچی کی ایک ایسے ملک (پاکستان) میں ممکنہ ڈیپورٹ کرنے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے جو اُسے بمشکل یاد ہے۔
اس کے علاوہ، جس چیز نے حالیہ دنوں میں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا وہ مئی 2025 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی فضائی جھڑپیں تھیں جو دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے تک لے آئی تھیں۔ انھیں جھڑپوں کے بعد انڈین حکومت نے انڈیا میں موجود تمام پاکستانی شہریوں کو واپس جانے کی ہدایت کر دی تھی۔
’میں اندر ہی اندر خوفزدہ ہوں‘
گل فشاں کہتی ہیں کہ ’یہ (ہادیہ) مجھ سے پوچھتی ہے کہ کیا اب مجھے کوئی اپنے ساتھ لینے کے لیے آ جائے گا۔ میں اسے تسلی دیتی ہیں کہ ’نہیں بیٹا، میں یہاں موجود ہوں۔‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اندر ہی اندر خوفزدہ ہوں۔‘
ہادیہ کے پاکستانی پاسپورٹ کی میعاد اکتوبر 2025 میں ختم ہونے والی ہے۔ اگر آئندہ آنے والے دنوں میں فیصلہ ہادیہ کے حق میں نہیں آتا تو انھیں انڈین حکومت کی جانب سے غیر قانونی غیر ملکی شہری قرار دیا جا سکتا ہے، اور اس کے تحت انھیں پاکستان ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے، جہاں نہ تو ہادیہ کسی کو جانتی ہیں اورگل فشان کے مطابق ’نہ ہی وہاں کوئی ایسا ہے جو اُن کا خیال رکھ پائے۔‘
تاہم پاکستان میں موجود ہادیہ کے والد معیز آفریدی کا کہنا ہے کہ چونکہ ہادیہ کی والدہ دوسری شادی کر چکی ہیں، اس لیے وہ بچی کی کسٹڈی کی حقدار نہیں رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شریعت کے مطابق بچوں کی کفالت کی ذمہ داری والد کی ہوتی ہے، اسی لیے وہ اپنی اس ذمہ داری سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ بچی کا خیال کیسے رکھیں گے، تو معیز آفریدی کا کہنا تھا کہ طلاق کے بعد جب تک وہ سنگل تھے تو اور بات تھی مگر اب وہ دوسری شادی کر چکے ہیں اور اب وہ اس ذمہ داری کو آرام سے انجام دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب گُل فشاں اور اُن کے خاندان نے مدد کے لیے حکومتِ انڈیا کو خط بھی لکھا، اور حکومت کی جانب سے موزوں جواب نہ ملنے پر انھوں نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا۔
ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر ہائیکورٹ نے ہادیہ کی پاکستانی شہریت کو تسلیم کیا مگر بچی کی کم عمری اور والدہ پر بچی کے دارومدار سے متعلق بات کی۔ عدالت نے انڈین حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس خاندان کی درخواست پر ’بہت زیادہ ہمدردی‘ سے غور کرے اور تین ماہ کے اندر اس پر فیصلہ کرے۔
قانونی پوزیشن

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہادیہ کا کیس شہریت (نیشنیلیٹی) اور کسٹڈی جیسے معاملات کی سخت گیر تشریحات کی انسانی قیمت کو واضح کرتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں قانون بہت واضح ہے۔
انڈیا کے ایڈیشنل سولیسٹر جنرل ستیہ پال جین کا کہنا ہے کہ ’چونکہ بچی پاکستان میں پیدا ہوئی تھی، اس لیے وہ قانونی اور پیدائشی طور پر پاکستانی شہری ہے۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ انڈیا میں مزید رہ سکتی ہے اور کیا اسے انڈین شہریت مل سکتی ہے؟ ستیہ پال جین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انڈیا کے قانونِ شہریت کے تحت ایک تفصیلی ضابطہ کار موجود ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کو ابھی گُل فشاں اور ہادیہ کی درخواست (انڈیا میں قیام کی میعاد میں اضافہ) پر حتمی فیصلہ دینا ہے۔ گل فشاں پرُامید ہیں کہ فیصلہ اُن کے حق میں آئے گا۔ ’میں اپنی بیٹی کو یہاں (انڈیا) غیر قانونی طور پر نہیں لائی، پاکستان میں عدالتوں کی اجازت کے بعد میں اسے یہاں لائی ہوں۔اب میں پرسکون انداز میں اُس کی پرورش کرنا چاہتی ہوں۔‘
پاکستان میں فیملی قوانین کی ماہر ایڈووکیٹ صدف جمیل نے بتایا کہ کسی جوڑے میں طلاق کے صورت میں عموماً کم عمر بچوں کی کسٹڈی کے معاملات کا فیصلہ ’گارڈیئنز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890‘ اور اسلامی (شریعی) قوانین کے تحت کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں عدالتیں فیصلہ کرتے وقت سب سے زیادہ فوقیت بچے یا بچی کی ویلفیئر کو دیتے ہیں اور دیکھتی ہیں کہ آیا ماں کے پاس پرورش بہتر ہو سکتی ہے یا والد کے پاس۔
انھوں نے کہا کہ اگر لڑکے یا لڑکی کی عمر سات سال سے کم ہو تو عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ کسٹڈی والدہ کے پاس رہتی ہے تاہم سات سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد والد بھی کسٹڈی کا دعویدار ہو سکتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق اگر بچے یا بچی کی عمر سات سال ہونے سے پہلے والدہ دوسری شادی کر لیتی ہیں تو والد اس بنیاد پر کسٹڈی کے دعویدار ہو سکتے ہیں، تاہم صدف کے مطابق، اس صورت میں بھی عدالت بچے یا بچی کی ویلفیئر کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہے کہ بچوں کی پرورش کہاں زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔
جب گُل فشاں سے ہماری بات ہو رہی تھی تو ہادیہ اپنے کریونز کے ساتھ کاغذ پر ڈرائنگ بنا رہی تھیں اور کچھ لکھ رہی تھیں۔
وہ سفارت خانوں کے معاملات، بچوں کی کسٹڈی یا ملک بدری کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔
گل فشاں نے ہادیہ سے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ (ہادیہ) کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک چھوٹی سی بچی ہے۔‘