انٹرا ہیپٹک ایکٹوپک حمل ایک غیر معمولی کیس ہےدنیا میں اسی نوعیت کے حمل کے 45 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں تین کیسز انڈیا سے سامنے آئے۔انڈیا میں پہلا کیس سنہ 2012 میں دہلی کے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج میں سامنے آیا تھا۔
حال ہی میں انڈیا کی ریاست اُترپردیش میں حاملہ خاتون کا ایک ایسا نایاب اور چونکا دینا والا کیس سامنے آیا جس میں بچے (فیٹس یا جنین) کی نشوونما خاتون کے یوٹرس (بچہ دانی) کے بجائے جگر میں ہو رہی تھی۔
35 سالہ متاثرہ خاتون سرویش کا یہ کیس انڈیا میں ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
یہ خبر سامنے آنے کے بعد عام افراد سمیت طبی ماہرین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا اور خاتون سرویش کی حالت اب کیسی ہے؟
میں بھی انھی سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے سرویش کے گاؤں ’دستورا‘ پہنچا۔
جب میں اُن کے گھر پہنچا تو وہ پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں اور اُن کے کمر کے گرد ایک بیلٹ بندھی ہوئی تھی۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے لیے کروٹ لینا بھی کافی مشکل ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اُن کے پیٹ کے دائیں جانب اوپری حصہ میں 21 ٹانکے لگے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹروں نے انھوں کوئی بھی وزنی چیز اُٹھانے سے منع کیا ہے اور کہا کہ وہزیادہ آرام کریں اور ہلکی پھلکی غذا کھائیں۔
سرویش کو کروٹ بدلنے، باتھ روم جانے اور کپڑے بدلنے کے لیے اپنے شوہر کی مدد لینا پڑتی ہے۔
سرویش اور ان کے شوہر پرم ویر کا کہنا ہے کہ اُن کے خاندان کے لیے یہ معاملہ کسی معمے سے کم نہیں ہے۔
سرویش نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے بہت قے آ رہی تھی، تھکاؤٹ محسوس ہوتی تھی اور درد رہتا تھا۔ یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے کیا ہوا ہے؟‘
انھوں نے بتایا کہ جب اُن کے حالت زیادہ خراب ہو گئی تو ڈاکٹر نے انھیں الٹرا ساؤنڈ کروانے کے لیے کہا، لیکن رپورٹ میں کچھ پتا نہیں چلا اور وہ ڈاکٹروں کی طرف سے تجویز کردہ پیٹ کا انفیکشن ختم کرنے والی دوائیں کھاتی رہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ایک مہینے تک دوائی کھانے کے بعد بھی جب کوئی فائدہ نہیں ہوا تو پھر دوبارہ الٹرا ساؤنڈ کروانے گئیں۔
اس الٹرا ساؤنڈ کی جو رپورٹ سامنے آئی تو وہ اتنی عجیب تھی کہ ڈاکٹروں کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔
الٹرا ساؤنڈ کرنے والی ڈاکٹر ثانیہ زہرہ نے سرویش کو بتایا کہ اُن کا بچہ جگر میں ہے۔ یہ سرویش اور اُن کے شوہر پرم ویر کے لیے ایک عجیب صورتحال تھی۔
’بچہ آپ کے جگر میں ہے‘
اس رپورٹ کی مزید تصدیق کرنے کے لیے وہ قریبی شہر میرٹھ گئیں جہاں انھوں نے دوبارہ الٹرا ساؤنڈ کروایا اور ایم آر آئی بھی کروائی، لیکن اس کی رپورٹ پھر بھی وہی تھی۔
سرویش کے لیے اس رپورٹ پر یقین کرنا مشکل تھا کیونکہ اس دوران انھیں باقاعدگی سے ماہواری آ رہی تھی۔
ایم آر آئی کرنے والے ڈاکٹر کے کے گپتا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے 20 سال کے پریکٹس میں کبھی ایسا کیس نہیں دیکھا۔
اس رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل، اُنھوں نے رپورٹس کا کئی بار جائزہ لیا اور خاتون سے بار بار اُن کی ماہواری کے سائیکل کے بارے میں پوچھا۔
ڈاکٹر گپتا کے مطابق ’خاتون کے جگر کے دائیں جانب 12 ہفتوں کا فیٹس یعنی جنین تھا، جس کے دل کی دھڑکن نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کیفیت کو انٹرو ہیپٹک ایکٹوپک پریگنینسی کہا جاتا ہے جو بہت ہی نایاب ہے۔ اس طرح کی کیفیت میں خواتین کو ماہواری کے دوران بہت زیادہ خون آتا ہے اور وہ اسے معمول کے پریڈز سمجھتی ہیں اور ان حالات میں حمل کا پتہ لگانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔‘
’سرجری کے علاوہ کوئی اور دوسرا آپشن نہیں‘
ڈاکٹر نے اس جوڑے کو بتایا کہ اگر جنین (بچہ) بڑا ہو گیا تو جگر کے پھٹنے کا خطرہ ہے۔ ایسی صورتحال میں ماں کا زندہ بچ پانا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے آپریشن کے علاوہ کوئی اور دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔
پرم ویر کا کہنا ہے کہ بلند شہر میں کوئی بھی ڈاکٹر اس کیس کو لینے کے لیے تیار نہیں تھا چنانچہ وہ میرٹھ گئے، مگر یہاں بھی انھیں مایوسی ہوئی۔
شوہر پرم ویر کے مطابق ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ یہ ایک پیچیدہ کیس ہے جس میں ماں کی جان کو خطرہ ہے، چنانچہ سب نے انھیں دہلی جانے کا مشورہ دیا۔
خاتون سرویش نے کہا کہ ’ہم غریب ہیں اور ہمارے لیے دہلی جا کر وہاں کا خرچ برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ کلینکوں کے کئی چکر لگانے کے بعد ہم نے یہیں علاج کراوانے کا فیصلہ کیا۔‘
بہت کوششوں کے بعد میرٹھ کے ایک نجی ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے سرویش کا آپریشن کرنے کی حامی بھر لی۔
آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں کی ٹیم میں شامل ایک ڈاکٹر پارول داہیا کا کہنا ہے کہ ’جب مریضہ ہمارے پاس آئی تو وہ تین ماہ سے تکلیف میں تھیں۔ اُن کے پاس الٹرا سونوگرافی اور ایم آر آئی کی رپورٹس تھیں، جس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ انٹرا ہیپٹک ایکٹوپک پریگنینسی ہے۔ہم نے اس کیس کے بارے میں سینیئر سرجن ڈاکٹر سنیل کنول سے بات کی اور وہ سرجری کرنے پر تیار ہو گئے، جس کے بعد مریضہ کی سرجری ہوئی۔‘
ڈاکٹروں کے مطابق یہ سرجری ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔
ڈاکٹر کے کے گپتا نے بی بی سی کو اس سرجری کی ویڈیو اور جنین کی تصاویر بھی دکھائیں۔
انٹرا ہیپٹک ایکٹوپک پریگنینسی کیا ہوتی ہے؟
خواتین کی بیضہ دانی سے خارج ہونا والے انڈے کا جب سپرم سے ملاپ ہوتا ہے تو انڈا فرٹیلائیز ہوتا ہے۔ اس کے بعد فرٹیلائزڈ انڈا ٹیوب کے ذریعے بچہ دانی میں آتا ہے اور بچہ دانی میں ہی جنین تیار ہوتا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز بی ایچ یو سے وابستہ ڈاکٹر ممتا کہتی ہیں کہ بعض کیسز میں، بچہ دانی تک پہنچنے کے بجائے، فرٹیلائیزڈ انڈا فیلوپین ٹیوب میں رہ جاتا ہے یا کسی دوسرے عضو کی سطح سے چپک جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا مثال کے طور پر اس کیس میں یہ جگر میں پھنس گیا کیونکہ جگر کو خون کی فراہمی اچھی ہوتی ہے، اس لیے یہ ابتدائی دنوں میں جنین کے لیے ’زرخیز زمین‘ کا کام کرتا رہا۔
لیکن کچھ عرصے بعد ماں اور بچے دونوں کے لیے ایک خطرناک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جہاں سرجری کے علاوہ کوئی اور دوسرا آپشن نہیں تھا۔
انڈیا میں اب تک ایسے حمل کے کتنے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں؟
ڈاکٹر مونیکا کے مطابق دنیا بھرانٹرا ہیپٹک پریگنینسی کے اوسط ایک فیصد کیسز رپورٹ ہوتے ہیںانٹرا ہیپٹک ایکٹوپک پریگنینسی کتنی غیر معمولی ہے؟ یہی سمجھنے کے لیے ہم نےپٹنہ کے ’اے آئی آئی ایم ایس‘ سے وابستہ ماہر زچہ و بچہ پروفیسر ڈاکٹر مونیکا آننت سے بات کی۔
پروفیسر مونیکا نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرا ہیپٹک پریگنینسی کے ایک فیصد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق 70 سے 80 لاکھ حمل میں سے کوئی ایک حمل ایسا ہوتا ہے جو میں انٹرا ہیپٹک یعنی جگر میں ٹھہر جائے۔
ڈاکٹر مونیکا نے بتایا کہ اس کیس سے قبل دنیا میں اسی نوعیت کے حمل کے 45 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں تین کیسز انڈیا سے سامنے آئے۔
انڈیا میں پہلا کیس سنہ 2012 میں دہلی کے لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج میں سامنے آیا تھا۔
سنہ 2023 میں پٹنہ کے ’اے آئی آئی ایم ایس‘ میں اس نوعیت کے حمل کا تیسرا کیس سامنے آیا جس کی نگرانی خود ڈاکٹر مونیکا آننت نے کی۔
انڈیا سے تیسرا کیس سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر مونیکا نے اسے امریکہ کے معروف تحقیقیاتی ڈیٹا بیس کے لیے دستاویز کیا۔
ڈاکٹر پارول داہیا اور ڈاکٹر کے کے گپتا کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے ان کیسز کو بھی دستاویز کر رہی ہے۔
جلد ہی اسے مکمل کر کے ایکطبی جریدے میں اشاعت کے لیے بھیج دیا جائے گا۔