کیا سمندر کی طاقت ور لہریں ہمارے گھروں میں بجلی فراہم کر سکتی ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے سمندروں میں طاقتور توانائی موجود ہے جو ممکنہ طور پر دنیا کے بجلی گھروں کو صاف ستھرے طریقے سے بجلی فراہم کر سکتی ہے، تو اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اور کیا لہر یں اب قسمت بدلنے لگی ہیں؟
Close up detail of powerful teal blue wave breaking in open ocean on a bright sunny afternoon
Eric Yang/Getty Images

اگر آپ کبھی سمندری موج سے ٹکرائے ہیں تو آپ یہ جانتے ہوں گے کہ ان لہروں میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔ سمندر کے شور میں ایک بڑی طاقت مخفی ہے جو ماحول دوست اور قابل تجدید توانائی سے ہمارے مسقبل کو بدل کر رکھ سکتی ہے۔

محققین کئی دہائیوں سے لہروں کی طاقت کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سمندر کے سخت حالات نے اسے استعمال میں لانے کے لیے انتہائی مشکل اور مہنگا بنا دیا ہے۔

متعدد ممالک قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی تلاش میں ہیں تاکہ فاسل فیول کے استعمال کو کم کیا جاسکے اور آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کیا جا سکے۔

یوکرین پر روسی حملے نے بھی ان ممالک کو توانائی کی فراہمی بڑھانے پر مجبور کیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کا کہنا ہے کہ سمندری لہروں سے حاصل ہونے والی توانائی کو استعمال کرنے سے نظریاتی طور پر ہر سال 30 ہزار ٹیرا واٹ آور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو اس وقت دنیا میں استعمال ہونے والی بجلی سے زیادہ ہے۔

امریکہ کی اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی میں توانائی کی لہروں کے ماہر ڈاکٹر بریونی ڈوپونٹ کا کہنا ہے کہ اس صلاحیت کے باوجود اب بھی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے دنیا کو ’بہت سے تکنیکی اور معاشی چیلنجز‘ درپیش ہیں۔

A woman stands on a rock and looks out at power lines over the ocean carrying electricity
Jong-Won Heo/Getty Images
سمندری لہروں سے عالمی ضرورت سے زیادہ توانائی پیدا کی جا سکتی ہے

کون فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

لہروں سے توانائی حاصل کرنے کے لیے یورپ کا مغربی ساحل، امریکہ کا بحر الکاہل کا ساحل اور برطانیہ کا شمال کی طرف کا پانی بڑا ذخیرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور چین بھی اس ٹیکنالوجی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ یورپی یونین نے سنہ 2030 تک لہروں سے ایک گیگاواٹ سمندری توانائی حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ یورپی یونین کے اندازے کے مطابق 2050 تک یورپی یونین اس سے 10 فیصد بجلی فراہم کرسکتا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ لہروں کی توانائی خاص طور پر ساحلی شہروں اور دور دراز جزیروں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے بہتر ہے جو بڑے پیمانے پر مہنگے اور آلودگی پھیلانے والے ڈیزل کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق سنہ 2021 میں کوپ 26 کانفرنس میں چھوٹے جزیرے کی ترقی پذیر ریاستوں (ایس آئی ڈی ایس) کے رہنماؤں نے سمندری توانائی کی ترقی کے مقصد سے ’گلوبل اوشن انرجی الائنس‘ (جی ایل او ای اے) تشکیل دیا۔

بارباڈوس، برمودا، مارٹنیک، گریناڈا اور ٹونگا نے آئرش کمپنی ’سی بیسڈ‘ کے ساتھ ’ویو پاور فارمز‘ تیار کرنے کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ہر منصوبے کا آغاز دو میگاواٹ کے پائلٹ سے ہوگا جو تقریباً 2800 گھروں کو بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوگا اور مقامی ضروریات کے مطابق 50 میگاواٹ تک بڑھے گا۔

ڈاکٹر بریونی ڈوپونٹ کا ماننا ہے کہ بہترین صورت حال میں، لہروں کی توانائی اگلے دس سالوں میں ہمارے گرڈ سٹیشنز میں بجلی کی مقدار کو نمایاں اضافہ کر سکتی ہے۔

لیکن ان کے پرجوش ہونے کے پیچھے یہ سب محرکات نہیں ہیں بلکہ ان کے مطابق لہروں سے حاصل ہونے والی توانائی ہی مستقبل ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ آفات سے نمٹنے جیسی چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں، جہاں ہم ایک ٹن ڈیزل جنریٹر بھی استعمال کر رہے ہیں، اگر ہم اس طرح کا آلہ پانی میں پھینک سکتے ہیں اور ان ساحلی آبادیوں کو بجلی دینا شروع کر سکتے ہیں جو طوفان یا سونامی سے متاثر ہوئے ہیں، تو یہ ایک ایسی چیز ہے جو زندگیوں کو انتہائی معنی خیز طریقے سے متاثر کر سکتی ہے۔‘

Blue floaters are attached to a jetty wall and are moved around by strong sea currents crashing against the wall
EcoWave Power

پیچیدہ معیشت

لہروں سے توانائی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن سے تعلق رکھنے والے پائیدار توانائی کے ماہر پروفیسر ابوبکر بہاج نے خبردار کیا ہے کہ ’غلط شروعات اور غیر مکمل اہداف‘ ہمارے سامنے ہیں۔ سکاٹش ویو انرجی پروجیکٹ ’پیلامس‘ کو سنہ 2004 میں برطانیہ کے گرڈ سے منسلک کیا گیا تھا لیکن 10 سال بعد کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔

کارنیگی کلین انرجی نے سنہ 2017 میں آسٹریلیا کا پہلا تجارتی پیمانے پر ویو انرجی فارم تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن مالی مسائل نے حکومت کو اس منصوبے کو منسوخ کر دیا۔

پروفیسر ابوبکر بہاج کا خیال ہے کہ اگرچہ لہروں کی توانائی کا بالآخر ایک خاص کردار ہو گا، لیکن ہوا اور شمسی توانائی سے مسابقت کی وجہ سے فنڈز حاصل کرنا ایک ’سخت جدوجہد‘ کے متقاضی ہوگا کیونکہ ہوا اور شمسی توانائی حاصل کرنے کے طریقے بہت سستے اور زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔

برطانیہ کی پلائی ماؤتھ یونیورسٹی میں اوشن انجینئرنگ کی پروفیسر ڈاکٹر ڈیبورا گریوز کہتی ہیں کہ لہروں کا ایک خاص فائدہ ہے۔ ’زیادہ تر وقت لہریں آتی ہیں۔ آپ صرف ہوا اور شمسی توانائی پر ہی بھروسہ نہیں کر سکتے بلکہ آپ کو سپلائی کے اور طریقوں پر بھی غور کرنا ہوگا۔‘

اگر آپ لہروں سے توانائی حاصل کرتے ہیں، جو کہ بہت مستقل توانائی کا ایک ذریعہ ہے، تو پھر یہ ایک متوازن نظام تشکیل پا سکتا ہے۔ ان کی رائے میں اس سے وہ لاگت کم ہو جاتی ہے جو بصورت دیگر آپ کو بجلی کے لیے سٹوریج فراہم کرنے میں ادا کرنا پڑے گی۔

A man stands at the hatch of a large yellow buoy which is out in the ocean
CorPower

سمندری توانائی کیسے کام کرتی ہے؟

لہریں بڑی حد تک سمندر کی سطح پر چلنے والی ہوا سے بنتی ہیں۔ ہوا جتنی مضبوط ہوتی ہے اور جتنی زیادہ سفر کرتی ہے، لہر اتنی ہی زیادہ حرکی توانائی لے جاتی ہے۔

اس توانائی کو ویو انرجی کنورٹرز (ڈبلیو ای سی) نامی مشینوں کے ذریعہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر بریونی ڈوپونٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 200 سے زائد مختلف ڈیزائنز پر ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’آپ کو ایک ایسا آلہ بنانا ہوگا جو انتہائی لچکدار ہو۔ یہ لہروں سے اس طرح ٹکرانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ آپ ان لہروں سے زیادہ سے زیادہ رفتار حاصل کر سکیں۔ آپ کا واسطہ کھارے پانی سے ہے، آپ سمندر میں ہیں اور یہ واقعی انتہائی مشکل انجینیئرنگ کا چیلنج ہے۔‘

پرتگال کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر طاقتور لہریں، لہروں کی توانائی کے لیے اسے ایک مثالی مقام بنا دیتی ہیں۔ سویڈن کی ایک کمپنی ’کور پاور اوشن‘ نے 2023 سے ایکواڈور کے ساحل پر اپنی ڈیوائس ’بوئے‘ کو تیرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی بجلی زیر آب کیبلز کے ذریعے پرتگال کے گرڈ میں بھیجی جاتی ہے۔

کور پاور کا دعویٰ ہے کہ بوئے نے دو اہم چیلنجز پر قابو پا لیا ہے: بڑے طوفانوں سے بچنا جبکہ زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرنا۔

کمپنی آئرلینڈ کے ساحل پر پانچ میگاواٹ ویو فارم تیار کر رہی ہے، جو گرڈ میں 14 بوئے پر مشتمل ہے۔ اس کا مقصد تقریباً 4200 گھروں کو بجلی فراہم کرنا اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ ٹیکنالوجی آئرلینڈ کو اپنے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اہداف تک پہنچنے میں کس طرح مدد کر سکتی ہے۔

Meanwhile Scottish company Mocean's device in the see. It's yellow and use big floating arms that flex with the waves and capture energy in the central hinge.
Colin Keldie

لہروں کی توانائی کو حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ موجودہ بندرگاہ یا جیٹی سے ٹربائن جیسے آلے کو منسلک کرنا ہے۔ شمالی سپین میں ایک منصوبہ 2011 سے اس طرح گھروں کی ایک چھوٹی تعداد کو بجلی فراہم کر رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لاگت آف شور ڈیوائسز کی تنصیب اور دیکھ بھال سے کہیں زیادہ سستی ہوسکتی ہے۔

ایک اسرائیلی کمپنی ایکو ویو پاور فلوٹرز کا استعمال کرتی ہے جو لہروں کے ساتھ اوپر اور نیچے چلتے ہیں۔ اس کے بعد یہ پسٹن منتقل کرتے ہیں جو ہائیڈرولک سیال کو کمپریسر میں دھکیلتے ہیں، جو پھر موٹر کو تبدیل کرتا ہے اور جنریٹر کو گھماتا ہے۔

کمپنی پرتگال میں پورٹو میں اپنا پہلے کمرشل پیمانے پر آلہ تعمیر کر رہی ہے، جو ایک میگاواٹ سے شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ 20 میگاواٹ تک اسے بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

یہ امریکہ میں لاس اینجلس کی بندرگاہ پر ایک ڈیوائس لانچ کرنے والی ہے اور اس نے تائیوان اور انڈیا میں لہر کی طاقت کو فروغ دینے کے معاہدوں کا اعلان کیا ہے۔

لہروں کی توانائی کے بارے میں ایک تشویش سمندری حیات پر کسی بھی ممکنہ نقصان کا ہے، لیکن ڈاکٹر ابوبکر بہاج کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی بھی اثر کم ہوگا۔ ’جب آپ ان آلات کو سمندر میں ڈالتے ہیں تو وہ ان کے ارد گرد موجود جانداروں کے بڑھنے کا گڑھ بن جاتے ہیں، اس لیے ان سے مخلوق کی نشوونما میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا ہے۔‘

سکاٹش کمپنی موسین ایک ڈیوائس استعمال کرتی ہے جسے ایٹینیوٹر کہا جاتا ہے۔ اس کے بڑے تیرتے ہوئے بازو لہروں کے ساتھ لچک دار ہوتے ہیں اور مرکزی ہنگ میں توانائی حاصل کرتے ہیں۔

اب تک اس نے سمندر کے اندر تیل اور گیس کی صنعت کے ذریعے استعمال ہونے والی خود کار گاڑیوں کو چلایا ہے، جو اس کے ماحولیاتی اثرات کو دیکھتے ہوئے مضحکہ خیز لگ سکتا ہے۔ لیکن پروفیسر ڈیبورا گریوز کا کہنا ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں کو ٹیکنالوجی پر اعتماد دینے اور اسے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔

اور اگر یہ حاصل کیا جا سکتا ہے تو ان کا ماننا ہے کہ لہروں کی ’مکمل طور پر وافر‘ توانائی کو بروئے کار لانے سے دنیا کو صاف بجلی کا ایک اور اہم ذریعہ مل سکتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US