اس حملے کے لگ بھگ ساڑھے تین ماہ بعد مظفر آباد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ایک ایسے ملزم کو گرفتار کیا ہے جس نے ’بلال مسجد کی جی پی ایس لوکیشن واٹس ایپ کے ذریعے انڈین خفیہ ایجنسی کو فراہم کی تھی۔‘
چھ مئی کی رات تھی جب انڈیا نے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقوں پر فضائی حملے کیے تھے۔ اور ایسے ہی ایک حملے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفرآباد میں واقع بلال مسجد کو شدید نقصان پہنچا تھا اور حکام کے مطابق اس واقعے میں تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کے لگ بھگ ساڑھے تین ماہ بعد مظفر آباد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ایک ایسے ملزم کو گرفتار کیا ہے جس نے ’بلال مسجد کی جی پی ایس لوکیشن واٹس ایپ کے ذریعے انڈین خفیہ ایجنسی کو فراہم کی تھی۔‘
گرفتار کیے گئے ملزم کا نام عبید بتایا گیا ہے جبکہ اُن کا تعلق راولاکوٹ سے ہے۔
کشمیر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایس ایس پی ریاض مغل نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم عبید کے خلاف 23 جولائی کو تھانہ صدر میں پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ ملزم کو گرفتاری کے بعد مقامی عدالت میں چالان پیش کیا گیا تھا اور اب انھیں جیل منتقل کیا جا چکا ہے۔
انڈین حملوں میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھےخیال رہے انڈیا نے رواں برس اپریل میں سیاحتی مقام پہگام میں ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ان افراد اور مقامات کو نشانہ بنایا ہے جو کہ اس حملے میں ملوث تھے۔ دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈین حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ملزم کون ہیں اور اُن کے خلاف الزامات کیا ہیں؟
راولاکوٹ کے رہائشی عبید جہانگیر کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ان کے خلاف تھانہ صدر میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم 'ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو کر انڈیا کی خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کا کام کر رہا تھا۔'
ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے ’اہم اور حساس تنصیبات و مقامات کی تصاویر دشمن ملک انڈیا کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کیں۔‘
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ عبید نے انڈیا کی جانب سے نشانہ بنائی جانے والی بلال مسجد کی ’جی پی ایس لوکیشن بذریعہ واٹس ایپ میسجز اور ماڈرن ڈیوائسز‘ انڈیا کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کیں اور اس کے عوض ’بھاری رقومات وصول کیں۔‘
ایس ایس پی ریاض مغل نے دعویٰ کیا کہ ’ملزم کے قبضے سے جرم میں ملوث ہونے کے شواہد مل چکے ہیں۔ انھوں نے انڈین حملے میں تباہ ہونے والی بلال مسجد کی جی پی ایس لوکیشن سمیت اہم حساس تنصیبات کی تصاویر، خفیہ ملکی راز اور اطلاعات دشمن ملک کی ایجنسی کو دیے ہیں۔‘
دوسری جانب کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ایک اور پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ ’عبید جہانگیر کا عسکری تنظیموں سے تعلق موجود ہے اور وہ پہلے بھی ایک کالعدم تنظیم کے رُکن تھے۔ اب وہ کسی امدادی تنظیم کے رُکن ہیں۔ ان کے موبائل سے انڈین خفیہ ایجنسی سے رابطے کے ثبوت ملے ہیں۔‘
دوسری جانب عبید کا خاندان ان کے کسی بھی عسکری تنظیم سے تعلق کی تردید کر رہا ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ہائیکورٹ کے وکیل عبدالصمد کا کہنا ہے کہ عبید کے خلاف جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ کسی ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے اور سرکاری معلومات حاصل کرنے سے متعلق ہیں۔ 'ایسی معلومات جو دشمن کے لیے فائدہ مند ہوں اور ملکی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہوں۔'
ان کا کہنا ہے کہ ان دفعات کے تحت کسی ملزم کو 14 برس سے لے عمر قید تک کی سزا سُنائی جا سکتی ہے۔
عبید کا خاندان کیا کہتا ہے؟
عبید کے ایکچچا نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کا بھتیجا ’منی ٹریپ (پیسوں کی لالچ) میں آ کر اس جھانسے میں آیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اداروں پر اعتماد ہے اور اگر کہیں کسی جگہ پر عبید اس معاملے میں ملوث ثابت ہو جاتا ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ہونی چاہیے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہےتاہم انھوں نے واضح کیا کہ ان کا بھتیجے کبھی باضابطہ طور پر کسی عسکری تنظیم کا رکن نہیں رہا بلکہ ایک امدادی تنظیم جموں کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ کا رُکن ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اُن کے آباؤ و اجداد انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے نقل مکانی کر کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر آئے تھے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس کے دوران ہی پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک پولیس کانسٹیبل کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کے خلاف مقدمہ بھی سرکاری مدعیت میں اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے درج کیا گیا تھا۔ ملزم پر الزام ہے کہ انھوں نے انڈیا کے ساتھ حساس معلومات شیئر کرنے کے عوض پیسے وصول کیے ہیں۔