روس اور چین ہائپرسونک میزائلوں کی عالمی دوڑ میں سبقت لیے ہوئے ہیں، تو ایسے میں ہمیں کس حد تک اس معاملے میں تشویش ہونی چاہیے کہ امریکہ اب بھی یہ سب حاصل کرنے کی کوشش میں ہے اور برطانیہ ابھی اس ٹیکنالوجی سے بہت دور ہے۔
بیجنگ کے ایک پریڈ گراؤنڈ میں موسم خزاں کی دھوپ میں دیوہیکل لاریوں پر لگے پیپلز لبریشن آرمی کے میزائل دھیرے دھیرے ہجوم سے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
11 میٹر لمبے اور 15 ٹن وزنی ہر ایک میزائل پر DF-17 کے الفاظ درج تھے۔
چین نے دنیا کے سامنے اپنے ’ڈونگ فینگ ہائپر سونک‘ میزائلوں کی نقاب کشائی کی تھی۔
یہ یکم اکتوبر 2019 میں چین کے نیشنل ڈے کے موقع پر ہونے والی پریڈ کا منظر تھا۔
امریکہ کو پہلے ہی اس بات کا علم تھا کہ یہ ہتھیار تیار ہو رہے ہیں لیکن تب سے چین ان کو اپ مزید گریڈ کرنے میں کامیاب ہو چکا گیا۔
آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز سفر کرنے والے یہ میزائل اتنے طاقتور ہتھیار ہیں کہ یہ جنگ کیسے لڑی جاتی ہے اسے مکمل طور پر بدل سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں درمیان ان ہتھیاروں کی تیاری کو لے کر مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
کاؤنسل آن جیو سٹریٹجی نامی تھنک ٹینک سے وابستہ ویلیئم فریر کہتے ہیں کہ ’یہ ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی مقابلے کی وسیع تصویر کا صرف ایک حصہ ہے، جسے سرد جنگ کے بعد سے ہم نے نہیں دیکھا۔‘
چین نے سنہ 2019 میں ہائپر سونک میزائلوں کی نقاب کشائی کیروس، چین اور امریکہ: ایک عالمی مقابلہ
بیجنگ کی تقریب نے ہائپرسونک ٹیکنالوجی میں چین کی پیشرفت سے ممکنہ طور پر بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں قیاس آرائیوں کر فروغ دیا۔ آج چین ہائپرسونک میزائلوں کے میدان میں سرفہرست ہے اور اس کے بعد روس ہے۔
امریکہ، چین اور روس سے آگے بڑھنے کی کوششوں میں ہے جبکہ برطانیہ کے پاس کچھ نہیں۔
ویلیئم فریر کے تھنک ٹینک کو اپنی فنڈنگ کا کچھ حصہ دفاعی صنعت کی کمپنیوں، وزارت دفاع اور دیگر سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ چین اور روس کے اس شعبے میں آگے ہونے کی وجہ سادہ ہے۔
’انھوں نے کافی برسوں پہلے ایسے منصوبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔‘
رواں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں بہت سی مغربی اقوام نے اپنے ملکوں کے اندر مذہبی شدت پسندی سے متاثر دہشتگردی اور بیرون ملک انسداد شورش کی جنگوں پر توجہ مرکوز کی۔
2020 میں برطانیہ کی خفیہ انٹیلیجنس سروس کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے سر ایلکس ینگر نے اعتراف کیا کہ ’اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم چین کے ایک فوجی طاقت کے طور پر عروج کو محسوس کرنے میں ناکام رہے۔‘
دوسرے ملک بھی آگے بڑھ رہے ہیں: اسرائیل کے پاس ایک ہائپرسونک میزائل ’ایرو 3‘ ہے۔
ایران بھی ہائپرسونک ہتھیار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایران کے مطابق اس نے جون میں اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران ایک ہائپر سونک میزائل داغا تھا۔
شمالی کوریا سنہ2021 سے ہائپر سونک میزائل کے اپنے ورژن پر کام کر رہا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ایک قابل عمل، کام کرنے والا ہائپر سونک ہتھیار موجود ہے۔
امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ فرانس اور جاپان بھی اب ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
ایران کے مطابق اس نے جون میں اسرائیل کے ساتھ12 روزہ جنگ کے دوران ایک ہائپر سونک میزائل داغا تھاایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے ’ڈارک ایگل‘ ہائپرسونک ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق ڈارک ایگل ’ہمارے ملک اور ہماری فوج کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ فوج اور نیوی کے ہائپرسونک ہتھیاروں کی کوششوں کے جذبے کی نمائندگی کرتا ہے۔‘
لیکن چین اور روس اس وقت بہت آگے ہیں اور کچھ ماہرین کے مطابق امریکہ کو اس پر تشویش ہے۔
’ہائپر فاسٹ‘
ہائپرسونک کا مطلب ہے کہ ایسی چیز جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیزی سے سفر کر سکتی ہو۔ یہی خصوصیت ہائپر سونک میزائلوں کو سپر سونک میزائلوں سے منفرد بناتی ہے۔
اور ان کی رفتار یہی رفتار ایک وجہ ہے کہ ہائپر سونک میزائلوں کو اتنا بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
اب تک سب سے زیادہ تیز رفتار ہائپرسونک ہتھیار روس کے پاس ہے: ’ایون گارڈ‘ میزائل کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ آواز کی رفتار سے 27 گنا زیادہ تیز ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ 20 ہزار 700 میل فی گھنٹے کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے۔ تاہم اس کے بارے میں زیادہ تر کہا جاتا ہے کہ یہ آواز کی رفتار سے 19 گنا زیادہ تیز سفر کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ فی سیکنڈ دو میل کا سفر کر سکتا ہے۔
ویلیئم فریر کے مطابق، تباہ کن طاقت کے لحاظ سے ہائپرسونک میزائل، سپرسونک یا سب سونک کروز میزائلوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دراصل ان کا پتہ لگانے، ٹریک کرنے اور روکنے میں پیش آنے والی دشواری ان کو منفرد بناتی ہے۔‘

بنیادی طور پر ہائپر سونک میزائل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بوسٹ گلائیڈ میزائل ایک راکٹ پر انحصار کرتے ہیں (جیسا کہ چین کے DF-17) جو انھیں زمین کے ماحول کے قریب یا اس سے اوپر تک لے جاتا ہے، جہاں سے یہ نہایت تیز رفتاری سے نیچے آتے ہیں۔
عام بیلسٹک میزائلوں کے برعکس، جنھیں فضا میں با آسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس سمت میں جا رہے ہیں، ہائپر سونک گلائیڈ میزائل غیر متوقع انداز میں حرکت کر سکتے ہیں یعنی وہ اپنی راستے کا تعیّن خود کرتے ہیں مگر وہ آخر میں اپنے اہداف کی جانب اپنی سمت کو درست کرتے ہوئے اُسے باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس کے بعد ہائپر سونک کروز میزائل ہیں، جو زمین کے قریب رہتے ہوئے پرواز کرتے ہیں تاکہ ریڈار سے بچ سکیں۔ یہ بھی راکٹ بوسٹر سے لانچ اور تیز کیے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی یہ ہائپرسونک رفتار حاصل کرتے ہیں یہ ایک سسٹم کو فعال کرتے ہیں جسے ’سکریم جیٹ انجن‘ کہا جاتا ہے جو پرواز کے دوران ہوا کو اندر کھینچ کر انھیں ہدف کی طرف انتہائی تیزی سے دھکیلتا ہے۔
یہ ’دوہری صلاحیت کے حامل ہتھیار‘ ہیں یعنی انھیں جوہری ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور عام روایتی دھماکہ خیز مواد کے ساتھ بھی۔ تاہم ان ہتھیاروں کی اصل طاقت صرف رفتار ہی نہیں ہے۔
کسی میزائل کو عسکری اصطلاح میں واقعی ’ہائپر سونک‘ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرواز کے دوران حرکت کرنے کے قابل ہو یعنی اپنے ہدف تک پہنچنے اور اُسے نشانہ بنانے سے قبل راستہ بدل سکتا ہو۔ دوسرے الفاظ میں جس فوج نے اسے اپنے دشمن کی جانب داغا ہے، وہ اچانک اور غیر متوقع انداز میں اس میزائل کا راستہ بدل سکتی ہو اس بات سے قطع نظر کہ وہ کتنی ہی تیز رفتاری سے اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہا ہو۔
اس ہائپر سونک میزائل کی یہی صلاحیت اسے انٹرسیپٹ کرنا یعنی روکنا انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔ زیادہ تر زمین پر لگے ریڈار ہائپر سونک میزائلوں کو اس وقت تک قابلِ بھروسہ طور پر نہیں پکڑ پاتے جب تک کہ یہ اپنے ہدف کے انتہائی قریب نہ پہنچ جائیں۔
پیٹریشیا بیزلچک جو واشنگٹن ڈی سی کے سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں میزائل ڈیفنس پروجیکٹ کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں (جسے امریکی حکومت اور دفاعی صنعت سمیت مختلف ذرائع سے فنڈنگ ملی ہے) کہتی ہیں کہ ’ریڈار ہورائزن یعنی اُس کے مدار سے نیچے پرواز کرنے کی وجہ سے یہ میزائل اپنا سفر شروع کرنے کے ابتدائی مرحلے میں ان جدید مشینوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یعنی ریڈار کو ان کے بارے میں پتا نہیں چلتا اور صرف اپنے ہدف کے انتہائی قریب پہنچ کر سینسرز پر ظاہر ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں روکنے کے مواقع بہت محدود یا اکثر نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس کا حل مغرب کے اُن خلائی مشنز کے پاس ہے کہ جو خلا سے اپنے جدید اور انتہائی طاقتور سینسرز کی مدد سے زمین پر موجود ریڈارز کی معاونت کریں اور ان پر قابو پانے میں معاونت فراہم کریں۔
ٹام شارپ جو رائل نیوی کے سابق کمانڈر اور اینٹی ایئر وارفیئر ماہر ہیں کہتے ہیں کہ 'ہائپر سونک ہتھیاروں نے جنگ کی نوعیت کو زیادہ نہیں بدلا بلکہ ان اوقات کو بدل دیا ہے جن میں آپ کارروائی کر سکتے ہیں۔'جنگی صورتِ حال میں اکثر جس مُلک کو نشانہ بنایا جا رہا ہوتا ہے اُن کے سامنے یہ خوفناک سوال بھی آتا ہے کہ کیا یہ حملہ جوہری ہے یا روایتی؟
ٹام شارپ جو رائل نیوی کے سابق کمانڈر اور اینٹی ایئر وارفیئر ماہر ہیں کہتے ہیں کہ ’ہائپر سونک ہتھیاروں نے جنگ کی نوعیت کو زیادہ نہیں بدلا بلکہ ان اوقات کو بدل دیا ہے جن میں آپ کارروائی کر سکتے ہیں۔‘
وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ’دشمن کو ٹریک کرنے، اس پر فائر کرنے، اور پھر میزائل کو آخری مرحلے پر ایک متحرک ہدف (جو جہازوں کا سب سے بڑا فائدہ ہے) کی طرف موڑنے کی صلاحیت پہلے کے میزائلوں چاہے وہ بیلسٹک ہوں، سپر سونک یا سب سونک سے مختلف نہیں ہے۔‘
’اسی طرح کسی بھی دفاعی طاقت کے لیے اپنی جانب بڑھتے ہائپر سونک میزائل کو ٹریک کرنے اور یا تو اس کو جام کرنے یا تباہ کرنے کی ضرورت اب بھی پہلے جیسی ہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب وقت بہت کم ملتا ہے (یعنی ہائپر سونک میزائل کو تباہ کرنے یا جام کرنے کے لیے وقت بہت کم ہوگیا ہے)۔‘
واشنگٹن میں اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے تشویش کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی اس سال فروری میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ خبردار کرتی ہے ’امریکی دفاعی حکام نے کہا ہے کہ زمینی اور موجودہ خلائی بنیادوں پر بنائے گئے سینسرز ہائپر سونک ہتھیاروں کا پتہ لگانے اور ٹریک کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔‘
تاہم کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ ہائپر سونک ہتھیاروں کے گرد جتنا شور مچایا جا رہا ہے، اس میں مبالغہ بھی شامل ہے۔
کیا واقعی اس شور شرابے میں مبالغہ آرائی شامل ہے؟
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (RUSI) کے دفاعی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سدھارتھ کوشل ان ماہرین میں شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ ہتھیار لازمی طور پر ’گیم چینجر‘ یعنی جنگی حالات کو تبدیل کر دینے والے ضرور ہیں مگر اتنے نہیں کہ جتنا شور مچایا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ’ان کی رفتار اور حرکت کرنے کی صلاحیت انھیں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں ایک خاص مقام تو ضرور دیتی ہے اور یہ زیرِ زمین اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بھی کارآمد ہیں، جنھیں پہلے زیادہ تر روایتی ہتھیاروں سے تباہ کرنا مشکل تھا۔‘
مگر شارپ یہ دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ آواز کی رفتار سے پانچ گنا یا اس سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتے ہیں پھر بھی ان کے خلاف دفاعی اقدامات موجود ہیں اور ان میں سے کچھ ان کے خلاف خاصے ’موثر‘ بھی ہیں۔
روس سے متعلق احتیاط
ویلیئم فریر کہتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ روس اور چین ان ہتھیاروں کی تیاری میں سبقت حاصل کر چکے ہیں۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ چینی ہائپر سونک پروگرام متاثر کن بھی ہیں اور تشویشناک بھی۔‘
لیکن وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جہاں تک روسیوں کی بات ہے ہمیں شاید ان کے دعوؤں کے بارے میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔‘
نومبر سنہ 2024 میں روس نے یوکرین کے شہر دنیپرو کے ایک صنعتی مقام کو عملی ٹیسٹنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس پر ایک تجرباتی درمیانی فاصلے کا بیلسٹک میزائل داغا۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ میزائل ہائپر سونک رفتار یعنی میک 11 (تقریباً 8,439 میل فی گھنٹہ) سے چلا۔ اس میزائل کو ’اوری شنِک‘ کا نام دیا گیا، جو روسی زبان میں ’ہیزل ٹری‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار میک 10 کی رفتار سے چلایا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق اس کا وارہیڈ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے آخری مراحل میں دانستہ طور پر کئی غیر فعال پراجیکٹائلز میں ٹوٹ کر بکھر گیا، جنھیں الگ الگ اہداف پر نشانہ بنانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا یہ طریقہِ کار سرد جنگ کے زمانے سے رائج ہے۔
ایک شخص جس نے اس کے گرنے کی آواز سنی، نے مجھے بتایا کہ آواز خاصی بلند نہیں تھی لیکن کئی مرتبہ ٹکراؤ ہوا چھ وارہیڈ الگ الگ اہداف پر گرے مگر چونکہ وہ غیر فعال تھے اس لیے نقصان روس کی جانب سے یوکرین کے شہروں پر رات کی بمباری کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ نہیں تھا۔
یورپ کے لیے نیٹو ممالک کو لاحق پوشیدہ خطرہ بنیادی طور پر روس کے میزائلوں سے ہیں، جن میں سے کچھ کیلینین گراد کے علاقے میں بالٹک ساحل پر تعینات ہیں۔ اگر پوتن کیئو پر ایک 'اوری شنِک' کے ذریعے ایک بڑے حملے کا حکم دیں تو کیا ہوگا؟
روسی صدر نے دعویٰ کیا کہ یہ ہتھیار بڑے پیمانے پر پیداوار کے مرحلے سے گُزر رہے ہیں اور ان کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ اہداف کو ’راکھ میں بدل‘ سکتے ہیں۔
چین کے پاس دنیا کا سب سے طاقتور ہائپرسونک ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔مغرب کے لیے تشویش کا باعث روس کا نہایت تیز رفتار اور انتہائی تیزی سے راستہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھنے والا 'ایوان گارڈ' ہے۔ سنہ 2018 میں اس کی نقاب کشائی کی تقریب میں پانچ دیگر نام نہاد ’سپر ویپنز‘ کے ساتھ پوتن نے اعلان کیا تھا کہ یہ ہتھیار ناقابلِ تسخیر ہے۔‘
ڈاکٹر سدھارتھ کوشل کے مطابق اس کا بنیادی کردار دراصل ’امریکی میزائل دفاعی نظام کو شکست دینا‘ ہو سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’روس کے ریاستی اسلحے کے پروگرام بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایوان گارڈ جیسے نظام کی پیداوار کی صلاحیت محدود ہے۔‘
دوسری جانب، جیسے جیسے مغربی بحرالکاہل میں امریکہ اور چین کے درمیان سٹریٹجک برتری کی جنگ میں تیزی آرہی ہے چین کے بیلسٹک میزائلوں کے پھیلاؤ سے امریکی بحری موجودگی کو جنوبی بحیرۂ چین اور اس سے آگے شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
چین کے پاس دنیا کا سب سے طاقتور ہائپرسونک ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔ سنہ 2024 کے آخر میں چین نے اپنا جدید ترین ہائپرسونک 'جی ڈی ایف 600' پیش کیا۔ جو 1200 کلوگرام پے لوڈ کے ساتھ یہ بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے والے سب میونشنز (متعدد دھماکہ خیز مواد)لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور میک 7 (تقریباً 5,370 میل فی گھنٹہ) کی رفتار تک پہنچ سکتا ہے۔
برطانیہ کی اس دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل جوہری طاقت رکھنے والے اراکین میں سے برطانیہ اس دوڑ میں کافی پیچھے ہے۔ لیکن بالآخر اب یہ کوشش کر رہا ہے کہ کم از کم اس دوڑ میں شامل تو ہو سکے۔
اپریل میں وزارتِ دفاع اور ڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیبارٹری نے اعلان کیا کہ برطانوی سائنسدانوں نے ایک بڑے ٹیسٹنگ پروگرام کی کامیاب تکمیل کے بعد 'ایک سنگِ میل' طے کیا ہے۔
برطانیہ کا یہ پروپلشن ٹیسٹ برطانوی حکومت، صنعت اور امریکی حکومت کے درمیان سہ فریقی تعاون کا نتیجہ تھا۔ چھ ہفتوں کے عرصے میں ناسا لینگلے ریسرچ سینٹر (ورجینیا، امریکہ) میں کل 233 ’سکسیسفل سٹیٹک ٹیسٹ رنز‘ مکمل کیے گئے۔
برطانیہ کے وزیرِ دفاع جان ہیلی نے اسے ’ایک سنگِ میل‘ قرار دیا۔ تاہم اس ہتھیار کے تیار ہونے میں ابھی کئی سال لگیں گے۔
فریئر کے مطابق مغرب کو ہائپرسونک میزائل بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مضبوط دفاع تیار کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔فریئر کے مطابق، مغرب کو ہائپرسونک میزائل بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف مضبوط دفاع تیار کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں 'جب بات ایسی جنگ کی ہو کے جس میں بس میزائل ہی استعمال ہو رہے ہوں تو اس کے ہر ایک پہلو کو مدِ نظر رکھنا جانا ضروری ہوتا ہے۔ آپ کو ایک طرف نقصان کو محدود کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور ساتھ ہی دشمن کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھنی چاہیے۔
اگر آپ کے پاس یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ آپ کسی حد تک اپنا دفاع بھی کر سکیں اور ساتھ ہی جوابی وار بھی کر سکیں تو پھر مخالف جنگ کی جانب بڑھنے سے پہلے متعدد بار سوچتا ہے کہ ایسا کرنا فائدہ مند رہے گا کہ نقصاندہ ایسا کرنے سے تنازعے کے امکانات کہیں کم ہو جاتے ہیں۔'