14 دسمبر 1929 کو امریکی اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک ایسی خبر شائع کی جو صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں دور ہنگری میں حیرت کا باعث بن رہی تھی۔
ابتدائی طور پر 20 خواتین کے خلاف اپنے شوہروں کو زہر دینے کا مقدمہ چلایا گیا تھا14 دسمبر 1929 کو امریکی اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ نے ایک ایسی خبر شائع کی جو صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں دور ہنگری میں حیرت کا باعث بن رہی تھی۔
تقریباً 50 خواتین کے خلاف ایک مقدمہ شروع ہوا جن پر الزام تھا کہ انھوں نے یورپی ملک کے ایک دوردراز گاؤں میں رہنے والے زیادہ تر مردوں کو زہر دے کر قتل کیا ہے۔
اگرچہ یہ رپورٹ مختصر تھی لیکن اس میں بہت سی تفصیلات تھیں: 1911 سے 1929 کے درمیان بوڈاپیسٹ سے تقریباً 130 کلومیٹر جنوب میں واقع ناگرویو نامی علاقے کی کئی خواتین نے 50 سے زائد مردوں کو زہر دیا۔
ان خواتین کو ’فرشتہ بنانے والی‘ کہا جاتا تھا اور انھوں نے مردوں کو زہر آلودہ آرسینک کے محلول سے قتل کیا تھا۔
کچھ لوگوں نے اسے جدید تاریخ میں خواتین کی طرف سے مردوں کے سب سے بڑے اجتماعی قتل کے طور پر بیان کیا ہے۔
خواتین کو ایک عوامی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا جس میں ایک نام بار بار سامنے آیا: ژوزسانا فازکاس۔ وہ اس گاؤں کی دائی تھیں۔
اس وقت جب گاؤں ابھی آسٹرو-ہنگری سلطنت کے زیرِ اثر تھا اور وہاں کوئی مقامی ڈاکٹر نہیں تھا، دائی کو گاؤں کے طبی معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل تھا۔
خواتین گاؤں کی دائیوں سے مشورے لیتی تھیں2004 میں بی بی سی کے ایک ریڈیو دستاویزی پروگرام میں گاؤں میں رہنے والی ماریہ گونیا نے بتایا کہ فازکاس کو اس لیے زہر دینے والی مرکزی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا کیونکہ گاؤں کی خواتین اپنے ذاتی مسائل کے بارے میں ان سے کھل کر بات کرتی تھیں۔
گونیا نے وضاحت کی ’فازکاس نے خواتین کو بتایا کہ اگر ان کو شوہروں یا مردوں کے ساتھ کوئی پریشانی ہے تو وہ اس کا ایک سادہ حل فراہم کر سکتی ہیں۔‘
اگرچہ فازکاس کو اجتماعی قتل کی مرکزی ملزم ٹھہرایا گیا لیکن مقدمے کے دستاویزات میں گاؤں کی خواتین کے بیانات سے مردوں کی طرف سے بدسلوکی، ریپ اور تشدد کی تکلیف دہ کہانیاں سامنے آتی ہیں۔
لیکن یہ کہانی کئی سالوں تک چھپی رہی۔ پولیس رپورٹس کے مطابق ابتدائی قتل 1911 میں ہوئے لیکن 1929 تک اس کی تحقیقات شروع نہیں ہوئیں۔
مقامی قبرستان اچانک بھرنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر وہ سراغ کیا تھا جس نے مجرموں تک پہنچنے میں مدد کی؟
ابتدائی واقعات
فازکاس سنہ 2011 میں ناگریو گاؤں میں آئیں۔
گونیا اور مقدمے کی شہادتوں کے مطابق وہ دو وجوہات کی بنا پر سب کی توجہ کا مرکز بنیں۔ پہلی یہ کہ دائی ہونے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انھیں دواؤں اور علاج کے نسخوں کا بھی علم تھا۔ ان کے بعض نسخوں میں کیمیائی اجزا بھی شامل ہوتے تھے جو اس علاقے میں عام بات نہیں تھی۔
دوسری بات یہ تھی کہ ان کے شوہر کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
گونیا کے بقول: ’ناگریو میں نہ کوئی پادری تھا اور نہ ہی ڈاکٹر۔ اس لیے ان کے علم نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور لوگ ان پر بھروسہ کرنے لگے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’وہ خواتین کے گھروں میں کئی باتوں کی گواہ بنیں جیسے مردوں کا اپنی بیویوں کو مارنا، ان کا ریپ کرنا اور یا بے وفائی۔‘
چنانچہ فازکاس نے ایک ایسا کام شروع کیا جو اُس زمانے میں ممنوع تھا، یعنی انھوں نے ابارشن یعنی اسقاط حمل شروع کر دیا۔ اس کی وجہ سے انھیں عدالت میں بھی پیش کیا گیا لیکن کبھی سزا نہیں ہوئی۔
گونیا کے مطابق اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت شادیاں زیادہ تر خاندانوں کی مرضی سے طے ہوتی تھیں اور بہت سی کم عمر لڑکیوں کی شادیاں ان سے کہیں بڑے مردوں سے کر دی جاتی تھیں۔
گونیا نے کہا: ’اس وقت طلاق ناممکن تھی۔ آپ علیحدہ نہیں ہو سکتے تھے، چاہے آپ پر کتنا ہی ظلم و ستم کیوں نہ ہو یا آپ کا استحصال ہی کیوں نہ کیا جائے۔‘
لیکن اُس زمانے کی رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ طے شدہ شادیوں کے ساتھ ایک طرح کے معاہدے بھی ہوتے تھے، جن میں زمینیں، وراثت اور قانونی ذمہ داریاں شامل ہوتی تھیں۔
گونیا نے بی بی سی کو بتایا: ’فازکاس نے عورتوں کو یقین دلانا شروع کیا کہ وہ ان کے مسائل حل کر سکتی ہیں۔‘
زہر دینے کا پہلا واقعہ ان کی آمد کے ساتھ ہی سنہ 1911 میں پیش آیا۔ اگلے برسوں میں پہلی عالمی جنگ کے دوران اور آسٹریا-ہنگری کی سلطنت ٹوٹنے کے ساتھ ان میں مزید اضافہ ہوتا گيا اور مزید مرد قتل ہونے لگے۔
یہ واقعات آسٹرو ہنگری سلطنت کے زوال کے دوران پیش آئےاور اس طرح 18 برسوں میں 45 سے 50 اموات ہوئیں۔ یہ مرنے والے کسی کے شوہر تھے تو کسی کے باپ۔ ان سب کو گاؤں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گيا۔
بہت سے لوگوں نے ناگریو کو ’قاتلوں کا شہر‘ کہنا شروع کر دیا۔
یہ تفصیلات پولیس کی توجہ کا باعث بنیں۔ 1929 کے آغاز میں لاشیں قبروں سے نکالی گئیں تاکہ ان کا معائنہ کیا جا سکے اور ان لاشوں میں ایک ہی ثبوت ملا: آرسینک۔
عورتوں پر مقدمہ
گاؤں میں فازکاس عام سی ایک منزلہ عمارت میں رہتی تھیں جس کا دروازہ سڑک پر کھلتا تھا۔ اسی گھر میں انھوں نے کئی زہریلے مرکبات تیار کیے جو ان افراد کے قتل میں استعمال ہوئے۔
19 جولائی سنہ 1929 کو بالآخر انھوں نے دیکھا کہ پولیس والے انھیں پکڑنے آ رہے ہیں۔ ’جب انھوں نے سپاہیوں کو قریب آتے دیکھا تو وہ سمجھ گئیں کہ ان کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ جب تک وہ ان کے گھر پہنچتے، وہ خود مر چکی تھی۔ انھوں نے اپنا ہی بنایا گیا زہر خود پی لیا تھا۔‘
لیکن یہ دائی واحد مجرم نہیں تھی۔
اور پھر 1929 میں ہی قریبی ضلع کے دارالحکومت سوزنوک میں 26 خواتین کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
ان میں سے آٹھ کو سزائے موت دی گئی اور باقی کو قید کی سزا سنائی گئی۔ ان میں سے سات کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
بہت کم عورتوں نے اپنا جرم تسلیم کیا اور اس لیے ان کے مقاصد کبھی پوری طرح واضح نہ ہو سکے۔
عدالتی ریکارڈ کی بنیاد پر ڈاکٹر اور مورخ گیزا چیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ آج بھی بہت سے سوالات حل طلب ہیں۔
گيزا چیخ نے کہا کہ ’ان کے محرکات کے بارے میں کئی نظریات ہیں، جیسے غربت، لالچ اور اُکتاہٹ۔‘
مورخ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’کچھ رپورٹس میں یہ بھی آیا ہے کہ کئی عورتوں کے روسی جنگی قیدیوں سے تعلقات بن گئے تھے جنھیں مردوں کے محاذ پر ہونے کی وجہ سے کھیتوں میں مزدوری کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔‘
اور جب ان کے شوہر واپس آئے تو ان عورتوں کو اچانک اپنی آزادی کھو جانے کا احساس ہوا اور اسی لیے انھوں نے ایسا کیا۔
کچھ اندازوں کے مطابق آرسینک سے مرنے والوں کی کل تعداد 300 تک پہنچ چکی تھیسنہ 1950 کی دہائی میں مورخ فرینک گیورگیو نے کمیونسٹ حکومت کے تحت اپنی قید کے دوران گاؤں کے ایک بزرگ شخص سے ملاقات کی۔
اس بزرگ کسان نے دعویٰ کیا کہ ناگریو کی عورتیں ’زمانہ قدیم سے ہی اپنے مردوں کو قتل کرتی آ رہی تھیں۔‘
قریبی شہر تیساکورت میں بھی کچھ لاشیں قبروں سے نکالی گئیں جن میں آرسینک پایا گیا۔ لیکن ان اموات پر کسی کو سزا نہیں دی گئی۔
کچھ اندازوں کے مطابق اس علاقے میں آرسینک سے مرنے والوں کی کل تعداد 300 تک پہنچ چکی تھی۔
گونیا کے بقول ان زہریلی وارداتوں کے بعد مردوں کا اپنی بیویوں کے ساتھ رویہ ’نمایاں طور پر بہتر نظر آیا۔‘