پنجاب میں سیلابی صورت حال: کون سے علاقے زیادہ متاثر، اونچے یا درمیانے درجے کا سیلاب کیا ہوتا ہے؟

پاکستان میں کون کون سے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں؟ اس رپورٹ میں بی بی سی نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ اونچے، درمیانے درجے کا سیلاب کیا ہوتا ہے اور سیلاب سے متعلق مختلف اصلاحات کا کیا مطلب ہوتا ہے
پاکستان
BBC
پنجاب حکومت نے آٹھ اضلاع میں فوج کو مدد کے لیے بُلا لیا ہے

غیر معمولی بارشوں کے بعد پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بدھ کے دن سیلابی صورت حال دیکھی گئی جس کے بعد حکومت نے آٹھ اضلاعسیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، سرگودھا، لاہور، قصور، اوکاڑہ اور فیصل آباد میں فوج کو مدد کے لیے بُلا لیا ہے۔

اس غیر معمولی صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انڈیا کی جانب سے، پاکستان کو اطلاع دیے جانے کے بعد، راوی، چناب اور ستلج دریاؤں میں پانی چھوڑا گیا تھا۔

ایسے میں مختلف شہروں سے سوشل میڈیا پر ایسے مناظر سامنے آئے جن میں وہی دریا جن میں عام دنوں میں پانی کی کمی کی شکایت رہتی ہے، سیلابی کیفیت میں دکھائی دیے اور ان کے قرب و جوار کے علاقوں سے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق اب تک دو لاکھ سے زیادہ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں اور سیالکوٹ، وزیر آباد، نارووال سمیت متعدد مقامات پر آبادی متاثر ہوئی ہے۔ این ڈی ایم اے کے مطابق اس کی ایک وجہ معمول سے زیادہ ہونے والی بارشیں بھی ہیں۔

سیلاب سے پاکستان میں کون، کون سے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں؟ اس رپورٹ میں بی بی سی نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ اونچے یا درمیانے درجے کا سیلاب کیا ہوتا ہے اور سیلاب سے متعلق مختلف اصلاحات کا کیا مطلب ہوتا ہے۔

متاثرہ علاقوں کی صورت حال

پاکستان
BBC

پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں غیر معمولی بارش کے بعد کئی علاقے زیر آب آ گئے تھے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق 133 دیہات بھی متاثر ہوئے ہیں۔

دریائے راوی میں جموں و کشمیر سے آنے والے چند نالوں کے پانی سے پاکستان کے ضلع نارووال کے درجنوں دیہات بھی زیرِ آب آ گئے ہیں۔

دریائے راوی نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں کوٹ نیناں کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ دوسری طرف انڈیا سے ایک نالہ 'اوج' بھی آتا ہے جو اسی مقام پر دریائےِ راوی میں شامل ہوتا ہے۔

مقامی افراد اور ریسکیو اہلکاروں کے مطابق دریائے راوی میں سیلابی صورتحال کے باعث نارووال کے لگ بھگ 35 سے 40 چھوٹے بڑے گاؤں زیرِ آب ہیں۔

ضلع نارووال دو طرح سے سیلابی پانی سے متاثر ہو رہا ہے، ایک جانب تو دریائے راوی کے پانی سے اور دوسری جانب ان نالوں سے جو جموں و کشمیر سے آتے ہیں اور راوی میں ملتے ہیں۔

نارووال سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی راحیل نے بتایا کہ راوی میں آنے والے سیلابی ریلے ہی کے باعث گرودوارہ کرتارپور صاحب کی عمارت کئی فٹ پانی میں ڈوب چکی ہے۔ جبکہ نارووال سے شکر گڑھ جانے والی سڑک کا بھی تین سے چار کلومیٹر تک کا حصہ سیلابی پانی میں ڈوب چکا ہے۔ جبکہ اس کے آس پاس کے دیہات مکمل زیرِ آب ہیں۔

جموں و کشمیر سے آنے والے نالوں کی وجہ سے نارووال کی تحصیل ظفر وال میں درجنوں دیہات زیرِ آب ہیں۔ یہاں موجود ایک بڑا قصبہ 'کنجروڑ' جس کی آبادی بیس ہزار کے لگ بھگ ہے، کو اس وقت شدید سیلاب کا خطرہ ہے۔

دوسری جانب نالہ ڈیک میں طغیانی کے باعث بھی ظفروال کی صورتحال مخدوش بن رہی ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق نالہ ڈیک پر حفاظتی بند متعدد مقامات سے ٹوٹ چکے ہیں جبکہ ہنجلی کے مقام پر موجود پُل بھی مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے۔

نالہ ڈیک اس وقت سیالکوٹ کے بعض دیہی علاقوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ چونڈہ سے ظفر وال جانے والی سڑک بھی اسی نالے میں سیلابی صورتحال کے باعث بڑی حد تک متاثر ہوئی ہے۔

دریائےِ راوی میں سیلابی صورتحال شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور اوکاڑہ کو بھی متاثر کر رہی ہے، جبکہ اسی دریا نے فیصل آباد کے علاقے تاندلیاوالہ اور ضلع ساہیوال کو بھی متاثر کیا ہے۔

ننکانہ صاحب کے مقامی صحافی جاوید احمد کے مطابق روای کے سیلابی پانی سے ہیڑے، جٹاں داواڑہ، نواں کوٹ، خزرہ آباد اور لالو آنہ کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح شیخ داٹول، گجراں دا ٹھٹہ، کھوہ صادق، ڈیرہ حاکم، ڈیری مہر اشرف کی آبادیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

اوکاڑہ کا موضع جندراکہ، جس کی آبادی 30 ہزار سے زائد ہے، جہیڈو اور جھنڈومنج میں بھی دریائے روای سے آنے والا سیلابی پانی داخل ہو چکا ہے۔

فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ کا بھی دریائے راوی کی طغیانی سے متاثر ہونے کا امکان ہے اور مقامی حکام کے مطابق اس کے متعدد دیہات زیر آب آ سکتے ہیں۔

مقامی صحافی محمد احسان کے مطابق مقامی حکام بتا رہے ہیں کہ راوی کے کنارے پر آباد سو سے زائد چھوٹی بڑی آبادیوں بشمول بستی جموں ڈولوں، جلی تریانہ، جلی فتیانہ، ماڑی پتن، شیرازہ، ٹھٹھہ ڈوکاں وغیرہ کے سیلاب سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

نارووال
BBC
دریائے راوی نارووال کی تحصیل شکرگڑھ کے گاؤں کوٹ نیناں کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے

دریائے چناب سے متاثر ہونے والے اضلاع میں سیالکوٹ، منڈی بہاوالدین، سرگودھا، گجرات، وزیر آباد، حافظ آباد، چنیوٹ اور جھنگ شامل ہیں۔ ان اضلاع کی حد تک چناب کے پانی کی شدت تھوڑی زیادہ رہتی ہے۔

وزیر آباد کے مقامی صحافی عقیل لودھی کے مطابق چناب کا پانی فی الوقت وزیر آباد شہر کو متاثر کر رہا ہے، اس کے علاقہ سوہدرہ کا علاقہ بھی شدید متاثر ہے۔

ڈسٹرکٹ سیالکوٹ کے انتہائی شمال میں واقع علاقہ بجوات جو دریائے چناب اور دریائے توی کے وسط میں واقع ہے، سیلاب سے شدید متاثر ہے۔ اس میں لگ بھگ ستر کے قریب دیہات آتے ہیں۔ ریسکیو حکام کے مطابق سیالکوٹ شہر کو ان دیہاتوں سے ملانے والا راستہ مکمل طور پر زیر آب ہے۔

منڈی بہاؤ الدین سے تعلق رکھنے والے مقامی زمیندار و کاروباری شخصیت فرحان وڑائچ کے مطابق منڈی بہاؤ الدین کے علاقے قادر آباد، فرخ پور بھٹیاں، کالاشادیاں، باری، رنڈیالی، ملہیاں، جوکالیاں، کھسرلونگ، سعداللہ پور، کامونکی، چاڑکی، بھابڑا، لاکھا کدھر متاثرہو رہے ہیں۔

اونچے اور درمیانے درجے کا سیلاب کیا ہوتا ہے؟

پنجاب کے مختلف دریاؤں میں سیلابی صورت حال کے دوران اونچے اور درمیانے درجے کے سیلاب سمیت کئی ایسی اصطلاحات کا استعمال ہوا جو عام فہم نہیں۔ تو یہ اونچے اور درمیانے درجے کے سیلاب کا تعین کیسے کیا جاتا ہے اور کیوسک سے کیا مراد ہے؟

یہی جاننے کے لیے بی بی سی نے ماہرین سے بات چیت کی ہے۔

کیوسک کیا ہوتا ہے؟

کیوسک پانی کےبہاؤ کی مقدار ناپنے کا پیمانہ ہے۔ یعنیاگر کسی جگہ سے ایک سیکنڈ میں ایک کیوبک فٹ یا 28 لیٹر پانی گزرے تو پانی کی وہ مقدار ایک کیوسک ہو گی۔

سیلاب کی صورتحال میں دریاؤں سے ہزاروں کیوسک پانی گزرتا ہے۔ دریائے راوی بدھ کے دن جب جسر کے مقام پر پاکستان کے صوبہ پنجاب میں داخل ہوا تو اس وقت اس میں پانی کا بہاؤ دو لاکھ 29 ہزار کیوسک بتایا گیا تھا۔

فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن پنجاب کے ایک سینئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک لاکھ کیوسک ریلے کا مطلب یہ ہے کہ دریا کے اُس مخصوص مقام سے ایک سکینڈ میں 283170 لیٹر پانی گزر رہا تھا۔

درمیانے اور اونچے درجے کا سیلاب کیا ہوتا ہے؟

صوبہ پنجاب کے تین دریاؤں میں اس وقت سیلابی صورتحال ہے لیکن اس بات کا تعین کیسے ہوتا ہے کہ کسی دریا میں اس وقت درمیانے، اونچے یا انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے؟

اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر دریا میں سیلاب کا تعین دریا کی گنجائش، اس کی چوڑائی کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔

پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے سابق چیف انجینیئر ملک شبیر احمد نے بتایا کہ دریائے راوی اور ستلج چھوٹے دریا ہیں اور عمومًا ان میں پانی کم ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بدھ کے دن ان دریاؤں سے دو سے ڈھائی لاکھ کیوسک پانی کا ریلہ گزر رہا تھا جو ان دریاؤں کی گنجائش سے بہت زیادہ تھا اور اسی لیے راوی اور ستلج میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب تھا۔

ماہر آپباشی کے مطابق دریائے چناب میں راوی کے مقابلے میں بہت زیادہ پانی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد ساڑھے سات لاکھ کیوسک سے بھی زیادہ تھی اور وہاں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب بتایا گیا تھا۔

دوسری جانب دریائے سندھ میں چشمہ کے ہیڈ ورکس پر اسی وقت دو لاکھ 84 ہزار کیوسک پانی گزر رہا تھا لیکن دریائے سندھ میں اتنے پانی کے باوجود بھی دریا معمول سے بھی کم سطح پر تھا اور وہاں سیلابی صورتحال نہیں بتائی گئی۔

ہیڈورکس یا بیراج کیا ہوتے ہیں؟

کسی بھی دریا پر پانی کی نگرانی کرنے کے لیے ہیڈ ورکس یا بیراج بنائے جاتے ہیں جن کا مقصد دریا میں پانی کے بہاؤ کو ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ دریا میں پانی کی سطح اس حد تک رہے کہ پانی نہروں میں جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف دریاؤں پر بنائے گئے بیراج پانی کے بہاؤ کے مطابق ڈیزائن کیے جاتے ہیں اور ہر بیراج سے پانی گزرنے کی ایک مخصوص حد ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر دریا میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہو اور بیراج کے تمام دروازے کھولنے کے باوجود بھی پانی کا بہاؤ کم نہ ہو رہا ہو تو بیراج کو محفوظ بنانے کے لیے دریا یا اُن سے نکلنے والی نہروں کی پشتوں پر شگاف ڈالا جاتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US