ڈاکٹروں کو طویل عرصے سے شبہ ہے کہ گرمی کی لہروں کا بار بار سامنا کرنا جسم کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت میں مسلسل رہنے کے اثرات اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے کہ تماکو نوشی یا شراب نوشی کے اثرات۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ زیادہ گرمی کے ماحول میں رہتے ہیں ان میں بڑھاپا جلدی آتا ہےسلیمان حمدان تپتے ہوئے گرم شہر میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
وہ دبئی، متحدہ عرب امارات میں آئی ٹی سیلز کے شعبے میں کام کرتے ہیں، جہاں جون سے ستمبر تک درجہ حرارت باقاعدگی کے ساتھ 45 ڈگری سینٹی گریڈ (113 فارن ہائیٹ) سے اوپر رہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’اگر آپ دن کے وقت باہر نکلیں تو بالکل ایسے لگتا ہے جیسے آپ صحرا میں ہوں۔ گرمی اور حبس جیسے انسان کو دبوچ لیتی ہے۔‘
’میں زیادہ تر گھر سے ہی کام کرتا ہوں۔ اگر باہر جانا ہو تو شام سات بجے کے قریب نکلتا ہوں جب سورج غروب ہو رہا ہوتا ہے، تاہم اس وقت بھی بہت گرمی ہوتی ہے مگر اتنی ناقابلِ برداشت نہیں لگتی۔‘
گرمیوں کے دنوں میں بہت کم لوگ سڑکوں پر چلتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’کام پر جانے کے لحاظ سے تو بس گھر سے گاڑی اور گاڑی سے دفتر تک کا سفر ہی ہوتا ہے۔‘
’ہر جگہ ایئر کنڈیشننگ موجود ہے، خاص طور پر شاپنگ مالز میں جہاں لوگ دن کا زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ مال گویا آپ کا دوسرا گھر ہے!‘
بہت سے لوگوں کی طرح سلیمان بھی اپنی روزمرہ کی زندگی کو اس غیرمعمولی درجہ حرارت کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔
سائنس دان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ اگر جسم بار بار ایسی گرمی برداشت کرے تو اس کے اندر کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کی ایک تحقیق میں مختلف ریاستوں اور موسموں میں رہنے والے ہزاروں امریکیوں کا جائزہ لیا گیا اور دیکھا گیا کہ جب روزانہ جسم کا درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ (90 فارن ہائیٹ) سے اوپر جاتا ہے تو ان کے جسم پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ٹیم نے 3600 افراد کی حیاتیاتی عمر اور اصل عمر کا موازنہ کیا اور اس کو درجہ حرارت کے اعداد و شمار سے جوڑا۔ تحقیق کی مصنف اور پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچر یون یونگ چوئے نے بتایا کہ نتائج چونکا دینے والے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جن لوگوں کو زیادہ گرمی کا سامنا تھا ان میں جلد بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے۔
بغداد میں ایک شخص 50 ڈگری سینٹی گریڈ میں پانی چھڑکنے والے پنکھے کے سامنےکیا گرمی کے جسم پر دیرپا اثرات ہوتے ہیں؟
سائنس دان پہلے ہی جانتے ہیں کہ گرمی دماغی کارکردگی، دل کی صحت اور گردوں کے کام کرنے کی صلاحیت میں تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے۔
تاہم، یو ایس سی کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ زیادہ درجہ حرارت کا بار بار سامنا کرنے سے آپ کے ڈی این اے میں ایک قسم کی کیمیائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جسے ’میتھائیلیشن‘ کہا جاتا ہے۔
جَیف گوڈیل نے ’دی ہیٹ وِل کل یو فرسٹ - لائف اینڈ دیتھ آن اے سکورچڈ پلینٹ‘ نامی کتاب کےمصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہمارے جسم کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو اصل لپڈز، یعنی وہ چکنائیاں جو خلیوں کو گھیرے رہتی ہیں، حقیقت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہیں۔‘
’خلیے کی ساخت بکھرنے لگتی ہے اور یہ ویسا ہی عمل ہے جو انڈا پکانے کے دوران ہوتا ہے یعنی جیسے انڈے کی جھلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے بالکل ویسا ہی عمل ہوتا ہے۔‘
امریکہ میں سنہ 2050 تک گرم دنوں میں 20 سے 30 دنوں کا اضافہ ہو سکتا ہےایپی جینیٹک بڑھاپا کیا ہے؟
تو آخر ہم اپنے خلیوں کو کتنی تیزی سے ’پکا‘ رہے ہیں؟
ہم جانتے ہیں کہ کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بوڑھے دکھائی دیتے ہیں۔ یو ایس سی کی ڈاکٹر چوئے کہتی ہیں کہ سادہ الفاظ میں، ایپی جینیٹک بڑھاپا ان کئی طریقوں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے ڈاکٹرز یہ جانچ سکتے ہیں کہ کسی شخص کی حیاتیاتی عمر کس حد تک بڑھ رہی ہے۔
یہ دراصل بتاتا ہے کہ ہمارا جسم خلیاتی سطح پر کس حد تک اچھی طرح کام کر رہا ہے۔
ڈاکٹر چوئے کہتی ہیں: ’ڈی این اے پیدائش کے وقت ہی طے ہو جاتا ہے، ہم اسے کبھی نہیں بدلتے، لیکن میتھائیلیشن جینز کے لیے ایسے ہے جیسے بٹن آن یا آف کرنا اور جین کے اظہار کو کنٹرول کرنا۔‘
خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ڈی این اے میتھائیلیشن میں یہ تبدیلیاں جانچی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر چوئے کے مطابق: ’آپ ڈی این اے کو ایک خاکے کی طرح سمجھ سکتے ہیں، جبکہ میتھائیلیشن ایک ایسے سوئچ بورڈ کی طرح ہے جو طے کرتا ہے کہ کون سا بٹن دبے گا اور کون سا نہیں۔‘
یہ سمجھنا اس عمل کو جاننے میں اہم ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے ماحول سے جُڑے عوامل جیسے دباؤ (سٹریس)، فضائی آلودگی۔۔۔ اور اب گرمی بھی ان ’سویچز‘ کو بدل سکتی ہے۔
ڈاکٹر چوئے کا کہنا ہے کہ ان کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ مسلسل گرمی کے اثرات ہمارے جسم پر اتنے ہی شدید ہیں جتنے بڑی طرزِ زندگی کی تبدیلیوں کے اثرات ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے سگریٹ نوشی اور زیادہ شراب نوشی کے اثرات۔۔ جو کہ اچھی طرح ثابت شدہ ہیں۔‘
اگرچہ یہ تیز رفتار بڑھاپا بظاہر معمولی لگتا ہے، جیسے چند مہینے آگے پیچھے لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وقت کے ساتھ یہ کیسے بڑھتا جاتا ہے۔ حیاتیاتی بڑھاپے میں معمولی اضافہ بھی اگر سال بہ سال جاری رہے تو یہ کئی برس کے اضافی بڑھاپے کے برابر ہو جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو بڑھاپے سے جڑی بیماریاں، جیسے ذیابیطس، ڈیمنشیا اور دل کی بیماریاں، بہت پہلے لاحق ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر چوئے کے مطابق یہ تحقیق اب ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے اور ’ہم اس کو ایک ابتدائی اشارے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جو ڈاکٹروں کو طبی مداخلت کے لیے ایک سنہری وقت دیتا ہے۔‘
بالوں کے سفید ہونے اور جھریوں کا کیا؟
کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انتہائی گرم جگہ پر رہنے سے آپ کی ظاہری شکل بھی بدل جاتی ہے؟
سلیمان کہتے ہیں کہ دبئی میں ان کا جسم زیادہ تیزی سے بوڑھا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان کے چہرے پر مزید لکیریں اور جھریاں نمایاں ہو گئی ہیں۔
انھوں نے کہا: ’پچھلی گرمیوں میں مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا کیونکہ مجھے شدید سن برن ہو گیا تھا۔ میری جلد بہت خراب ہو گئی تھی اور اب بھی اس کے نشانات باقی ہیں۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ انھیں سن سکرین کے بارے میں تحقیق کرنی پڑی، جس کے بارے میں لندن میں رہتے ہوئے انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
’اب مجھے سمجھ آتا ہے کہ لوگ دن میں چھتری کے ساتھ کیوں چلتے ہیں۔ جب آپ دھوپ میں گھر آتے ہیں تو جلد پر سورج کی مسلسل تپش کے اثرات واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔‘
سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کے مسلسل اثرات جلد پر جھریاں بڑھا دیتے ہیں اور آپ زیادہ بوڑھے دیکھائی دیتے ہیں۔
البتہ یہ بات کم واضح ہے کہ آیا یہ عمل بالوں کے قبل از وقت سفید ہونے میں بھی کردار ادا کرتا ہے یا نہیں۔ بالوں کا رنگ دراصل رنگ پیدا کرنے والے خلیوں (میلانوسائٹس) سے طے ہوتا ہے اور کچھ ماہرینِ جلد کا کہنا ہے کہ یو وی شعاعیں اس عمل میں بھی خلل ڈال سکتی ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی گرمی اور نمی یا رطوبت سے کئی اعصابی بیماریاں زیادہ بگڑ جاتی ہیں: مرگی، فالج، دماغ کی سوزش، ملٹیپل سکلیر وسز اور مائیگرین۔ اور یہ تمام بیماریاں، مثلاً ورزش کے ذریعے وزن قابو میں رکھنے کو بھی مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ زیادہ گرمی ہمارے میٹابولزم کو بھی متاثر کرتی ہے یا نہیںشدید گرمی سے سب سے زیادہ کسے بچنا چاہیے؟
جرمنی میں سنہ 2023 میں ایک چھوٹی سی تحقیق ہوئی۔ ہارورڈ ٹی ایچ چان سکول آف پبلک ہیلتھ میں ماحولیاتی صحت کی ریسرچ فیلو ڈاکٹر وینلی نی اس تحقیق میں یہ پایا کہ زیادہ درجہ حرارت سے خلیے تیزی سے بڑھتے ہیں۔
ان کی تحقیق کا ایک پہلو ڈی این اے میتھائیلیشن کے پیٹرن کو بڑھاپے سے متعلق بیماریوں کے ساتھ دیکھنا تھا۔
وہ کہتی ہیں: ’تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ذیابیطس اور موٹاپے کے شکار افراد زیادہ تیزی سے بوڑھے ہو رہے تھے۔ ہم نے بار بار دیکھا کہ ذیابیطس کے مریض شدید گرمی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر وینلی نی مزید کہتی ہیں کہ جب خون کے ٹیسٹ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خلیے زیادہ تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہیں تو یہ موت کے امکان اور ذیابیطس، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کی بیماری اور اعصابی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا ایک مضبوط اشارہ دے رہے ہوتے ہیں۔
البتہ تحقیق میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں، اس لیے اگرچہ ایپی جینیٹکس تیز رفتار بڑھاپے کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، لیکن یہ ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ ہمارے جسم کے کون سے نظام گرمی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر چوئے کی ٹیم اب یہ تجزیہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے کہ گردے، دماغ یا دل کے نظام میں سے کون سا حصہ گرمی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
گرم موسم میں رہنے سے آپ کو ڈیمنشیا اور دل کی بیماریاں ہو سکتی ہیںگرمی سب سے پہلے کمزوروں پر حملہ کرتی ہے
جیف گوڈیل نے ماحولیاتی تبدیلی پر اپنی کتاب لکھنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب وہ فینکس میں کام کر رہے تھے اور وہاں درجہ حرارت 115 فارن ہائیٹ (46 سینٹی گریڈ) تک جا پہنچا تھا۔
وہ اپنی ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے چند بلاکس پیدل چلنے نکلے مگر راستے میں گرمی کے باعث وہ تقریباً گر ہی پڑے تھے۔
گوڈیل یہ سمجھنا چاہتے تھے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ محض ایک واقعہ، یعنی شدید گرمی کا ایک تجربہ، میٹابولزم کو بدل دسکتا ہے؟
چوہوں پر کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ صرف ایک بار شدید گرمی سے بھی چوہے کے میٹابولزم پر مستقل اثر پڑا۔
امریکہ کے نیشنل کلائمیٹ اسیسمنٹ نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے ماحولیاتی تبدیلی بڑھ رہی ہے، امریکہ میں شدید گرمی والے دنوں کی تعداد صدی کے وسط تک 20 سے 30 دن تک بڑھ سکتی ہے۔
امریکہ کی جنوبی ریاستیں پہلے سے ہی لمبے گرمی کے موسم کا سامنا کر رہی ہیں اور ہر سال یہ موسم پہلے کے مقابلے قبل از وقت آ رہا ہے۔
گوڈیل کہتے ہیں: ’ٹیکسس جیسے مقامات پر لوگ گرمی کے موسم کے بارے میں ہر وقت سوچتے ہیں۔ پچھلی دو گرمیوں سے وہ جان گئے ہیں کہ انھیں اپنی زندگی بدلنی پڑے گی اور اس بارے میں نیا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں اور کیسے گھومتے پھرتے ہیں۔‘
گوڈیل کے مطابق گرمی کے نتیجے میں لوگوں کی زبان میں بھی واضح تبدیلی آ چکی ہے کیونکہ اب عوام کو شدید گرمی کے خطرات کا زیادہ شعور ہو گیا ہے۔
ابھی یہ بھی زیرِ غور ہے کہ ہیٹ ویوز کو بھی شدت کے حساب سے نمبروں میں درجہ دیا جائے، بالکل طوفانوں کی طرح، اگرچہ اس میں نمی کا پیمانہ بھی شامل کرنا پڑ سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹی وی پر ہمیں ہیٹ ویو کے دوران ساحل کی طرف جاتی کاروں کی قطاریں دکھائی جاتی تھیں۔
’لیکن اب لوگ ہیٹ ویوز کو ایک خطرناک قوت کے طور پر سوچنے لگے ہیں۔‘
گوڈیل کے خیال میں ماحولیاتی بحران نے پہلے ہی بڑے اختلافات کو جنم دے دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ہم ایک دو دھڑوں والے ملک میں بدل رہے ہیں: ایک طرف وہ جو ٹھنڈے علاقے میں ہیں اور دوسری طرف وہ جو جھلس رہے ہیں۔
’ایک جانب پانی، سایہ اور ایئر کنڈیشننگ ہے۔ دوسری جانب پسینہ، تکلیف اور بدترین صورتوں میں موت بھی ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ اب ٹیکسس کے تمام لوگ گرمی کے بارے میں جو سب سے اہم بات جان گئے ہیں وہ یہ ہے: ’یہ ایک شکار کرنے والی قوت ہے اور سب سے پہلے کمزوروں پر حملہ کرتی ہے۔‘