چنیوٹ کے دیہات میں سیلابی ریلے اور ریسکیو اہلکاروں کی مشکلات: ’متاثرین کے پاس پہنچتے تو وہ کہتے گھر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے‘

پانی کے نیچے کھڑی فصلیں کشتی کے پروپیلر میں پھنس جانے سے کشتی کو حرکت کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور پھر پانی کا بہاو اتنا تیز تھا کہ بہت زیادہ اونچے پانی میں کشتی ڈالنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا تھا۔اس قسم کے چیلنجز میں ریسکیو اہلکار بہت سے پھنسے لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے
سیلاب متاثرین
BBC

رواں برس مون سون کی ابتدائی بارشوں کے بعد جب دریائے چناب کی سطح بلند ہونا شروع ہوئی تو ضلع چنیوٹ سے محلقہ علاقوں میں اس دریا کے کناروں کے اطراف آباد لوگوں میں کچھ تشویش پیدا ہوئی۔ برسوں سے یہاں آباد خاندان ماضی میں متعدد مرتبہ سیلابی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں۔

اُن میں سے زیادہ تر نے اُس وقت یہ سوچا تک نہ تھا کہ سیلابی صورتحال اس قدر خراب ہو گی کہ انھیں گھر بار چھوڑنا پڑ جائے گا۔ ان کے خیال میں ’زیادہ سے زیادہ کتنا پانی آ جائے گا۔‘

ابتدا میں ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ دریا کے زیادہ قریب بنے کچھ گھروں تک پانی آیا اور پھر یہ سیلابی پانی اُتر گیا۔

پھر مون سون کے ہر نئے سلسلے کے ساتھ دریا میں پانی بڑھتا رہا، لوگ مشکل میں ضرور تھے لیکن اپنے گھروں میں تھے۔

تاہم حال ہی میں یہ صورتحال اچانک بدل گئی۔ پانی اس قدر بڑھا کہ لوگوں کو گھر چھوڑ کر نکلنے کے لیے محض چند گھنٹے کا وقت بھی نہ ملا۔ مقامی مساجد سے ہونے والے اعلانات میں انھیں بتایا گیا کہ دریائے چناب میں 10 لاکھ کیوسک کا ریلا تیزی سے چنیوٹ کی جانب بڑھ رہا ہے، اس لیے لوگ نقل مکانی کر جائیں۔

زیادہ تر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنا قیمتی سامان، مال مویشی اور بچوں کو لے کر گھروں سے نکل گئے۔ ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جس نے گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اس امید کے ساتھ ابھی مزید انتظار کرنا چاہتے تھے کہ شاید پانی اُتر جائے۔

سیلاب سے تباہی
BBC

رانی بی بی اور ان کے خاندان کے پانچ افراد بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔

’ہم نے کہا اتنا زیادہ پانی نہیں آئے گا اور پھر ہمارا سارا سامان بھی ادھر پڑا ہوا تھا۔ لیکن پھر رشتہ داروں نے فون کر کے ہمیں ڈرا دیا کہ بہت زیادہ پانی آ رہا ہے نکلو وہاں سے۔‘

کچھ گھنٹے مزید مزاحمت کرنے کے بعد بالآخر انھوں نے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس وقت تک باہر سڑکوں پر تین فٹ سے اونچا سیلاب کا پانی چل رہا تھا۔ اب ان کے لیے اپنی مال مویشی لے کر نکلنا مشکل ہو گیا تھا۔

بمشکل انھوں نے اپنے مویشیوں اور بچوں کو پانی سے نکال کر باہر منتقل کیا۔ جب تک ان کے اور ان کے شوہر کے نکلنے کی باری آئی، اس وقت تک پانی کی سطح کافی بلند ہو چکی تھی۔ اب وہ چل کر وہاں سے نہیں نکل سکتے تھے۔

وہ ریسکیو 1122 کی کشتی کا انتظار کرنے لگے۔ تاہم اس وقت وہ اکیلے نہیں تھے جنھیں محفوظ مقام تک پہنچنے کے لیے امداد کی ضرورت تھی۔

’ہم مدد کے لیے کسی کو بُلا بھی نہیں سکتے تھے‘

سیلابی ریلا
BBC

دوسری جانب رانی بی بی کے گھر سے چند میٹر دور دریائے چناب کے بالکل ساتھ ایک آبادی ہے جس میں طاہر عباس اور ان کے گاؤں کے بہت سے دوسرے مرد پیچھے رُکے ہوئے ہیں۔ ان کی بھی کہانی وہی ہے کہ ’گھروں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔‘

یہاں زیادہ تر گھر پکے بنے ہوئے ہیں۔ یہ تمام مرد کچھ گھروں کی چھتوں پر چارپائیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے تھے اور نیچے چناب کا پانی ان کے گھروں کے اندر سے ہو کر گلیوں سے گزر رہا تھا۔ اگر طاہرعباسکے گھر کی چھت سے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کا گھر بھی چناب کے عین درمیان میں ہے۔

انھیں بھی خوف تھا کہ بہت زیادہ پانی آ رہا ہے۔ آٹھ سے دس لاکھ کیوسک پانی کافی نقصان کر سکتا تھا۔ پھر ان تک خبر پہنچی کہ ساڑھے آٹھ لاکھ پانی ایک دن بعد چنیوٹ پل کے نیچے سے گزرے گا۔

’ہمارے پاس یہاں بجلی بھی نہیں تھی اور فون کا نیٹ ورک بھی نہیں آ رہا تھا۔ اس لیے کسی سے رابطہ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم مدد کے لیے ریسکیو کو یا کسی اور کو بُلا بھی نہیں سکتے تھے۔‘

ان کے پاس کچھ راشن موجود تھا جسے وہ استعمال کر رہے تھے۔ تاہم ان کی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ کہیں پانی اتنا زیادہ نہ آ جائے کہ ان گھروں کو بہا کر لے جائے جہاں انھوں نے پناہ لے رکھی ہے۔

دوسری جانب پانی اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ ریسکیو اہلکاروں کو کشتی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔

’بعض لوگ نکلنے سے انکار کر دیتے ہیں‘

سیلاب
BBC
ریسکیو اہلکار خاور عباسکے مطابق بہت سے لوگ گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کر دیتے تھے

ریسکیو 1122 کے اہلکار کشتی لے کر گذشتہ چند روز سے اس مشن پر ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا جا سکے اور ان کو محفوط مقامات پر منتقل کیا جائے۔

چنیوٹ ایمرجنسی سروسز کے حکام کے مطابق انھوں نے ابتدا ہی میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان علاقوں میں سے نکال لیا تھا جہاں پانی زیادہ آنے کا خطرہ تھا۔ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ اب پھنس چکے تھے اور انھیں نکالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔

تاہم اب لوگوں تک پہنچنا پہلے سے زیادہ دشوار ہو چکا تھا۔ ان علاقوں کا منظر نامہ اب کچھ یوں بدل چکا تھا کہ تمام تر سڑکیں کئی فٹ پانی کے نیچے تھیں۔ ان سڑکوٍں پر پلیاں بنی ہوئی تھیں جو نظر نہیں آتیں اور ریسکیو کشتیوں کے لیے خطرہ ہیں۔

پانی کے نیچے کھڑی فصلیں کشتی کے پروپیلر میں پھنس جانے سے کشتی کو حرکت کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر پانی کا بہاو اتنا تیز ہے کہ بہت زیادہ اونچے پانی میں کشتی ڈالنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

اس قسم کے چیلنجز کے باوجود ریسکیو اہلکار بہت سے پھنسے لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ رانی بی بی اور ان کے خاوند کو بھی وہ نکال کر لے گئے تھے۔ ان کا مشن تھا کہ بڑا ریلا آنے سے پہلے پہلے تمام لوگوں کو نکال لیا جائے۔

تاہم ریسکیو اہلکار خاور عباس، جو کشتی کو چلا بھی رہے تھے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بہت سے لوگ گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کر دیتے تھے۔

’جب ہم ان کے پاس پہنچتے تھے تو وہ کہتے تھے ہم نے گھر اکیلا چھوڑ کر نہیں نکلنا۔‘

خاور عباس کہتے ہیں کہ انھیں بطور ریسکیو ورکر اس بات کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے کہ ایسی صورتحال میں لوگوں کو کیسے سمجھانا ہے۔ وہ کوشش کر کے کچھ لوگوں کو راضی کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ رہ جاتے ہیں۔

’اس وقت لگا سب کچھ تباہ ہو جائے گا‘

سیلاب
BBC

دوسری جانب طاہر عباس اور ان کے ساتھیوں کو بڑے ریلے کی پریشانی تھی۔ ان کے ذہنوں میں مختلف سوالات تھے۔

ساڑھے آٹھ لاکھ کیوسک کتنا زیادہ پانی ہو گا؟ کیا یہ گھر محفوظ ہوں گے جن پر وہ بیٹھے ہیں؟ اگر وہ پانی کے ساتھ بہہ گئے تو کیا ہو گا؟

ان کے پاس کچھ لائف جیکٹس تھیں اور زیادہ تر لوگ تیراکی جانتے تھے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اتنے اونچے اور تیز رفتار پانی میں یہ اشیا کارگر ثابت ہوں گی یا نہیں۔

جب ساڑھے آٹھ لاکھ کیوسک کا ریلا وہاں سے گزرنا شروع ہوا تو پانی کی سطح بہت بند ہو گئی اور اس کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔

طاہر عباس اور ان کے ساتھیوں نے یہ مناظر بہت قریب سے چناب کے بہتے پانی کے اندر ڈگمگاتے گھروں کی چھتوں سے بیٹھ کر دیکھے۔

’پانی کی لہریں ایسے طوفان کی طرح آ رہی تھیں اور ان کا اتنا زیادہ شور تھا کہ خوف محسوس ہوتا تھا۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ تباہ ہو جائے گا، کچھ نہیں بچے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی عمارت کا انتخاب کیا جس کے بارے انھیں لگا کہ وہ سب سے زیادہ مضبوط ہے اور وہ اس کے اوپر بیٹھ گئے۔ اگلے کئی گھنٹوں تک پانی انتہائی اونچی سطح پر چلتا رہا۔

’زیادہ خوف رات کے وقت محسوس ہوتا تھا۔ اس وقت کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اگر کچھ ہو گیا تو کہاں جائیں گے۔‘

تین روز تک وہاں پھنسے رہنے کے بعد ان کا کسی کے ذریعے ریسکیو 1122 کے اہلکاروں سے رابطہ ہو پایا۔ وہ انھیں لینے کے لیے آ رہے تھے۔

’ہم نہیں جانتے اب کب تک یہاں رہ پائیں گے‘

سیلاب
BBC

اب یہاں سے پانی کا بڑا ریلا گزر چکا ہے۔ انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے دوران چناب سے نکل کر پانی بھوانہ روڈ کے پار دوسری طرف بھی کئی میل تک پھیل گیا تھا۔ چنیوٹ کو جھنگ سے ملانے والی سڑک کئی مقامات پر پانی کے نیچے آ گئی تھی۔

اب پانی بتدریج کم ہو رہا ہے لیکن اس کی سطح کئی مقامات پر اب بھی آٹھ فٹ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ کشتی اب بھی اس میں ایسے چلتی ہے جیسے دریا میں چل رہی ہو۔

رانی بی بی اور ان کے شوہر ٹریکٹر کی ٹیوب پر بیٹھ کر تیرتے ہوئے اپنے گھر کی خبر لینے جا رہے تھے جب ریسکیو کی کشتی ان کے پاس سے گزری۔ ان دونوں کو بھی کشتی میں بٹھا لیا گیا۔

انھیں ان کے گھر کے پاس اتار کر کشتی آگے طاہر عباس اور ان کے ساتھیوں کو لینے کے لیے پہنچی۔ دور ہی سے انھیں چھت پر کھڑے دیکھا جا سکتا تھا۔ چھت پر کھڑے طاہر عباس نے ایک جانب دریائے چناب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس سمت میں بھی چند سال قبل ان کے گاؤں جیسا ہی ایک گاوں ہوا کرتا تھا۔

’تین چار سال قبل دریا نے اپنا رخ بدل لیا اور وہ اس سمت میں بہنا شروع ہو گیا اس طرف وہ گھر تھے۔ آہستہ آہستہ وہ ان تمام گھروں کو گرا کر اس جگہ کو نگل گیا۔‘

اب بھی اس کا دباؤ اسی جانب ہے جہاں اُن کے اور گاؤں کے باقی گھر ہیں۔ طاہر عباس کہتے ہیں ’ہم نہیں جانتے کہ اب کتنا عرصہ مزید ہم یہاں رہ پائیں گے۔‘

تاہم ابھی فوری طور پر ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چناب میں پانی کم ہو اور وہ ان کے گاؤں سے نکلے۔ اس کے بعد وہ نقصانات کا اندازہ لگا پائیں گے۔ اور پھر ان نقصانات کے ازالے کا طویل اور تکلیف دہ عمل شروع ہو گا۔

یہی یہاں بسنے والے ان جیسے ان سینکڑوں گھروں کی کہانی ہے جو اپنے مستقبل کے بارے پریشان ہیں اور اپنے گھروں سے پانی کے نکلنے کے منتٍظر ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US