چاروں طرف پانی پھیلا ہوا تھا، اندھیرا ہر چیز کو نگل رہا تھا اور امید دم توڑتی محسوس ہو رہی تھی۔ مگر اسی ویران منظر میں آسمان پر ایک چھوٹا سا ڈرون نمودار ہوا جس کی روشنی نے چند زندگیوں کو موت کے دہانے سے واپس کھینچ لیا۔یہ صرف ایک مشین نہیں تھی بلکہ ٹیکنالوجی کا وہ معجزہ تھا جس نے پنجاب کے حالیہ سیلاب میں سیکڑوں افراد کو نئی زندگی دی۔یہ اوکاڑہ کا نواحی گاؤں ہے جس میں پانی کا شور اب بھی ہر طرف سنائی دے رہا تھا۔ واحد پناہ گاہ مکانوں کی چھتیں ہی تھیں۔ انہی میں سے ایک چھت پر محمد رمضان اپنے دو ننھے بچوں اور بیوی کے ساتھ کھڑے تھے۔پانی ہر لمحہ اوپر آ رہا تھا اور خوف کی لہر وہاں موجود ہر دل میں دوڑ رہی تھی۔ دور کہیں امدادی ٹیموں کی آوازیں تھیں لیکن اندھیرے اور شور نے سب کچھ نگل رکھا تھا۔اچانک آسمان پر ایک ہلکی آواز سنائی دی۔ یہ کوئی پرندہ نہیں بلکہ ایک ڈرون تھا، جس کی روشنی نے سیدھا ان کی چھت پر اشارہ کیا۔ رمضان اور ان کے اہل خانہ سمجھے شاید یہ محض تلاش کا حصہ ہے لیکن یہ لمحہ زندگی اور موت کا فرق ثابت ہوا۔دراصل یہ ڈرون تھرمل کیمرے سے لیس تھا جو اندھیرے میں بھی انسانی جسم کی حرارت کو محسوس کر لیتا ہے۔ چند منٹوں میں ریسکیو ٹیم ان تک پہنچ گئی اور انہیں کشتی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔رمضان بتاتے ہیں کہ ’اگر یہ ٹیکنالوجی نہ ہوتی تو ہم ساری رات یوں ہی چھت پر کھڑے رہتے اور پانی شاید ہمیں بہا لے جاتا۔‘یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے۔ جھنگ کے ایک علاقے میں 60 سالہ فاطمہ بی بی اپنے گھر کی چھت پر اکیلی رہ گئی تھیں۔ پانی چاروں طرف پھیل چکا تھا اور نظر کا دائرہ چند فٹ سے زیادہ نہیں رہا تھا۔ ریسکیو ٹیمیں پیدل اور کشتیوں کے ذریعے دیہات کھنگال رہی تھیں لیکن کوئی نشانی نہیں مل رہی تھی۔
سیف سٹیز اتھارٹی کے ڈرونز کو 24 گھنٹے سیلاب زدہ علاقوں پر مامور کیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اسی دوران ایک تھرمل ڈرون نے ان کی جسمانی حرارت پکڑ لی۔ سگنل ملتے ہی ٹیم سیدھا ان کی چھت تک پہنچی اور انہیں نکال لیا۔
فاطمہ بی بی کہتی ہیں ’میں تو سمجھی کہ اب زندگی ختم ہو گئی مگر یہ مشین میری نئی امید بن گئی۔‘ یہ مناظر صرف دو مثالیں ہیں ان سیکڑوں واقعات کی جو اس بار کے سیلاب میں دیکھنے کو ملے۔سیلاب کی تباہ کاریاںپنجاب کے کئی اضلاع میں اس مرتبہ غیرمعمولی بارشوں اور دریاؤں کی طغیانی نے زندگی درہم برہم کر دی ہے۔ ہزاروں گھر منہدم ہو گئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے اور کھیت کھلیان پانی میں ڈوب گئے ہیں۔پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق اس سیلاب کے دوران پہلی بار تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا۔ صرف چند دنوں میں 490 افراد کو ان ڈرونز کی مدد سے تلاش کر کے بچایا گیا ہے۔پی ڈی ایم اے ترجمان کے مطابق ’یہ ٹیکنالوجی رات کے اندھیرے اور خراب موسم میں سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوئی ہے، جب انسانی آنکھ یا روایتی تلاش ناکام ہو جاتی ہے۔‘وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے ایک بیان میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کو ’انقلابی قدم‘ قرار دیا۔ان کے مطابق سیف سٹیز اتھارٹی کے ڈرونز کو 24 گھنٹے سیلاب زدہ علاقوں پر مامور کیا گیا ہے تاکہ کوئی شہری یا مویشی پیچھے نہ رہ جائے۔’ہماری ترجیح ہر شہری کی حفاظت ہے، اور اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔‘تھرمل ٹیکنالوجی ہے کیا؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ تھرمل ٹیکنالوجی ہے کیا اور یہ کام کیسے کرتی ہے؟
پی ڈی ایم اے کے مطابق اس سیلاب کے دوران پہلی بار تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا(فوٹو: ویڈیو گریب)
ماہرین کے مطابق انسانی جسم یا کوئی بھی جان دار ہمہ وقت انفراریڈ شعاعیں خارج کرتا ہے جو حرارت کی صورت میں اردگرد پھیلتی ہیں۔ ننگی آنکھ انہیں نہیں دیکھ سکتی مگر تھرمل کیمرے انہیں پکڑ کر رنگوں میں بدل دیتے ہیں۔ تصویر میں گرم جگہیں سرخ یا پیلی جبکہ ٹھنڈی جگہیں نیلی یا سبز دکھائی دیتی ہیں۔
سکیورٹی کیمروں کے کاروبار سے وابستہ اور ماہر بدر علی بتاتے ہیں کہ ’جب یہ کیمرے ڈرونز میں نصب کیے جائیں تو وہ فضا سے اڑتے ہوئے اندھیرے، بارش یا دھند میں بھی پھنسے ہوئے لوگوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ روشنی کی کمی یا دھواں اس میں رکاوٹ نہیں بنتے، کیونکہ یہ حرارت پر انحصار کرتے ہیں، نہ کہ روشنی پر۔ تھرمل کیمرے نہ صرف ریسکیو ٹیموں کو تیزی سے راستہ دکھاتے ہیں بلکہ ان کی اپنی حفاظت بھی یقینی بناتے ہیں۔‘دیگر شعبوں میں استعمالیہ ٹیکنالوجی صرف سیلابی علاقوں تک محدود نہیں۔ فائر فائٹرز دھوئیں میں پھنسے افراد کو تلاش کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ سکیورٹی ادارے رات کے وقت نگرانی میں اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ طبی دنیا میں بخار یا جسم کے کسی حصے کی غیرمعمولی حرارت جانچنے کے لیے بھی یہ کارآمد ہے۔گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اسے خودکار گاڑیوں میں شامل کر رہی ہیں تاکہ رات کے اندھیرے میں پیدل چلنے والوں کو دیکھا جا سکے۔ یہاں تک کہ اب ایسے آلات دستیاب ہیں جو سمارٹ فون کو تھرمل کیمرے میں بدل دیتے ہیں، اور یہ گھروں میں حرارت کے اخراج کو جانچنے یا بجلی کی خرابی پکڑنے میں مدد دیتے ہیں۔
یہ ڈرونز میں نصب کیے جائیں تو یہ اندھیرے، بارش یا دھند میں بھی پھنسے ہوئے لوگوں کو تلاش کر سکتے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)
تاہم پاکستان میں تھرمل ٹیکنالوجی کا استعمال اس سے پہلے زیادہ تر فوجی اور سکیورٹی آپریشنز تک محدود رہا ہے۔ سرحدی نگرانی، انسداد دہشت گردی اور صنعتی مشینوں کی خرابی جانچنے میں اس کے تجربات ہوتے رہے ہیں۔
قدرتی آفات میں مثلاً زلزلے یا آگ کے دوران، محدود پیمانے پر اس کے استعمال کی مثالیں موجود ہیں لیکن سیلاب میں بڑے پیمانے پر اسے پہلی بار آزمایا گیا ہے۔حکام کے مطابق یہ قدم مستقبل میں آفات مینجمنٹ کا لازمی حصہ بن سکتا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی اب محض سہولت نہیں بلکہ بقاء کا ذریعہ بھی ہے۔ اگر روایتی طریقوں پر انحصار کیا جاتا تو شاید سیکڑوں زندگیاں اندھیرے میں کھو جاتیں۔ لیکن تھرمل ڈرونز نے چند منٹوں میں وہ کام کر دکھایا جو گھنٹوں یا دنوں میں ممکن نہ ہوتا۔