سیلاب متاثرین کو بھوکے مویشیوں کی فکر: ’ہمارے لیے کھانا نہ لائیں، جانوروں کے چارے کا انتظام کر دیں‘

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب اور شدید بارشوں کی وجہ سے اب تک سینٹرل پنجاب کے تین بڑے شہروں نارووال، سیالکوٹ اور وزیر آباد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور ان علاقوں میں ہزاروں جانور پانی کی نذر ہو گئے ہیں جن میں گائے بھینسیں اور بھیٹر بکریاں شامل ہیں۔
سیلاب، جانور
Getty Images

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران ہم نے اتنی بڑی تعداد میں جانور بالخصوص گائے اور بھینسیں مردہ حالت میں پڑی دیکھیں کہ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ ان کھیتوں میں فصل نہیں بلکہ مویشی اُگتے ہیں۔

پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب اور شدید بارشوں کی وجہ سے اب تک سینٹرل پنجاب کے تین بڑے شہروں نارووال، سیالکوٹ اور وزیر آباد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور ان علاقوں میں سینکڑوں جانور بھی پانی کی نذر ہو گئے ہیں جن میں گائے، بھینسیں اور بھیٹر بکریاں شامل ہیں۔

ایسے ہی مناظر شاید آپ نے اپنے سوشل میڈیا پر بھی دیکھے ہوں گے جو سیلاب متاثرین اور ان کے جانورں کی ویڈیوز اور تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو کھلے احاطے میں سیلابی پانی سے گِھری بھینسوں کے گلے سے رسیاں کھولتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے کہ ’اگر جانور زیادہ ہوں تو ان کی رسی کھول دی جاتی ہے اور انھیں اللہ کے سپرد کر کے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے کے جانور۔۔۔ اپنا کُل سرمایہ اپنے ہاتھ سے اللہ کے سپرد کر دینا بہت حوصلہ مانگتا ہے۔ سیلاب بہت ظالم چیز ہے۔‘

یہ رسیاں اس لیے کھول دی جاتی ہیں کہ بہتے ہوئے جانور کی رسی کہیں پھنس کر اس کا دم گھٹنے کا سبب بن سکتی ہے اور شاید آزادانہ طور پر بہتا جانور کسی نہ کسی طرح بچ ہی جائے۔

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں دریائے راوی میں آٹھ سے دس بھینسیں ایک ساتھ تیز پانی کے ساتھ بہتی نظر آ رہی ہیں۔ ان کے صرف منہ پانی سے باہر ہیں۔ پانی اس قدر تیز ہے کہ وہ سنبھل نہیں پا رہیں اور سب کی سب ایک ساتھ بہہ رہی ہیں۔ پھر ایک دو بھینسوں کے چہرے بھی مٹی کی سرخی لیے سیلابی پانی میں غائب ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح ایک منظر میں چاولوں کے کھیتوں میں سیلابی پانی کے باعث ہلاک ہونے والی گائے بھینسوں کی لاشیں پڑی ہیں۔

ایک ویڈیو جس میں درجنوں بھینسوں کو پانی کے ساتھ بہتے دیکھا جا سکتا ہے اس کے ساتھ کیپشن میں سوشل میڈیا صارف نے مشورہ دیا کہ ’اپنے مال مویشی کے گلے میں یا سینگ کے ساتھ ۔اپنا گاؤں، نمبر یا نام کسی دھات کے ٹکڑے پر لکھ کر تار سے باندھ دو تاکہ جہاں پہنچے وہ رابطہ کر لے۔‘

یہ مشورے جانے اب متاثرین کے کسی کام کے ہیں یا نہیں تاہم اصل نقصانات کا تخیمنہ سیلاب کی تبادہ کاریاں رکنے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا۔

بی بی سی کی ٹیم نے ان علاقوں کے دورے کے دوران جہاں لوگوں کو بے سروسامانی کی حالت میں دیکھا وہیں اس سیلاب میں زندہ بچ جانے والے جانور قریب سے گُزرنے والے ہر شخص کو ایسے دیکھ رہے تھے کہ جیسے ان سے کہہ رہے ہوں کہ ہمیں کم از کم زندہ رہنے کے لیے ہی کھانے کو کچھ دے دیں۔

سیالکوٹ کی تحصیل سمبٹریال کے دیہی علاقوں اور بالخصوص ایسے علاقے جو دریائے چناب کے علاوہ نالہ پلخو اور نالہ ایک کے پاس ہیں، ان کے دورے کے دوران جب سیلاب سے متاثرہ افراد سے ملاقاتیں ہوئیں تو ان کا کہنا تھا کہجب وہ رات کو سوئے تھے تو وہ کروڑ پتی تھے لیکن چند منٹوں میں ہی وہ کنگال ہو گئے۔

سیلاب
Getty Images

’گاؤں سے نکلنے تک چار فٹ پانی آ چکا تھا‘

مرجرہ کلاں کے رہاشی محمد ابرار بھی ان سینکٹروں کاشت کاروں میں شامل ہیں جن کی نہ صرف سینکڑوں ایکٹر پر کھڑی چاول کی فصل تباہ ہو گئی بلکہ ان کے جانور بھی سیلابی پانی کی نذر ہو گئے۔

محمد ابرار کا کہنا تھا کہ وہ 28 اگست کی رات کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر پر سوئے ہوئے تھے کہ رات کے تین بجے گاؤں کی مسجد میں اعلان ہوا کہ دریائے چناب میں پانی آ گیا ہے لہٰذا وہ خود کو اور اپنے جانوروں کو بچا لیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ اعلان سننے کے بعد جب وہ اپنے گاؤں سے ڈیرے پر جانے کے لیے نکلے تو گاؤں سے نکلتے ہی چار فٹ پانی آچکا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’پانی کے چڑھنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ابھی ہم نے تھوڑی سی مسافت طے کی تھی کہ پانی آٹھ سے دس فٹ تک اوپر چلا گیا۔‘

ابرار کا کہنا تھا کہ انھوں نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی اور سڑک کے کنارے واقع ایک پیٹرول پمپ کی چھت پر پناہ لی۔

انھوں نے کہا کہ ان کا ڈیرہ جہاں پر ان کی پچاس سے زیادہ بھینسیں بندھی ہوئی تھیں سارا پانی میں ڈوب چکا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ جب چوبیس گھنٹوں کے بعد پانی کا لیول کم ہو کر چار فٹ تک رہ گیا تو وہ اپنے ڈیرے پر گئے جہاں ایک بھی گائے یا بھینس موجود نہیں تھی جبکہ ڈیرے کے کچھ فاصلے پر ان کی سولہ بھینسیں مردہ حالت میں کھیتوں میں پڑی تھیں۔

ابرار کا کہنا تھا کہ ’باقی گائے بھینسوں کا کچھ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا وہ پانی میں بہہ کر کسی اور جگہ پہنچ گئی ہیں۔‘

محمد ابرار نے ساٹھ ایکٹر پر چاول کی فصل کو کاشت کیا تھا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ گائے بھینسوں کا دودھ دھو کر سیالکوٹ اور دیگر علاقوں میں سپلائی کرتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے وہ اب زیرو پر آ گئے ہیں کیونکہ نہ ہی جانور بچے ہیں اور نہ ہی فصلیں۔

’یہ ہماری روزی کا ذریعہ ہیں اور یہی بھوکے ہیں‘

سیلاب
BBC

وزیر آباد اور نارووال کے علاقوں میں سفر کے دوران ہم نے دیکھا کہ جن لوگوں نے اپنے جانوروں کو بچا لیا وہ سڑک کے کنارے ان جانوروں کو لیے بیٹھے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیمیں اور علاقے کے مخیر افراد ان متاثرہ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا تو پہنچا رہے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر لوگ یہ چیزیں لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ وہ خود بھوکے رہ سکتے ہیں لیکن ان سے جانوروں کی بھوک برداشت نہیں ہوتی۔

وزیر آباد کے علاقے سوہدرہ کے رہاشی محمد نذیر دیگر متاثرہ افراد کے ساتھ اپنی چار بھینسوں کو لے کر سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور جب علاقے کے مخیر افراد کی طرف سے انھیں کھانا دیا گیا تو انھوں نے لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں خود کھا لوں اور میرے جانور جو میری روزی کمانے کا ذریعہ ہیں وہ بھوکے رہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کھیت پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں چارہ نہیں مل سکتا جبکہ توڑی ونڈہ کی دکانیں بھی پانی کی نذر ہو چکی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پہلے میرے جانور کچھ کھائیں گے تو پھر ہی میرے حلق سے نوالہ نیچے اترے گا۔‘

’زندگی کی جمع پونجی یہ جانور ہی ہیں‘

سوہدرے کے علاقے رانا بہرام میں اگرچہ سڑکیں سیلاب کی نذر ہو گئیں تھیں اور علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ان سڑکوں کی مرمت کی تھی۔

یہ علاقہ وزیر آباد سیالکوٹ روڈ سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن سڑک کی خستہ حالت کی وجہ سے ایک وقت میں ایک ہی گاڑی گزر سکتی تھی جبکہ گاڑیاں دونوں سمتوں سے آرہی تھیں۔

ہماری گاڑی کے آگے فوجی اہلکاروں کی گاڑی تھی کہ جو کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کر بچانے کے لیے وہاں پر تعینات تھے۔

مخالف سمت سے آنے والی ایک ٹرالی میں دس بارہ بھینسیں لدی ہوئی تھیں۔ اب اس صورتحال میں دونوں سمت سے انے والی گاڑیاں رک گئیں۔

کچھ دیر تو حالات جُوں کے تُوں رہے پھر ایک شخص ٹرالی سے اترا اور وہ فوجیوں کی گاڑی جن میں ان کا افسر سوار تھا اس کی طرف بڑھا اور کہا کہ ’اگر میں اپنی ٹرالی پیچھے کرتا ہوں تو اس کے الٹنے کے امکانات زیادہ ہیں اور میری زندگی کی جمع پونجی یہ جانور ہی ہیں۔‘

جانور، سیلاب
Getty Images

جس کے بعد اس نے فوجی سے کہا کہ ’میرے جانور دو دن سے بھوکے ہیں اور اگر زیادہ دیر یہی صورت حال رہی تو یہ جانور بھوک سے مر جائیں گے۔‘

یہ کہتے ہوئے اس نوجوان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

فوجی افسر اپنی گاڑی سے نیچے اترا اور اس نے اپنی گاڑی کے پیچھے جتنی بھی گاڑیاں تھیں جن میں ہماری گاڑی بھی شامل تھی، کو ریورس جانے کا کہا۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا اور چند میٹر کا فاصلہ آدھے گھنٹے میں طے کرنے کے بعد وہ ٹرالی والا اپنی بھینسوں کو وہاں سے لے کر محفوظ مقام پر چلا گیا۔

متاثرین کی بحالی کے لیے اس علاقے میں کام کرنے والی تنظیم ’مسلم ہینڈز انٹرنیشنل‘ کے پاکستان میں سربراہ ضیا النور کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم روزانہ کی بنیاد پر تین سے چار ہزار لوگوں میں کھانا پکا کر تقسیم کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پانی میں پھنسے لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے کو تیار نہیں اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی جانوں سے زیادہ یہ جانور عزیز ہیں جن کی وجہ سے ان کے بچوں کی پرورش ہوتی ہے اور وہ ان جانوروں کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ ان کے جانوروں کے چارے کا بھی بندوبست کیا جا رہا ہے۔‘

ضیا النور کا کہنا تھا کہ ’اب لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے بے شک کھانا نہ لے کر آئیں لیکن ہمارے جانوروں کے لیے چارے کا ضرور بندوبست کریں۔‘

’جانور اپنے مالک کو پہچان لیتا ہے‘

سیلاب، جانور
Getty Images

ان علاقوں میں جو زمیندار گھرانے ہیں انھوں نے تو اپنے جانور محفوظ مقامات پر منتقل کر لیے ہیں لیکن اکثریت ابھی بھی زندہ بچ جانے والے جانوروں کے ساتھ اپنے علاقے میں ہی موجود ہے۔

ان علاقوں میں جہاں لوگوں کے ہزاروں جانور سیلاب کے پانی میں بہہ گئے تھے ان میں سے متعدد جانوروں کو دوردراز علاقوں میں بچا بھی لیا گیا اور وہاں پر علاقے کے کچھ لوگوں نے پانی میں بہہ کر آنے والے ان جانوروں کو اپنے ڈیروں پر باندھ لیا۔

جانوروں کو ریسکیو کرنے کے بعد ان لوگوں نے اپنے گاؤں کے علاوہ دیگر علاقوں کی مساجد میں اعلانات کروائے کہ فلاں شخص کے ڈیرے پر اتنے جانور کھڑے ہیں اور یہ جانور جس کے بھی ہیں وہ اپنی نشانی بتا کر لے جائیں۔

سمبٹریال کے علاقے بیگو والہ کے رہاشی محمد ممتاز کا کہنا ہے کہ وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور جب دریائے چناب میں سیلاب آیا تو انھوں نے ڈیرے پر کام کرنے والے دیگر افراد کے ساتھ مل کر 100 کے قریب گائے بھینسوں کو پانی سے نکالا جو مختلف علاقوں سے پانی میں بہہ کر آئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’چونکہ ہمارے علاقے میں پانی اتنا زیادہ نہیں آیا تھا اس لیے ہم نے ان بچائے گئے جانوروں کو اپنے ڈیرے پر باندھ دیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ریسکیو کیے گیے تمام جانوروں کو ان کے مالکان نشانیاں بتا کر لے گئے ہیں۔

محمد ممتاز سے جب یہ پوچھا گیا کہ یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ بازیاب ہونے والے جانور ان کے اصل مالکان کے ہی حوالے کیے گئے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب کوئی جانور اپنے مالک کو دیکھ کر خوش ہو کر اونچی آواز نکالتا ہے یا اس کی جانب لپکتا ہے تو یہ سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے کہ جانور کا اصل مالک یہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کسان اپنی گائے بھینسوں کو اپنے بچوں کی طرح پالتا ہے اور جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو دور سے ہی پہچان لیتی ہے اسی طرح کسان اپنے جانور کو اور جانور اپنے مالک کو پہچان لیتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک کسان کا اوڑھنا بچھونا کھیتی باڑی اور جانور ہی ہوتے ہیں جن کو وہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہے۔‘

ایک طرف لوگ سیلاب سے پریشان ہیں تو اس دوران ایسے کچھ گروہوں کے متحرک ہونے کی بھی اطلاعات میں جو ان افراد سے رابطہ کر کے جانور سستے داموں خریدنے کی پیشکش کر رہے ہیں جنھوں نے دریا میں بہہ کر آنے والے جانوروں کو ریسکیو کیا۔

محمد ممتاز کا کہنا ہے کہ ’ایک گائے یا بھینس جو روز دس سے بارہ کلو دودھ دیتی ہے اس کی مارکیٹ میں قیمت تین سے چار لاکھ روپے ہے جبکہ ایسے گروہ، لوگوں کو ایک جانور ایک لاکھ روپے میں فروخت کرنے کا کہہ رہے ہیں۔‘

تاہم نہ صرف محمد ممتاز بلکہ دیگر علاقوں میں بھی جانوروں کو ریسکیو کرنے والوں نے ایسا کرنے سے سختی سے انکار کر دیا اور جانور صرف اصل مالکان ہی کے حوالے کیے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US