بلوچستان: سیاحتی مرکز زیارت کا بازار دو ہفتوں سے بند، سیاح غائب اور شہری محصور

image
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا پرفضا سیاحتی مقام زیارت گزشتہ دو ہفتوں سے شدید کشیدگی اور غیرمعمولی ویرانی کی لپیٹ میں ہے۔

انتظامیہ نے 18 اگست سے شہر کے مرکزی بازار اور اطراف کے علاقوں کو مکمل بند کر کے نو گو ایریا قرار دے رکھا ہے جس کے باعث دکانیں، مارکیٹیں، ہوٹل، ریسٹورنٹس اور میڈیکل سٹور تک بند پڑے ہیں۔

علاقے میں معمولات زندگی بری طرح متاثر  ہیں۔ نہ صرف سیاحت رکی ہوئی ہے بلکہ مقامی شہریوں اور دوسرے شہروں سے آئے مزدوروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

کوئٹہ سے شمال مشرق میں تقریباً 130 کلومیٹر دور بلوچستان کا ضلع زیارت اپنی خوبصورتی  اور پرفضا موسم کی وجہ سے سیاحوں میں مقبول ہے۔

یہاں صنوبر کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جنگل اور بانی پاکستان محمد علی جناح سے منسوب قائداعظم ریذیڈنسی واقع ہے۔

گرمیوں میں یہاں کے خوش گوار موسم اور سردیوں میں برفباری کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہر سال ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں مگر اس وقت شہر مکمل سنسان ہے۔

کشیدگی کی وجہ 17 اگست کو زیارت کے علاقے خانہ وازہ میں پشتونوں کے کاکڑ قبیلے کی دو ذیلی شاخوں سنرزئی اور سیدزئی کے درمیان زمین کے تنازع پر ہونے والی جھڑپ ہے جس میں دو افراد مارے گئے۔

اس واقعے کے بعد انتظامیہ نے قبائلی تصادم اور خونریز جھگڑے کے خدشے کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کر دی۔

ضلعی انتظامیہ نے زیارت کے مرکزی بازار سمیت شہر کے پانچ حساس علاقوں کو نوگو ایریا قرار دے کر ہر قسم کے داخلے پر پابندی عائد کی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اب تک 30 سے زائد افراد تھری ایم پی او کے تحت حراست میں لیے جا چکے ہیں۔

انتظامیہ نے قبائلی تصادم اور خونریز جھگڑے کے خدشے کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کر دی (فائل فوٹو: روئٹرز)

مقامی شہری شاہد کاکڑ  نے بتایا کہ زیارت بازار اور اطراف کے علاقے 18 اگست سے مکمل طور پر بند ہیں۔ جب بھی کوئی شہری بازار جانے کی کوشش کرتا ہے تو لیویز اور پولیس اہلکار پکڑ لیتے ہیں۔ ’تمام دکانیں، ہوٹل، میڈیکل سٹورز بند ہیں  حتیٰ کہ تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی بند پڑے ہوئے ۔ لوگ ضروریات زندگی کی خریداری کے لیے پریشان ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال نے لوگوں کی روزمرہ زندگی اجیرن کر دی ہے۔

زیارت کی معیشت زراعت کے ساتھ ساتھ سیاحت اور ہوٹل بزنس پر انحصار کرتی ہے۔ ایک مقامی ہوٹل مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پہلے گرمیوں اور برفباری کے موسم میں ہزاروں سیاح آتے تھے، غیر مقامی مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعات کے بعد پہلے ہی سیاحت کمزور ہوگئی تھی لیکن اب قبائلی جھگڑے کی وجہ سے 15 سولہ دنوں سے ہمارے ہوٹلوں کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ ہمارا واحد ذریعہ روزگار بند ہوچکا ہے۔‘

ڈی سی زیارت کے مطابق بازار کھولنے سے دوبارہ تصادم، جانی نقصان اور  سنہ 2021 جیسی صورتحال کا خطرہ ہے (فوٹو: حیدر ترین، فیس بک)

مقامی صحافی فرحت اللہ  کاکڑ نے بتایا کہ مرکزی بازار کی بندش نے مقامی معیشت کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال سے سب سے زیادہ غیر مقامی لوگ اور دوسرے شہروں سے آنے والے مزدور متاثر ہیں۔

کاکڑ قبیلے کی دو ذیلی شاخوں میں زمین کا یہ تنازع نیا نہیں بلکہ سنہ 1961ء سے چلا آ رہا ہے تاہم بعد ازاں اس تنازع کا تصفیہ کرایا گیا۔جون 2021 میں یہ تنازع اس وقت دوبارہ اٹھا جب ایک فریق زمین کی تقسیم کے لیے نشان لگا رہا تھا تو مخالف گروہ نے مداخلت کی۔ اس دوران فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ جس کے بعد ایک فریق نے زیارت بازار میں مخالف فریق کی 30 دکانوں اور ریسٹ ہاؤسز کو آگ لگا دی تھی۔ اس وقت صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایف سی کو طلب کرنا پڑا تھا۔

بازار جلانے کے واقعہ کے بعد مقامی جرگے نے ایک فریق پر بازار میں داخلے کی پابندی لگائی لیکن چند ہفتوں پہلے اس پابندی کی خلاف ورزی کے بعد صورتحال کشیدہ ہونا شروع ہوئی اور 17 اگست کو پھر  جھگڑا ہوا جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔گزشتہ چار برسوں میں اس تنازعے کے نتیجے میں مجموعی طور پر چار افراد مارے جا چکے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر زیارت ذکاء اللہ درانی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ کرفیو لگا ہوا ہے۔ کرفیو میں تو سکول، ہسپتال اور تمام ادارے بند ہوتے ہیں لیکن فی الحال صرف بازار بند ہے باقی ادارے کھلے ہوئے ہیں۔ان کے مطابق بازار کی بندش اور ہر قسم کے داخلے پر پابندی حفاظتی نقطہ نظر سے لگائی گئی ہے تاکہ مزید جانی نقصان نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ جس فریق کے دو افراد قتل ہوئے ہیں، وہ مشتعل ہے اور بدلہ لینا چاہتا ہے۔ اس لیے بازار کھولنے سے دوبارہ تصادم، جانی نقصان اور  سنہ 2021 جیسی صورتحال کا خطرہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب تک دونوں فریق امن کی یقین دہانی نہیں کراتے مرکزی بازار نہیں کھولا جا سکتا۔

زیارت میں  بانی پاکستان محمد علی جناح سے منسوب قائداعظم ریذیڈنسی واقع ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

ڈپٹی کمشنر نے تسلیم کیا کہ پابندی اور بازار بند ہونے کی وجہ سے سیاحت متاثر ہے کیونکہ سیاح اسی بازار سے خریداری کرتے تھے اور ہوٹل اسی مرکزی بازار میں تھے جہاں سیاح ٹھہرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ فریقین فی الحال اپنے گھروں سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور ایک اور دوسرے بازار سے خریداری کر رہے ہیں جہاں پانیزئی قبیلہ اکثریت میں ہے اور اس نے فریقین کو اپنے علاقے میں جھگڑے سے روکا ہوا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ذکاء اللہ درانی نے مزید بتایا کہ دونوں قبائل کے درمیان جنگ بندی کے لیے مقامی جرگہ کوششیں کر رہا ہے جس کے ساتھ انتظامیہ بھی تعاون کررہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان بھی اس معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور گورنر جعفر خان مندوخیل کی سربراہی میں قبائلی جرگہ تشکیل دینے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US