عالیہ بتاتی ہیں کہ ’گاڑی کا سٹیئرینگ ویل اُن کی پسلیوں میں دھنس گیا تھا۔ اُن کی پسلیاں اور دایاں بازو ٹوٹ گیا، ٹوٹی ہوئی پسلیاں جسم سے باہر نکل آئی تھیں۔‘
حادثے کا شکار بننے والی گاڑی جس میں عالیہ کے شوہر کی ہلاکت ہوئیپاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والی عالیہ (فرضی نام) کی زندگی اُس وقت بدل گئی جب سنہ 2019 میں اُن کے شوہر ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئے۔
عالیہ کے شوہر سوزوکی کمپنی کی مہران گاڑی چلا رہے تھے جب ایک ویگن نے انھیں اوور ٹیک کرنے کی کوشش کی اور حادثہ پیش آیا۔
عالیہ بتاتی ہیں کہ ’گاڑی کا سٹیئرنگ وھیل اُن کی پسلیوں میں دھنس گیا تھا۔ اُن کی پسلیاں اور دایاں بازو ٹوٹ گیا، ٹوٹی ہوئی پسلیاں جسم سے باہر نکل آئی تھیں۔‘
عالیہ ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہیں اور اسی وجہ سے اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ اسلام آباد میں اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
اس حادثے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ ’فروری 2019 میں ہمیں یہ نئی گاڑی ملی تھی جس پر سوار ہو کر ہم اپنے گاؤں پہنچے۔ ہم بہت خوش تھے کہ ہم نئی گاڑی میں جا رہے ہیں۔‘
’میرے شوہر نے مجھے اور بچوں کو گاؤں چھوڑا اور وہ 17 مارچ کو واپس آ رہے تھے۔ میں نے دن تین بجے اُن کے فون پر کال کی تو کسی اجنبی نے اٹھائی اور پوچھا کہ کیا آپ ان کی اہلیہ ہیں۔ فون اٹھانے والے نے بتایا کہ یہ شخص (عالیہ کے شوہر) حادثے میں فوت ہو چکے ہیں۔‘
عالیہ نے حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ ’حادثہ اس قدر شدید تھا کہ ڈرائیونگ سیٹ پیچھے پسنجر سیٹ تک آ چکی تھی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ابتدائی سوگ کے بعد انھوں نے اپنے شوہر کو پیش آئے حادثے پر تحقیق کی اور یہ چیک کیا کہ اگر گاڑی میں حفاظتی اشیا ہوتیں تو کیا اُن کی جان بچ سکتی تھی؟
عالیہ کے مطابق گاڑیوں میں سیفٹی پروٹوکولز کی ریسرچ کی تو ’اُس گاڑی میں مجھے سیٹ بیلٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں ملا۔ اگر اس میں ایئربیگز ہوتے تو شاید وہ بچ جاتے۔‘
عالیہ: ’گاڑی کا سٹیئرینگ ویل اُن کی پسلیوں میں دھنس گیا، اُن کا دایاں بازو ٹوٹ گیا اور ٹوٹی ہوئی پسلیاں جسم سے باہر نکل آئی تھیں‘خیال رہے کہ سوزوکی مہران پاکستان کے نیم متوسط طبقے میں استعمال ہونے والی ایک عام گاڑی ہے جس میں ایئر بیگز نہیں ہیں۔ گذشتہ چند سال سے یہ گاڑی پاکستان میں بننا بند ہو چکی ہے۔
سوزوکی مہران میں کم سے کم حفاظتی فیچرز، جیسے ایئربیگز کی غیر موجودگی، سے متعلق بی بی سی نے سوزوکی کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تاہم اس خبر کی اشاعت تک ہمیں اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ تاہم کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ان کی گاڑیاں غیر محفوظ ہونے کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق ملک میں 74 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ کاریں ہیں جبکہ رجسٹرڈ موٹرسائیکلوں کی تعداد تین کروڑ سے زیادہ ہے۔ لیکن بیشتر گاڑیوں میں بنیادی سیفٹی فیچرز تک موجود نہیں۔
پاکستان میں تین کروڑ موٹر سائیکل اور 74 لاکھ کاریں رجسٹرڈ ہیں جبکہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں سالانہ 30 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیںماہرین کے مطابق پاکستان میں گاڑیوں میں سیفٹی فیچرز عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان، جنوبی ایشیا کے اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں ٹریفک حادثات میں اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں سالانہ تقریباً 30 ہزار افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں۔
اب حکومت اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایک نیا قانون بنا رہی ہے۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا بل منظور کیا ہے جو اب قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی میں زیر بحث ہے۔
اس بل کا مقصد ملک میں گاڑیوں کی انڈسٹری کو بین الاقوامی معیار کے مطابق فعال کرنا ہے۔
’موٹر وہیکل انڈسٹری ڈیولپمنٹ ایکٹ 2025‘ کے نام سے بننے والے اس مجوزہ قانون کے تحت اب ملک میں تیار اور درآمد کی جانے والی تمام گاڑیوں کے لیے کم از کم حفاظتی معیارات کو یقینی بنانے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان نے جن بین الاقوامی سیفٹی معیارات کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اُن کے مطابق سڑک پر چلنے والی ہر گاڑی میں 160 سے زائد سیفٹی فیچرز ہونے چاہییں۔
تاہم آٹو انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بننے والی گاڑیوں میں اس وقت صرف 17 سیفٹی پروٹوکولز نصب کیے جا رہے ہیں۔
اس مجوزہ قانون کے تحت آئندہ تمام حفاظتی ضوابط پر عملدرآمد لازم ہو گا، اور اس کا دائرہ کار مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کے علاوہ بیرون ملک سے درآمد ہونے والی گاڑیوں تک بڑھایا گیا ہے۔
یہ ایکٹ پارلیمان سے منظور ہونے کی صورت میں حفاظتی اور تکنیکی اصولوں کی خلاف ورزی پر تین سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
مجوزہ قانون میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد کوئی بھی گاڑی اس وقت تک فروخت نہیں کی جا سکے گی جب تک وہ نئے قانون کے تحت رجسٹر نہ ہو اور اس کے لیے ’سرٹیفکیٹ آف کانفرمٹی‘ کا اجرا نہ کیا گیا ہو۔ یہ قانون منظور ہونے کی صورت میں خراب گاڑیوں کو واپس نہ بلانے پر وہیکل مینوفیکچررز کو دو سال قید یا کم از کم 50 لاکھ روپے جرمانہ ہو سکے گا۔
تاہم پاکستان میں آٹو انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں 2021 کے بعد سے بننے والی گاڑیوں میں بنیادی حفاظتی انتظامات پہلے ہی موجود ہیں۔
یہ ایکٹ پارلیمان سے منظور ہونے کی صورت میں حفاظتی اور تکنیکی اصولوں کی خلاف ورزی پر تین سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہےبی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسوریز مینوفیکچررز کے سابق چیئرمین عبدالرحمان اعزاز کہتے ہیں کہ 2021 میں منظور ہونے والی پالیسی کے تحت جو 17 انٹرنیشنل سٹینڈرڈز ہیں، وہ گاڑیوں میں پہلے سے موجود ہیں۔
’پاکستان میں بننے والی ہر گاڑی میں یہ 17 سیفٹی فیچرز نصب کیے جاتے ہیں، ان سیفٹی فیچرز میں سیٹ بیلٹس، بریکنگ سسٹم، ٹائر، رمز، ایئربیگز، ونڈ سکرین وغیرہ سمیت تمام فیچرز کے ساتھ بن رہے ہیں۔‘
تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شہریوں میں سیفٹی فیچرز کو استعمال کرنے کا رحجان نہیں ہے۔ ’ہمارا بنیادی حفاظتی سسٹم سیٹ بیلٹ ہے، جو ہر گاڑی میں نصب ہوئی ہے، لیکن حادثات میں جو اموات ہو رہی ہیں، ان میں سے بیشتر پر یہ پتا چلتا ہے کہ سیٹ بیلٹ کو استعمال ہی نہیں کیا گیا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہاں تک کہ تعلیم یافتہ افراد سیٹ بیلٹ باندھنے کی بجائے اُس کے کلپ جعلی ’ٹنگ‘ ڈال دیتے ہیں، یا بیپ ساؤنڈ ختم کروا دیتے ہیں، مگر سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے۔ اگر سیٹ بیلٹ نہیں بندھی ہو گی تو ایئربیگز بھی کام نہیں کریں گے۔‘
اسی بارے میں بی بی سی نےپاک سوزوکی کمپنی، جو 2021 سے قبل سوزوکی مہران بھی تیار کر رہی تھی، کے جنرل منیجر اخلاق احمد سے بھی بات کی۔
اخلاق احمد کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں جو برانڈز اس وقت کام کر رہی ہیں، ان کی تمام گاڑیوں اور پرزہ جات کی انسپیکشن اُن کی لیبز میں ہوتی ہیں۔‘ خیال رہے کہ پاکستان میں اس وقت گاڑیوں کے پرزہ جات کی ٹیسٹنگ کی کوئی لیب موجود نہیں ہے اور یہ گاڑیاں دیگر ممالک میں ان برانڈز کی ٹیسٹنگ لیبز میں بھیجی جاتی ہیں۔
’ہمارا بنیادی حفاظتی سسٹم سیٹ بیلٹ ہے، جو ہر گاڑی میں نصب ہوئی ہے، لیکن حادثات میں جو اموات ہو رہی ہیں، ان میں سے بیشتر پر یہ پتا چلتا ہے کہ سیٹ بیلٹس کو استعمال ہی نہیں کیا گیا‘اخلاق احمد کے مطابق ’یہاں جاپانی، چینی اور کوریا کے برانڈز ہیں اور یہ تمام گاڑیاں انھی تینوں برانڈز کے سٹینڈرڈ کے مطابق بن رہی ہیں۔‘
’ایک ایک چیز کا ٹیسٹ ایپروول، پیرنٹ کمپنی سے ہوتا ہے۔کوئی بھی نیا پارٹ لگائیں تو اس کو تیار کر کے پیرنٹ کمپنی کو بھیجا جاتا ہے اور چھ مہینے اس کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اس کے بعد گاڑی میں یہ پرزہ جات لگا کر پھر اس گاڑی کو بھیجا جاتا ہے اور پھر اس کا ایک یا دو سال تک ٹیسٹ ہوتا ہے اور جب وہ منظور ہو جائے اس کے بعد ہی وہ گاڑی سڑک پر آتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سوزوکی مہران جیسی گاڑیاں جن میں یہ سیفٹی فیچرز نہیں لگ سکتے تھے وہ اب پاکستان میں نہیں بنتی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پراپیگنڈا ہے کہ پاکستان میں بننے والی گاڑیاں انھی کمپنیوں کی دیگر ممالک میں تیار ہونے والی گاڑیوں سے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے کم معیار کی ہیں۔‘
دوسری جانب صارفین اس حکومتی اقدام کو خوش آئند سمجھتے ہیں، مگر عالیہ جیسے کئی خاندانوں کے لیے یہ تبدیلی کافی دیر سے آ رہی ہے اور اس کے نافذ ہونے میں شاید مزید کئی سال لگ جائیں۔
لاکھوں ڈرائیورز کی طرح عالیہ اب بھی سیفٹی فیچرز کے بغیر اُسی گاڑی کو دفتر آنے جانے اور گھر کے کاموں کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایک ورکنگ وومن اور سنگل پیرنٹ ہوں۔ چونکہ گاڑی میری ضرورت تھی، اس لیے میں نے پھر اسی گاڑی کو مرمت کروایا جس میں میرے شوہر کو حادثہ پیش آیا تھا۔ پھر وہی مہران ہے، میں ہوں اور ہماری زندگی چل رہی ہے۔‘