سندھ میں گوگل سکالرشپ پروگرام شروع، ’اثرات کا جائزہ لینا صحافتی برادری کی ذمہ داری ہے‘

image
سندھ حکومت، گوگل نیوز انیشی ایٹو اور ٹیک ویلی کے باہمی اشتراک سے ’ڈیجیٹل جرنلزم سکالرشپ پروگرام‘ کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد جامعات میں زیر تعلیم طلبہ، سرکاری اداروں کے ترجمانوں اور صحافیوں کو ڈیجیٹل دور کی ضروریات سے ہم آہنگ تربیت فراہم کرنا ہے۔

اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں، جس کا آغاز چند ماہ قبل کیا گیا تھا، دعویٰ کیا گیا کہ 500 سے زائد میڈیا فیکلٹی ممبران اور طلبہ کو ڈیجیٹل رپورٹنگ، فیکٹ چیکنگ، اور اے آئی بیسڈ صحافت جیسے موضوعات پر تربیت دی گئی۔

اب دوسرے مرحلے میں ایک ہزار سکالرشپس کا اعلان کیا گیا ہے، جنہیں تین گروپوں پیشہ ور صحافیوں، سرکاری ترجمانوں، اور سرکاری جامعات کے طلبہ میں مساوی طور پر تقسیم کیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم تربیت کے طریقہ کار، مواد کے معیار، اور شفافیت سے متعلق فیصلوں پر سرکاری سطح پر کوئی تفصیلی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق سندھ کو پی آئی ٹی پی ون کی کامیابی پر فخر ہے جس کے تحت 13 ہزار 565 طلبہ کو عالمی معیار کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تربیت دی گئی جو اصل ہدف سے زیادہ تھی۔ ان میں سے 4 ہزار 300 سے زائد گریجویٹس روزگار حاصل کر چکے ہیں جبکہ 300 گوگل کروم بکس بہترین کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو دیے گئے۔

 انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام صرف مہارت کے بارے میں نہیں تھا بلکہ شمولیت کے بارے میں بھی تھا جس میں خواتین اور دیہی سندھ کے طلبہ کی بھرپور شرکت رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی کامیابی کو دیکھتے ہوئے حکومت سندھ نے پی آئی ٹی پی ٹو کے آغاز کا اعلان کیا ہے جس کے لیے ایک ارب 40 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے تحت 35 ہزار طلبہ کو 12 اہم ٹیکنالوجیز میں تربیت دی جائے گی۔ یہ تربیت این ای ڈی یونیورسٹی کراچی، مہران یونیورسٹی جامشورو اور سکھر آئی بی اے یونیورسٹی کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔

میرٹ کے مطابق ایک ہزار 750 کروم بکس نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو دیے جائیں گے جو کُل گریجویٹس کا پانچ فیصد ہوں گے۔ اہلیت کے معیار کو بھی وسیع کیا گیا ہے جس میں میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے طلبہ شامل ہیں جبکہ عمر کی حد 28 سال تک بڑھا دی گئی ہے۔

سینیئر صحافی رفعت سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل صحافت کے لیے گوگل کی شمولیت کو بین الاقوامی سطح پر ایک مؤثر قدم مانا جاتا ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں صحافتی آزادی اور تربیت کے عمل میں شفافیت طویل عرصے سے سوالات کی زد میں رہے ہیں، وہاں ایسے منصوبوں کی کامیابی محض تربیت کے اعلانات سے مشروط نہیں کی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ گوگل نیوز انیشی ایٹو کی جانب سے اس پروگرام کو پاکستان میں متعارف کرانے کی کوشش اگرچہ ایک خوش آئند اقدام کے طور پر پیش کی جا رہی ہے، لیکن اس کے مقاصد، اثرات، اور پائیداری کا جائزہ لینا صحافتی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

رفعت سعید نے کہا کہ ایسے منصوبوں کی کامیابی محض تربیت کے اعلانات سے مشروط نہیں کی جا سکتی (فوٹو: سندھ حکومت)

پروگرام کے منتظمین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ تربیتی مواد عالمی معیار پر مبنی ہوگا اور اس میں جدید صحافتی رجحانات جیسے ڈیٹا جرنلزم، ویری فیکیشن ٹولز، اور آن لائن سکیورٹی کو شامل کیا جائے گا۔ تاہم زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی اکثر سرکاری جامعات میں صحافت کے شعبے وسائل، فیکلٹی اور عملی تربیت کے فقدان کا شکار ہیں۔ اگر انہی جامعات کو بنیادی شراکت دار بنایا جائے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تربیت کا معیار کس حد تک قابل اعتبار ہوگا، اور آیا یہ تربیت صرف اسناد کے حصول تک محدود تو نہیں رہے گی۔

صحافتی حلقوں نے اس منصوبے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے سیکریٹری ریحان خان چشتی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تربیتی پروگرام عموماً شہروں تک محدود رہتے ہیں، اور نچلے درجے پر کام کرنے والے رپورٹرز یا ضلعی صحافی اکثر ایسے مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ان کے مطابق اگر تربیت صرف شہری جامعات اور بڑے اداروں تک محدود رہی تو یہ سکالرشپ صرف چند افراد کو فائدہ دے گا، جبکہ صحافت کا بڑا حصہ آج بھی مقامی سطح پر کام کرنے والے غیر تربیت یافتہ افراد کے کندھوں پر ہے۔

ایک اور اہم پہلو جس پر کم ہی توجہ دی جا رہی ہے وہ تربیت کے بعد کی صورتحال ہے۔ ماضی کے کئی سرکاری اور غیرسرکاری منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ تربیت دینے کے بعد ان تربیت یافتہ افراد کو ملازمت، رہنمائی، یا کسی مربوط نظام میں شامل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں یہ پروگرام وقتی سرگرمیوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ ٹیک ویلی کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تربیت آن لائن اور آف لائن دونوں طریقوں سے جاری رکھی جائے گی، لیکن اس کے موثر نفاذ کے لیے نہ صرف مالیاتی شفافیت بلکہ ادارہ جاتی تعاون بھی درکار ہوگا۔

 

رفعت سعید کا مزید کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ’ڈیجیٹل جرنلزم سکالرشپ پروگرام‘ ایک ایسے وقت میں شروع کیا جا رہا ہے جب

رفعت سعید نے کہا کہ  پاکستانی صحافت شدید مالی، اخلاقی اور ادارہ جاتی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے (فوٹو: اے پی پی)

۔ ایسے میں ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت یقیناً ایک ضرورت ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ پروگرام اپنی موجودگی کو کس طرح وسیع اور دیرپا بناتا ہے۔

ان کے مطابق تربیت صرف سیکھنے کا عمل نہیں بلکہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو معلومات کی سچائی اور عوامی اعتماد کی بحالی سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر اس پروگرام کو صرف نمائش یا حکومتی بیانیے کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا تو اس کے مثبت اثرات محدود رہ جائیں گے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US