کیا پاکستانی نوجوانوں کی تکنیکی مہارتیں عالمی معیار پر پورا اُترتی ہیں؟

image

حکومت پاکستان ہنرمند ورکرز کو بیرونِ ملک بھیجنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے، اور اس سلسلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم دو اہم ادارے نیشنل سکلز یونیورسٹی اور نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ دونوں ادارے نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم اور مہارت فراہم کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل یا سرٹیفیکیشن حاصل کرنے والے طلبہ بالخصوص مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

حالیہ کچھ عرصے کے دوران ان دونوں اداروں سے سینکڑوں طلبہ فارغ التحصیل ہو کر بیرونی ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جا کر آباد ہوئے ہیں اور وہاں اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کی بنیاد پر تکنیکی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان دونوں اداروں کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک کے ساتھ مشترکہ پروگرام بھی چلائے جا رہے ہیں، جن کے تحت یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ ان ملکوں کا رُخ کرتے ہیں۔

اردو نیوز نے اس حوالے سے اپنی اس رپورٹ میں نیشنل سکلز یونیورسٹی جس کا ایک شراکت دار نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن بھی ہے کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار کے ساتھ گفتگو کی۔

ہم نے اُن سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُن کے ادارے میں کون سی ٹیکنیکل تعلیم دی جا رہی ہے اور کیسے اُن کے طلبہ بیرون ملک جا کر کامیابی حاصل کر رہے ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کی یونیورسٹی پاکستان کی وہ واحد یونیورسٹی ہے جو یونیسکو کے ذیلی ادارے یو این ای وی او سی (UNEVOC) کی رکن ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ یونیسکو کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو ووکیشنل تعلیم پر کام کرتا ہے اور پاکستان سے صرف ہمارا ادارہ ہی اس کا حصہ ہے۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں سے ہنر سیکھنے والے طلبہ کی مہارت نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں قائم یونیسکو کے تقریباً 260 مراکز میں باقاعدہ تصدیق شدہ اور عالمی سطح پر قابلِ قبول سمجھی جاتی ہے۔

حکام کے مطابق ’نیوٹیک کی ڈگری یونیسکو کے 260 مراکز اور عالمی سطح پر قابلِ قبول سمجھی جاتی ہے‘ (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

انہوں نے نیشنل سکلز یونیورسٹی میں دی جانے والی تعلیم کے بارے میں بتایا کہ ’یہاں الیکٹریکل انجینیئرنگ، سولر انجینیئرنگ، موبائل فون ٹیکنیشن، سائبر سکیورٹی، ڈومیسٹک ٹیکنیشن، انٹرنیشنل ٹیکنیشن سمیت دیگر کئی کورسز کروائے جاتے ہیں۔‘

’ان کورسز کی مدت عموماً تین سے چھ ماہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پروفیشنل ڈگری پروگرامز بھی پیش کیے جاتے ہیں جنہیں مکمل کرنے کے بعد طلبہ اپنی مہارتوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ ملک بھی موثر انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارے ہاں مکینیکل انجینیئرنگ ٹیکنالوجی کا ایک پروگرام ہے، جس میں طلبہ تین سال پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک سال چین میں گزارتے ہیں، بعدازاں ان طلبہ کو چین میں بھی اپنا کیریئر بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔‘

’ان کی یونیورسٹی اور نیوٹیک کے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک کے ساتھ مشترکہ پروگرامز ہیں، جن کے تحت وہ ممالک بھی طلبہ کی نگرانی کرتے ہیں اور انہیں اس طرح تیار کرتے ہیں کہ وہ وہاں جا کر آسانی سے ملازمت حاصل کر سکیں۔‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار نے ایک خاص پروگرام ’تقامل‘ کی مثال دی جو سعودی حکومت، نیوٹیک اور نیشنل سکلز یونیورسٹی مشترکہ طور پر چلاتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ’ہنر کا ڈپلومہ فراہم کرنے والے ادارے طلبہ کو صحیح معنوں میں تعلیم نہیں دیتے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس پروگرام میں نہ صرف طلبہ کو مانیٹر کیا جاتا ہے بلکہ سعودی حکومت بھی اس عمل کی نگرانی کرتی ہے، اور پھر یہ طلبہ معیار پر پورا اُترنے کے بعد سعودی عرب میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘

تاہم یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بیرونِی ممالک بالخصوص مشرق وسطیٰ کے لیے منتخب ہونے والے ہنرمند ورکرز کا بعدازاں باقاعدہ ٹیسٹ بھی لیا جاتا ہے تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ ان ورکر کے پاس واقعی مطلوبہ مہارت موجود ہے بھی یا نہیں۔ 

اردو نیوز نے اس حوالے سے امیگریشن کے ماہر اور ہنرمند ورکرز بیرونِ ملک بھجوانے والے میجر ریٹائرڈ بیرسٹر ساجد مجید سے بھی رابطہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ چاہے مشرق وسطیٰ ہو، یورپ یا امریکہ، یہ سب ہنرمند ورکرز کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور پاکستانی ورکرز ان ممالک میں ملازمت کے حصول کے لیے جاتے بھی ہیں۔‘ 

تاہم انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ’پاکستان میں ہنر کے حوالے سے ڈپلومہ یا سرٹیفیکیٹ فراہم کرنے والے ادارے طلبہ سے پیسے تو لیتے ہیں لیکن انہیں درست معنوں میں تعلیم نہیں دیتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب ایسے سرٹیفیکیٹ ہولڈر بیرون ملک جاتے ہیں تو وہ پاکستان کے مثبت امیج کو فروغ دینے کے بجائے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔‘

’وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کو خود اس بات کی مکمل نگرانی کرنی چاہیے کہ جو ادارے اس طرح کے ڈپلومے فراہم کر رہے ہیں، وہ خود ٹیسٹ لے کر یہ یقینی بنائیں کہ مہارت واقعی ورکرز کو منتقل ہو رہی ہے یا نہیں۔‘


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US