کرپٹو کرنسی کے فروغ کی حکومتی کوششیں، کیا لائسنس لینے کا عمل آسان ہے؟

image
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملک میں کرپٹو کرنسی کے فروغ کے لیے حالیہ عرصے کے دوران چند بڑے اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے ماضی کے برعکس کرپٹو کرنسی کو ریگولرائز کیا ہے اور اس شعبے کو باقاعدہ قانونی حیثیت دی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان نے ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی ہے جو ملک میں کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل اثاثوں کی نگرانی اور لائسنسنگ کی ذمہ دار ہے۔

اس اتھارٹی کے تحت اگر آپ پاکستان میں کرپٹو کرنسی سے متعلق کام کرنا چاہتے ہیں یا کسی کمپنی کا لائسنس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے حکومت سے لائسنس لینا ضروری ہے۔ لائسنس کے حصول کے لیے آپ کو کمپنی کی رجسٹریشن، آپریشنل صلاحیت اور تعمیل (کمپلائنس) کے فریم ورک کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔

اس حوالے سے پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے لیے کچھ ضروری دستاویزات کے ساتھ درخواست جمع کروانی پڑتی ہے، جس میں آپ کا کاروباری منصوبہ، آپ کی جانب سے فراہم کی جانے والی خدمات اور اس کا مالیاتی پہلو شامل ہوتا ہے۔

مزید برآں، پاکستان ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی سے لائسنس کے حصول کے بعد آپ کو لائسنس کی باقاعدہ تعمیل اور دیگر ذمہ داریوں کو پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے پاکستان کرپٹو کونسل بھی تشکیل دی ہے، جس کا مقصد کرپٹو کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے حکومتی حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔ اس کونسل کے چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ ہیں۔

پاکستان نے سٹریٹیجک بٹ کوائن ریزرو قائم کرنے کا بھی ارادہ کیا ہے تاکہ ملک میں بٹ کوائن کی ملکیت اور استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔

حکومت نے تقریباً دو ہزار میگا واٹ بجلی کرپٹو مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے مخصوص کی ہے تاکہ مائننگ کے دوران بجلی کے شارٹ فال یا غیرقانونی استعمال کو روکا جا سکے۔

اردو نیوز نے اس حوالے سے کرپٹو کرنسی کے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا اب تک کے حکومتی اقدامات پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں اور کیا کرپٹو کے حوالے سے لائسنس لینے کا عمل آسان بنایا گیا ہے؟

کرپٹو کرنسی کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اب تک کرپٹو کے فروغ کے لیے کیے گئے اقدامات کافی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ لائسنس کے اجرا سے متعلق بھی یہ ابہام موجود ہے کہ اصل میں لائسنس کون جاری کرے گا اور کس کا کیا کردار ہو گا۔ حکومت کی جانب سے ابھی بہت سی چیزیں واضح ہونا باقی ہے۔

وفاقی حکومت نے پاکستان کرپٹو کونسل تشکیل دی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان میں سنہ 2016 سے کرپٹو کرنسی پر کام کرنے والے اور دبئی میں دنیا کے پہلے پرائیویٹ ایکویٹی فنڈ اور بلاک چین ٹوکن ایکسچینج کے سابق ایڈوائزر محمد ہارون نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت تک پاکستان میں کرپٹو کے حوالے سے ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہے، جبکہ دوسری جانب حکومت نے کرپٹو کونسل بھی تشکیل دی ہے۔ لیکن اب تک کے حکومتی اقدامات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ کرپٹو کرنسی سے جڑے معاملات کو آئندہ کس سمت میں لے جایا جائے گا اور کون اس کا نگران ادارہ ہو گا۔

انہوں نے لائسنس کے اجرا کے حوالے سے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ آیا ریگولیٹری اتھارٹی لائسنس جاری کرے گی یا اس میں سٹیٹ بینک کا بھی کردار ہوگا، کیونکہ اس میں مالیاتی امور شامل ہیں جو سٹیٹ بینک کی نگرانی میں آتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی واضح نہیں کہ لائسنس مکمل طور پر کون جاری کرے گا۔

محمد ہارون کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے جو ریگولیٹری فریم ورک تیار ہو رہا ہے، اس کا مکمل ہونا ضروری ہے تاکہ وہ باقاعدہ اپنا کام شروع کر سکے۔ اس کے علاوہ ’ورچوئل ایسٹ ایکٹ‘ پر بھی ابھی صدرِ مملکت کی دستخط شدہ کاپی سامنے نہیں آئی، اس لیے ضروری ہے کہ اسے بھی جلد از جلد حتمی شکل دی جائے تاکہ اس حوالے سے بڑی پیش رفت ممکن ہو سکے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک پاکستان میں صرف بلاک چین مائننگ کے لیے ایک کمپنی کو لائسنس ملا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی کمپنی کو لائسنس جاری نہیں کیا گیا، اور اس عمل میں کئی پیچیدگیاں موجود ہیں جنہیں حل کرنا ہو گا۔

حکومت نے تقریباً دو ہزار میگا واٹ بجلی کرپٹو مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے مخصوص کی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

محمد ہارون کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً اڑھائی کروڑ کرپٹو صارفین موجود ہیں، جو ایک بہت بڑی انڈسٹری کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے مکمل وضاحت کے ساتھ آگے بڑھے اور چیزوں کو آسان بنائے تاکہ ملک میں کرپٹو کرنسی کا فروغ ممکن ہو سکے۔

اسی طرح امریکہ میں مقیم اور ورچوئل ایسٹ سروسز سمیت دیگر مالیاتی قوانین پر گہری نظر رکھنے والے کرپٹو کے ماہر عبدالرؤوف شکوری کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت کو کرپٹو کرنسی کے فروغ کے لیے واضح قوانین بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ اس شعبے میں آنے والا ایک عام نوجوان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے۔

انہوں نے لائسنس کے حوالے سے بتایا کہ موجودہ قانون کے تحت جو تقاضے ہیں، ان پر عام شخص پورا نہیں اتر سکتا۔ اس لیے حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہیے جس کے تحت کوئی بھی کرپٹو پر کام کرنے والا شخص فائدہ اٹھا سکے، اور ایک عام فرد جو مہارت رکھتا ہے اور اس شعبے میں آنا چاہتا ہے، اس کے لیے بھی یہ عمل آسان ہو۔

عبدالرؤوف نے ایک اور اہم پہلو پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کرپٹو کرنسی میں صارفین کے تحفظ (کنزیومر پروٹیکشن) کو بہت اہمیت دینی چاہیے۔ ابھی جو آرڈیننس کے ذریعے لائحہ عمل متعارف کروایا گیا ہے، اس میں اس پہلو کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ جب تک صارفین کی سکیورٹی یقینی نہیں ہو گی، اس حوالے سے عوام کے خدشات برقرار رہیں گے۔

عبدالرؤوف شکوری نے کہا کہ حکومت کو کرپٹو کرنسی کے فروغ کے لیے واضح قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کے مطابق منی لانڈرنگ کے قوانین کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے ذریعے کسی غیرقانونی مالیاتی سرگرمی کو فروغ نہ مل سکے۔

عبدالرؤوف شکوری کا کہنا تھا کہ حکومت نے کرپٹو کی ٹیکسیشن کے حوالے سے فی الحال کہا ہے کہ سنہ 2000 کے آرڈیننس کے تحت اسے چلایا جائے گا، لیکن اس میں کوئی وضاحت موجود نہیں کہ کرپٹو پر ٹیکسیشن کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ اس لیے حکومت کو اس معاملے پر الگ سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US