’خاندان کا فخر‘ خیبر پختونخوا کی نائب تحصیلدار لبنیٰ حلیم

image
زمین کی ملکیت، وراثتی حقوق، یا زرعی ٹیکس اور آبیانے کی وصولی جیسے معاملات ماضی میں ہمیشہ مرد افسران کے کام سمجھے جاتے تاہم حالیہ برسوں میں صوبائی حکومت نے خواتین کی بطور تحصیلدار اور نائب تحصیلدار تعیناتی کی ہے اور اس سوچ کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔

لبنیٰ حلیم خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی نائب تحصیلدار ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کرنے والی یہ نائب تحصیلدار گزشتہ پانچ برس سے بورڈ آف ریوینیو اینڈ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

سنہ 2018 میں خیبر پختونخوا میں پہلی مرتبہ تحصیلدار اور نائب تحصیلدار خواتین سرکاری دفاتر اور فیلڈ میں معاملات نمٹاتے ہوئے نظر آئیں۔

جب لبنیٰ حلیم کے دفتر میں زمین کی ملکیت سے متعلق شکایات، وراثتی حقوق یا کسی مقدمے کے حوالے سے کوئی شہری قدم رکھتا ہے یا فیلڈ میں زرعی ٹیکس اور آبیانے کی وصولی کے دوران لوگوں کی نظر ان پر پڑتی ہے تو حیرت کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔

ان کے خاندان کے لیے بھی تحصیلدار کی ملازمت مردوں کی ملازمت سمجھی جاتی تھی لیکن ان کے والد نے انہیں سپورٹ کیا۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب یہ نوکری شروع کی تو میری فیملی کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا۔ تو جب کچھ عرصے میں انہوں نے مجھے کام کرتے دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ خواتین یہ کام کر سکتی ہیں۔ میرے خاندان کو فخر ہے کہ ہماری بیٹی تحصیلدار ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جب ملازمت کے آغاز میں انہوں نے زمینوں کے دو مقدمات حل کیے تو انہیں اپنی صلاحیت کا اندازہ ہوا کہ کام مرد اور خواتین دونوں کر سکتے ہیں۔

ماضی مین زمینوں اور ٹیکس وصولی کے معاملات مردوں کے کام سمجھے جاتے تھے۔ (فوٹو: محکمۂ ریوینیو)

لبنیٰ حلیم نے ایک کیس کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی وہ اس علاقے سے گزرتی ہیں تو انہیں یہ خیال آتا ہے کہ انہوں نے وہاں کے مکینوں کو ان کا حق دیا۔

’ریگی ایک مشکل اور پیچیدہ علاقہ ہے جہاں ایک ڈاکٹر صاحب کی زمین پر کسی نے ناجائز قبضہ کیا ہوا تھا اور وہ ریٹائرمنٹ کے قریب تھے اور وہ وہاں گھر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن قابض افراد انہیں گھر تعمیر نہیں کرنے دے رہے تھے۔ ہم نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا۔ متعلقہ تھانوں کو مطلع کیا اور انکروچمنٹ کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اس کارروائی کے دوران ہم نے وہاں 60 کنال زمین واگزار کرائی اور اصل مالکان کے حوالے کی۔ اب اس واقعے کو چار سال گزر چکے ہیں۔ لوگ اب وہاں گھر بھی بنا چکے ہیں۔‘

پشاور کی نائب تحصیلدار لبنیٰ حلیم نے بتایا وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو ایڈمنسٹریشن میں لانا چاہیے کیونکہ جب عام خواتین دفتروں میں اپنی جیسی خواتین افسران دیکھتی ہیں تو وہ اعتماد محسوس کرتی ہیں۔

’صرف خواتین افسران ہی نہیں بلکہ خواتین سٹامپ وینڈرز اور خواتین وکلا کو بھی اس نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انہیں سٹامپ وینڈر کے لائسنس دیے جائیں۔ اگر کچھ خواتین رکاوٹوں کی وجہ سے تحصیل دفاتر آنے سے ہچکچاتی ہیں تو جب وہ دیکھیں گی کہ وہاں ان جیسی خواتین موجود ہیں تو نہ صرف وہ خود آئیں گی بلکہ اپنے حقوق کے بارے میں ان کو جاننے کا موقع ملے گا اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ سٹامپ پیپر پر کیا لکھا ہوا ہے۔‘

فی الحال خیبر پختونخوا میں آٹھ تحصیلدار اور دس نائب تحصیلدار خواتین کام کر رہی ہیں۔

ہمایوں اخوند کے مطابق خواتین افسران فیلڈ میں موجود ہوں گی تو خواتین کے مسائل بہتر سے سمجھ سکیں گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ریونیو امور کی تربیت دینے والے ٹرینر اور محکمۂ مال کے تجربہ کار افسر ہمایوں اخوند بھی لبنیٰ حلیم سے متفق ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عام خواتین کے مسائل کے حل کے لیے نہ صرف فیلڈ بلکہ دفاتر میں خواتین تحصیلداروں کی موجودگی ضروری ہے۔

’اگر خواتین افسران فیلڈ میں موجود ہوں گی تو وہ ان عام خواتین کے مسائل بہتر سے سمجھ سکیں گی جو پٹواری، سروس ڈیلیوری سینٹر یا دیگر زمین سے متعلقہ معاملات میں مدد کے لیے آتی ہیں، مرد افسر کے مقابلے میں خاتون افسر زیادہ اچھے سے ان مسائل کو سن کر اور حل کر سکے گی۔‘

خواتین کے حقوق کے کارکنان کے مطابق قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا کے ساتھ ضم ہونے کے بعد وہاں لینڈ سیٹلمنٹ کا عمل جاری ہے، اس کے لیے وہاں خواتین کے وراثتی حقوق کی حفاظت کے لیے خواتین افسران کو بھیجا جائے۔

خیبر پختونخوا میں خواتین کو اکثر وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ خواتین نہ صرف اپنا حق لینے سے ہچکچاتی ہیں بلکہ اگر کوئی مرد رشتہ دار اپنی بہن یا بیٹی کو زمین دیتا بھی ہے تو وہ اسے بطور وراثت تسلیم کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ یہ ’آپ کا دوپٹہ ‘ یا ’یہ چادر ہے۔‘

قبائلی اضلاع میں لینڈ سیٹلمنٹ کا عمل جاری ہے۔ (فوٹو: محکمۂ ریونیو)

پشاور ہائیکورٹ کے وکیل واحد اللہ خان سدوزئی سمجھتے ہیں خواتین تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کی موجودگی سے پردے دار خواتین کو آسانی ہوگی اور ان کی شناخت بھی آسانی سے ہو سکے گی کیونکہ اکثر خواتین پردے کی وجہ سے مرد افسران کے سامنے پیش نہیں ہو سکتیں۔

’جب مشترکہ زمین کی خرید و فروخت ہوتی ہے تو اکثر خواتین خود پیش نہیں ہوتیں۔ ان کی جگہ ان کے بھائی، یا شوہر آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ’فلاں خاتون کی شناخت‘ پر یہ معاملہ کر رہے ہیں۔ ان کی زبانی تصدیق پر ہی زمین کی ملکیت کا اندراج کر دیا جاتا ہے۔ بعد میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون کے اس معاملے کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر خواتین تحصیلدار ہوں گے تو اس سے خواتین کے جائیداد میں حق کی حفاظت ہوگی، فراڈ اور جعلسازی کے امکانات کم ہوں گے، خواتین کو خود مختار بنانے میں مدد ملے گی اور سماجی دباؤ یا غلط نمائندگی سے بچا جا سکے گا۔‘


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US