بلوچستان اسمبلی نے انسداد دہشتگردی سے متعلق ایک خصوصی قانون منظور کر لیا ہے جس کے تحت صوبے میں دہشتگردی کے مخصوص مقدمات اب عام عدالتوں کی بجائے ایک خفیہ اور خصوصی عدالتی نظام کے تحت چلائے جائیں گے۔اس نظام میں ججوں، وکلا، گواہوں اور مقدمے سے متعلق دیگر افراد کی شناخت کو چھپایا جائے گا جبکہ گواہوں کو کوڈ یا علامتی نام دیے جائیں گے۔ضرورت پڑنے پر مقدمات کی سماعت عدالتوں کی بجائے جیل اور مخصوص مقامات سے ورچوئل طریقے اور الیکٹرانک ذرائع سے بھی ہو سکے گی جبکہ شناخت چھپانے کے لیے آواز بدلنے کی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جا سکے گا۔انسداد دہشت گردی بلوچستان ترمیمی ایکٹ 2026 کے نام سے یہ قانون بدھ کو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی سیکریٹری زرین مگسی نے اسمبلی میں پیش کیا جس کی ایوان میں صرف گوادر سے تعلق رکھنے والے ’حق دو تحریک‘ کے رکن اور جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا ہدایت الرحمان نے مخالفت کی تاہم حکومتی ارکان کی کثرت رائے سے اسے منظور کر لیا گیا۔اس دوران اپوزیشن جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان غیرحاضر تھے۔مولانا ہدایت الرحمان نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران الزام لگایا کہ ’اپوزیشن ارکان اسمبلی اجلاس سے پہلے وزیراعلیٰ کے چیمبر میں موجود تھے لیکن ایوان میں نہیں آئے مجھے اس پر حیرت ہے۔‘مولانا ہدایت الرحمان نے ایوان میں اپنے خطاب میں کہا کہ یہ قانون انصاف کے اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وٹس ایپ کے ذریعے فیصلے سنائے جائیں گے۔ اب ایسا پویشدہ عدالتی نظام ہوگا جہاں نہ وکیل کا پتہ ہوگا، نہ جج کا اور نہ گواہ کا۔ ایسے میں اگر کوئی دشمنی کی بنیاد پر جھوٹی گواہی دے تو ملزم اپنی صفائی کیسے دے گا؟انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کا پرانا قانون 1997 میں بنا تھا لیکن وہ دہشت گردوں سے زیادہ سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال ہوا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’ہم پر بھی مقدمات بنائے گئے، کیا ہم دہشت گرد تھے؟‘مولانا ہدایت الرحمان نے مزید کہا کہ سخت قوانین بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں دہشتگردی کے اصل اسباب کو سمجھنا اور ان کا تدارک کرنا زیادہ ضروری ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے مولانا ہدایت الرحمان کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کسی سیاسی کارکن کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ یہ قانون قتل کے عام مقدمات وغیرہ کے لیے نہیں صرف دہشت گردوں کے لیے ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ججوں، وکلا اور گواہوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ سے عدالتی معاملات متاثر ہوتے رہے ہیں۔
وزیراعلٰی کے مطابق بلوچستان کے غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی قوانین کی ضرورت ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد لوگوں کو اغوا کر کے اپنے ساتھیوں کو رہا کروانا چاہتے ہیں تو وہ ججز، وکلا اور گواہوں کو کیسے چھوڑیں گے؟ ’کیا ہم نے اپنے ججز، پراسیکیوٹرز اور گواہوں کو کو تحفظ فراہم نہیں کرنا؟ یہ قانون انہی کی حفاظت کے لیے ہے۔‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ 2009 میں نصیرآباد میں ایک جج کے گھر پر دستی بم حملے کے بعد چھ دن میں 60 کے قریب دہشت گرد بری ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے گوادر میں اپنے گاؤں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے آٹھ مزدور قتل کیے گئے مگر ان کے گاؤں کے کسی شخص نے گواہی نہیں دی۔ سکیورٹی فورسز نے اس واقعہ میں ملوث ملزم کو ایک دن کے اندر گرفتار کرلیا مگر تین مہینے تک جج صاحب پیشی کے لیے تیار نہیں ہوئے۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ دہشتگردی ایک دن سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ہر گھر تک پھیل جائے گی۔ ’آج جو لاشیں اٹھارہے ہیں آپ ان سے پوچھیں۔ جب تک پارلیمنٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لیڈ نہیں لے گی اور قانون سازی نہیں کرے گی تب تک دہشتگردی کی اس جنگ کو جیتا نہیں جا سکتا۔‘ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی قوانین کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے حالات میں یہ فیس لیس عدالت بہت اہم ہے۔وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ ایسی قانون سازی دنیا میں نئی نہیں۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک نے بھی دہشتگردی کے واقعات کے بعد سخت قوانین بنائے، فرانس نے تو ایک دن کے اندر قانون بنایا۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے لاپتہ افراد کے مسئلے پر سیاست کی لیکن موجودہ حکومت قوانین بنا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ سے مشاورت کے بعد نئی اتھارٹی کے افسر کا تقرر ہوگا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بلوچستان میں نمائندے حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس قانون پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ آئین میں پاکستان کے ہر شہری کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا ہے، اس قانون میں یہ حق محدود کر دیا گیا ہے اس لیے یہ آئین سے متصادم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے ہی مفصل ضابطہ فوجداری، پولیس ایکٹ، سول پروسیجر کوڈ موجود ہیں جن کے تحت ایف آئی آر، تفتیش اور عدالتی کارروائیاں چلتی ہیں۔ یہ نیا قانون ان پرانے قوانین سے بھی متصادم ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح کی قانون سازی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو سزا دینے کی مخالفت کوئی نہیں کرے گا لیکن ایسے قوانین کے غلط استعمال کا خدشہ رہتا ہے۔ ’ہم نے پہلے بھی دیکھا کہ انسداد دہشتگردی کے قوانین سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کے خلاف استعمال ہوئے۔‘نئے قانون میں کیا اہم نکات ہیں؟یہ قانون انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 میں نئی دفعہ 21AAA شامل کر کے بنایا گیا ہے جسے ’بعض مقدمات کی سماعت سے متعلق خصوصی احکام‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس دفعہ کو دیگر تمام نافذ قوانین پر بالادستی حاصل ہو گی۔قانون کے مطابق صوبائی حکومت گریڈ 21 یا مساوی افسر پر مشتمل اتھارٹی قائم کرے گی جو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ سے مشاورت، غیرمعمولی حفاظتی انتظامات کے متقاضی مقدمات کے انتخاب اور ان مقدمات کو مخصوص ججوں کو تفویض کرنے اور حکومت بلوچستان کے ساتھ مستقل رابطے کا ذمہ دار ہوگا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بلوچستان میں نمائندے کے مطابق قوانین کا غلط استعمال ماضی میں بھی ہوا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
اتھارٹی کے افسر کا نام، تقرری اور کوائف بھی خفیہ رکھے جائیں گے اور سرکاری گزٹ میں بھی شائع نہیں کیا جائے گا۔ ان معلومات تک صرف چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کو رسائی ہو گی۔
نئے قانون کے مطابق اگر دہشتگردی کے کسی مقدمے میں ججوں، وکلا، گواہوں یا دیگر متعلقہ افراد کو غیرمعمولی تحفظ درکار ہو تو چیف جسٹس بلوچستان تین ججوں پر مشتمل پینل تشکیل دیں گے۔ ان میں سے ایک جج کو اتھارٹی مقدمہ سننے کے لیے نامزد کرے گی۔ اسی طرح پانچ سرکاری وکلا کا پینل بنایا جائے گا جن میں سے ایک کو مقدمے کی پیروی کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ججوں، سرکاری اور صفائی کے وکلا، گواہوں اور متعلقہ افراد کی اصل شناخت پوشیدہ رکھی جائے گی۔ ریکارڈ میں صرف عہدے یا سرکاری عنوان درج ہوں گے جبکہ گواہوں کو خصوصی کوڈ یا علامتی شناخت دی جائے گی۔ عدالتی احکامات بھی پوشیدہ شناخت کے ساتھ دستخط ہوں گے، اس کار یکارڈ سیل کر کے صرف چیف جسٹس اور اتھارٹی کے پاس محفوظ ہوگا۔مخصوص مقدمات کی کارروائی ویڈیو کانفرنسنگ، آڈیو و ویڈیو ریکارڈنگ جیسے جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع کے ساتھ بھی کی جا سکے گی۔ جبکہ شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے آواز بدلنے کی ٹیکنالوجی بھی استعمال میں لائی جا سکے گی۔ سماعت صرف محفوظ احاطے میں ہوگی جہاں صرف متعلقہ افراد کو رسائی ہو گی۔قانون میں یہ گنجائش میں رکھی گئی ہے کہ جہاں ججوں، وکلا یا گواہوں کی شناخت چھپانا ضروری ہو وہاں سماعت ویڈیو لنک کے ذریعے روایتی عدالت کی بجائے الگ مقام سے بھی کی جا سکے گی۔ اسی طرح اگر تحفظ یا لاجسٹک رکاوٹوں کی وجہ سے ملزم کی پیشی مشکل ہو تو سماعت جیل یا کسی محفوظ مقام سے جدید ورچوئل نظام کے ذریعے کی جا سکے گی۔
بلوچستان کے وزیراعلٰی نے کہا کہ دہشتگردوں سے ججوں، وکلا اور گواہوں کو خطرہ رہتا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
نئے قانون کو اپیلوں اور تمام متعلقہ کارروائیوں پر لاگو کیا گیا ہے تاکہ معلومات خفیہ رکھ کر تمام متعلقہ افراد کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
بلوچستان کئی دہائیوں سے شورش اور بدامنی کا شکار ہے۔ حالیہ مہینوں میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔چند ماہ قبل جون 2025 میں بھی بلوچستان اسمبلی نے انسداد دہشتگردی کا ایک اور خصوصی قانون منظور کیا تھا جس کے تحت دہشتگردی، بھتہ خوری یا اغوا برائے تاوان جیسے مقدمات میں ملوث افراد و سہولت کاروں کو 90 دن تک حراستی مراکز میں رکھا جا سکتا ہے۔بدھ کو جس دن انسداد دہشتگردی کا دوسرا خصوصی قانون منظور کیا گیا اسی دن بلوچستان اسمبلی نے سکیورٹی معاملات سے متعلق دو مزید ترمیمی قوانین بھی پاس کیے۔ ایک بلوچستان فرانزک سائنس سے متعلق تھا جبکہ دوسرے قانون میں وفاقی لیویز کو صوبائی میں ضم کرنے کے ساتھ صوبائی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ لیویز فورس کو جب چاہے پولیس فورس میں ضم کر سکے۔