پاکستان میں وسطی پنجاب کے بعد جنوبی پنجاب میں حالیہ سیلاب سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں، جو بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ ریسکیو ہونے کے منتظر بھی ہیں۔ تاہم کئی سیلاب زدگان کا دعویٰ ہے کہ انھیں اپنی جان بچانے اور ریسکیو ہونے کے لیے پرائیویٹ کشتی مالکان کو بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑا۔
فائل فوٹو’'ہم سیلاب میں پھنس گئے تھے۔ میرے ساتھ پانچ جانور اور گھر کے چار افراد تھے۔ ریسکیو کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ کشتی والے نے فی جانور ساٹھ ہزار روپے مانگے، جبکہ چار افراد کے الگ پیسے طلب کیے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ آخرکار میں نے سوچا کہ دو جانور اور کچھ رقم دے کر اپنے باقی تین جانوروں اور گھر والوں کو بچا سکتا ہوں اور پھر میں نے یہی کیا۔‘
پاکستان میں وسطی پنجاب کے بعد جنوبی پنجاب میں حالیہ سیلاب سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں، جو بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ ریسکیو ہونے کے منتظر بھی ہیں۔ تاہم کئی سیلاب زدگان کا دعویٰ ہے کہ انھیں اپنی جان بچانے اور ریسکیو ہونے کے لیے پرائیویٹ کشتی مالکان کو بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑا۔
علی پور کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد ابرار بھی ایسے ہی سیلاب متاثرین میں شامل ہیں جنھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئےمزید بتایا کہ ’ہم نے ریسکیو ہونے کے لیے کشتی والے کو پیسے بھی دیے اور اپنے دو جانور بھی دینے پڑے۔‘
محمد ابرار جیسے درجنوں افراد اس سے ملتی جلتی شکایات کر رہے ہیں۔
صحافی عمر دراز گوندل کئی دنوں سے جنوبی پنجاب میں سیلاب زدہ علاقوں میں کوریج کے لیے موجود ہیں۔ انھوں نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ریسکیو 1122، پی ڈی ایم اے، فوج ، نیوی کے علاوہ فلاحی ادارے اور پرائیوٹ افراد ریسکیو کے کاموں میں شامل ہیں۔
ان کے مطابق ’پرائیوٹ میں دو اقسام کے لوگ شامل ہیں ایک ایسے مخیر حضرات جو لوگوں کی مدد انسانیت کے ناطے کر رہے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو سیلاب زدگان سے پیسے وصول کرکے انھیں ریسکیو کر رہے ہیں۔‘

صحافی عمر دراز گوندل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’لوگوں میں اتنی مایوسی ہے کہ لوگ پیسے دے کر ریسکیو ہونے کو بھی تیار ہیں۔‘
وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’جب سیلاب جنوبی پنجاب میں داخل ہوا تو اس وقت یہاں کشتیاں دستیاب نہیں تھیں جس کی وجہ سے جن کے پاس اپنی ذاتی کشتیاں اور بیڑے تھے انھوں نے فوراً پانی میں اتار دیے اور لوگوں سے پیسے لینے شروع کر دیے۔‘
عمر گوندل کے مطابق ’اس دوران مجھے درجنوں افراد ایسے ملے جنھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہم نے پچاس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے بھی ریسکیو ہونے کے لیے ادا کیے ہیں۔‘
’ایک شخص ایسا تھا جس نے یہ دعویٰ کیا کہ مجھ سے پرائیوٹ کشتی والے نے پچاس ہزار روپے لیے جبکہ آدھے راستے میں ایک شخص نے ملاح کو مجھ سے زیادہ پیسے آفر کیے تو اس نے مجھے وہاں چھوڑ دیا اور اسے لے کر چلا گیا۔‘
’کشتیاں الٹنے کے واقعات میں اب تک گیارہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے نثار ثانی نے بتایا کہ اس وقت پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا ریسکیو آپریشن جاری ہے جس میں تمام اداروں کی کشتیوں اور پرائیوٹ کشتیوں کو ملا کر تقریباً 1200 کشتیاں شامل ہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’کشتی الٹنے کے چار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس میں فوج، ریسکیو اور پرائیوٹ افراد کی کشتیاں الٹی ہیں۔ یہ تمام واقعات جنوبی پنجاب میں ہی پیش آئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں11 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
ان واقعات کے پیچھے وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پی ڈی ایم اے پنجاب کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ پہلا واقعہ بہاولنگر میں پیش آیا جس کی بنیادی وجہ ’اوور لوڈنگ‘ تھی۔
ان کے مطابق ’ریسکیو ہونے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے جب کوئی کشتی جاتی ہے تو لوگ ایک دم سے کشتی پر سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ہمیں چھوڑ نہ جائیں۔ جس کے نتیجے میں کشتی ڈوب جاتی ہے۔‘
’ایک کشتی میں سوار دو عورتوں کو پانی سے ڈر لگتا تھا۔ وہ دریا کے درمیان میں کشتی میں کھڑی ہو گئیں۔ کشتی میں موجود دیگر لوگوں نے انھیں بٹھانے کی کوشش کی تو وہ کشتی اتنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور الٹ گئی۔‘
ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے نثار ثانی نے بتایا کہ ’ایک واقعے میں جب ریسکیو اہلکار لوگوں کو بچانے پہنچے تو لوگوں نے زبردستی ان سے کشتی چھین کر اپنے قبضے میں کرلی اور ان میں اوور لوڈنگ کے ساتھ ساتھ اپنے جانوز بھی چڑھانا شروع کر دیے جس کے نتیجے میں وہ کشتی ڈوب گئی۔‘
’زیادہ تر کشتیوں میں نائٹ آپریشنز اور لائف جیکٹس ناپید‘

کشتی ڈوبنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے صحافی عمر دراز گوندل نے بتایا کہ ’کشتی الٹنے کے زیادہ تر واقعات رات کے اوقات میں پیش آئے ہیں اور زیادہ تر کشتیوں میں نائٹ آپریشنز کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ لائف جیکٹس کی کمی بھی ایسے واقعات کا باعث بنی ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کشتیاں چلانے والے اداروں سمیت پرائیوٹ کشتیوں کے مالکان کے درمیان رابطے کا فقدان ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ ریسکیو کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
’اس وقت پنجاب حکومت نے پنجاب بھر سے کشتیاں جنوبی پنجاب میں بلوا تو لی ہیں لیکن کشتی چلانے والے علاقے سے ناواقف ہیں جس کی وجہ سے بھی ریسکیو آپریشن متاثر ہورہا ہے۔‘
چوری کے لیے بھی کشتیوں کا استعمال
سوشل میڈیا سمیت کئی افراد کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں چوری کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔
صحافی عمر دراز گوندل نے بتایا کہ ’وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات جو اس وقت سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کے ہمراہ جنوبی پنجاب میں موجود ہیں، نے بتایا ہے کہ ایسی دو پرائیوٹ کشتیاں حکومت نے اپنی تحویل میں لی ہیں جو چوری میں ملوث تھیں۔‘
چوری کے واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے ڈائریکٹر آپریشنز پی ڈی ایم اے نثار ثانی نے بتایا کہ ’ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ دیکھتے ہیں کہ علاقہ خالی ہے تو وہاں کشتیوں پر جا کر گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اس کے لیے پولیس نے اپنی پٹرولنگ سخت کی ہے اور ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔‘
یاد رہے کہ ہزاروں افراد جو سیلاب زدہ علاقوں میں اپنے گھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ گھر کا مال چوری ہونے کا خدشہ ہے۔
پرائیوٹ کشتیوں کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پرائیوٹ کشتیوں اور سیلاب زدگان سے پیسے لینے کا معاملہ جب سوشلِ میڈیا پر زیر بحث آیا تو وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور پنجاب حکومت کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا کہ اب حکومت پرائیوٹ کشتی مالکان کو ریگولیٹ کرے گی اور انھیں پیسے لوگوں کے بجائے پنجاب حکومت سے ملیں گے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر آپریشنز پی ڈی ایم اے نثار ثانی نے بتایا کہ ’ہم ہر سال سیلاب آنے سے پہلے تیاری کرتے ہیں کہ حکومتی وسائل کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ لوگوں کے ساتھ مل کر کیسے کام کر سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس سال بھی ہم نے لسٹ تیار کی، پرائیوٹ کشتی مالکان کے ساتھ ایک ریٹ مقرر کیا کہ حکومت آپ کو فی چکر پانچ ہزار روپے اور پٹرول کے پیسے دے گی۔ لیکن جب سیلاب آیا تو ان مالکان نے لالچ کا مظاہرہ کیا اور سیلاب میں پھنسے لوگوں نے بھی پریشانی اور مجبوری کے عالم میں منہ مانگے پیسے دینے شروع کر دیے۔‘
ڈائریکٹر آپریشنز پی ڈی ایم اے نے مزید بتایا کہ اس مرتبہ سیلاب بہت بڑے پیمانے پر آیا ’جس وجہ سے ریسکیو کے تمام وسائل وسطی پنجاب میں زیر استعمال رہے اور پھر وہاں سے جنوبی پنجاب میں منتقل کرنے پڑے۔‘
کشتیوں میں نائٹ آپریشن اور سہولیات کے فقدان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کئی تجاویز زیرِ غور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رات کے اوقات میں چلنے والی کشتیوں میں روشنی کے لیے بجلی درکار ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ کشتیاں زیادہ سے زیادہ دس سے بارہ افراد کا بوجھ اٹھا سکتی ہیں، اگر ان پر جنریٹر بھی رکھا جائے تو ہم کم افراد ریسکیو کر پائیں گے۔‘
ڈائریکٹر آپریشنز پی ڈی ایم اے کے مطابق اب یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ اس مقصد کے لیے چھوٹی فیریز خریدی جائیں، لیکن جہاں ایک فائبر کی کشتی کی قیمت چار لاکھ روپے ہے، وہیں بڑی کشتی پندرہ لاکھ روپے کی پڑتی ہے۔ 'لہٰذ’ ہمیں فیصلہ کرتے وقت ان تمام پہلوؤں کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔‘
بی بی سی سے گفتگو میں ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ ’جنوبی پنجاب میں موجودہ صورتحال صرف کشتیوں کی کمی یا دیگر وسائل کی وجہ سے نہیں، بلکہ بڑی حد تک انتظامیہ کی بروقت تیاری نہ ہونے سے پیدا ہوئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’اگرچہ تمام افسران کو پہلے ہی الرٹ جاری کر دیا گیا تھا، لیکن اس پر خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اسی وجہ سے لوگوں کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل نہیں کیا جا سکا، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں افراد پھنس گئے اور کشتیوں کی قلت سامنے آئی۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فی الحال کوئی واضح پالیسی موجود نہیں اور اس حوالے سے حکمتِ عملی ترتیب دینا ضروری ہے۔