مورخین کے مطابق بندہ نواز گیسو دراز کے ابا و اجداد نے اس وقت ہرات سے ہندوستان کا رخ کیا جب منگولوں نے اسلامی دنیا کو تہ بالا کر دیا تھا۔ ایسے میں ہندوستان کی جانب بہت سے اہل علم اور صوفیا نے ہجرت کی۔
مؤرخین کے مطابق سید محمد حسینی کا سلسلہ نسب 22ویں پشت پر جا کر پیغمبرِ اسلام سے ملتا ہےیوں تو دلی کے اجڑنے اور بسنے کے لاکھوں گواہ رہے ہیں لیکن اِن میں ایک صوفی بزرگ ایسے ہیں جنھوں نے دلی کو نہ صرف دو بار اُجڑتے دیکھا بلکہ اس تاریخ کا حصہ بھی رہے۔ ایک بار محمد بن تغلق کے دارالحکومت کی تبدیلی کے مہلک فیصلے کے وقت اور دوسری بار امیر تیمور کے دلی پر حملے کے بعد۔
ابھی جب وہ محض چھ یا سات سال کے تھے تو سنہ 1327 میں سلطان محمد بن تغلق نے سلطنت کے پایہ تخت (دارالحکومت) کو دہلی سے دیوگری (جسے دولت آباد کا نام دیا گیا) منتقل کرنے کا حکم صادر کیا۔ یہ فیصلہ اس لیے انتہائی مہلک تھا کیونکہ انھوں نے دلی کی ساری آبادی کو بھی دیوگری منتقل ہونے کا حکم دیا تھا۔
بہت سے دلی والوں نے دیوگیری جانے سے انکار کر دیا اور اپنے گھروں میں چھپ گئے۔
معروف سیاح ابن بطوطہ اپنی کتاب ’رحلہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ایسے میں سلطان نے پورے شہر کی تلاشی کا حکم دیا۔ اُن کے سپاہیوں کو دلی کی سڑکوں پر ایک اپاہج اور ایک نابینا شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں ملا۔ ان دونوں کو سلطان کے سامنے پیش کیا گیا جنھیں سخت سزا سنائی گئی، جس کے بعد باقی چھپے ہوئے افراد بھی دیوگری کا رُخ کرنے کے لیے مجبور ہو گئے۔
مؤرخین کے مطابق ’دلی کبھی اتنی خوشحال تھی کہ اس کا موازنہ بغداد اور قاہرہ سے کیا جاتا تھا، لیکن اس شہر کو اس طرح تباہ کیا گیا کہ یہاں کی عمارتوں میں رہنے کے لیے کوئی بلی اور کتا بھی نہیں بچا تھا۔ کئی نسلوں سے دہلی میں رہنے والے لوگوں کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ دیوگیری کے راستے میں ہی بہت سے لوگوں کی موت ہو گئی، یہاں تک کہ دیوگیری پہنچنے والے بھی اپنے شہر دلی سے باہر رہنے کا درد برداشت نہیں کر سکے۔‘
اور یہی وہ حکم تھا جس نے نوخیز سید محمد حسینی کو اپنے والد سید یوسف کے ساتھ دہلی سے دیوگری کے لیے رخت سفر باندھنے پر مجبور کیا، لیکن بہت زیادہ جانی و مالی نقصان کے بعد بادشاہ نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ تاہم محمد حسینی جنھیں بعد میں ’بندہ نواز‘ اور ’گیسو دراز‘ کے نام سے جانا گیا، وہ وہیں مقیم رہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ والد کی وفات کے بعد محمد حسینی نے سنہ 36-1335 میں اپنے خانوادے کے ساتھ واپس دہلی کا رخ کیا جہاں انھوں نے دینی علوم حاصل کیے۔
مؤرخین کے مطابق محمد حسینی کے ابا و اجداد نے اُس وقت ہرات سے ہندوستان کا رُخ کیا تھا جب منگولوں نے اسلامی دنیا کو تہہ و بالا کر دیا تھا۔ ایسے میں ہندوستان کی جانب بہت سے اہل علم اور صوفیا نے ہجرت کی۔
دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ سے اہل علم نے بڑے پیمانے پر ہجرت کی اور ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں میں پھیل گئے۔
امیر تیمور کے حملے کے بعد ہجرت
بندہ نواز گیسو دراز وہ پہلے اہم صوفی عالم ٹھہرے جنھوں نے دکن یعنی جنوبی ہندوستان کا رُخ کیا۔
معین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ دہلی میں کوئی ساٹھ سال سے زیادہ عرصے تک قیام کرنے کے بعد جب وہ تقریباً 80 سال کی عمر کے تھے تو انھوں نے پھر سے دلی سے رخت سفر باندھا اور کئی جگہ قیام کرتے ہوئے بہمنی سلطنت کے فرمانروا سلطان فیروز شاہ بہمن کی دعوت پر گلبرگہ پہنچے جہاں بادشاہ نے اپنے اہلخانہ اور امرا کے ساتھ اُن کا استقبال کیا۔
لیکن یہ وہ وقت تھا جب امیر تیمور نے دہلی کو مقتل گاہ میں تبدیل کر دیا تھا۔
مؤرخ جسٹن مزوری اپنی کتاب ’ٹیمرلین، سورڈ آف اسلام، کنکرر آف دی ورلڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ دہلی پہنچنے سے پہلے راستے میں تیمور نے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو قید کر لیا تھا۔ دہلی پہنچ کر تیمور نے موجودہ دہلی کے نواحی علاقے لونی میں اپنا کیمپ لگایا اور دریائے جمنا کے قریب ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر حالات کا جائزہ لیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس وقت تک آپسی لڑائی کی وجہ سے دلی کی طاقت بہت کم ہو چکی تھی تاہم اس کمزوری کی حالت میں بھی دہلی کے بادشاہ سلطان محمد شاہ نے دس ہزار گھڑ سوار، 25 سے 40 ہزار پیدل اور 120 ہاتھی کے ساتھ تیمور کی فوج کا مقابلہ کیا۔
جسٹن مروزی لکھتے ہیں کہ ’تیمور اور دہلی کے سپاہیوں کے درمیان پہلی جھڑپ اُس وقت ہوئی جب مالو خان کے دستوں نے تیمور کے 700 سپاہیوں پر مشتمل پیش رو دستے پر حملہ کر دیا۔ اس وقت دہلی پر سلطان محمد شاہ کی حکومت تھی لیکن اصل طاقت مالو خان کے ہاتھوں میں تھی۔‘
جسٹن مروزی مزید لکھتے ہیں: ’تیمور اپنی فوج کے پیچھے آنے والے ان قیدیوں کی بغاوت سے اتنا خوفزدہ تھا کہ اس نے ہر ایک قیدی کو ایک ہی جگہ پر قتل کرنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ تیمور کے ساتھ آنے والے مذہبی علما پر بھی یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ان قیدیوں کو قتل کریں۔‘
بہت سے ؤورخین نے اسے ’اسلام کی تاریخ کا سب سے سفاکانہ قتلِ عام‘ کہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دلی میں داخل ہونے کے بعد تیمور کے سپاہیوں نے جو لوٹ مار کا بازار گرم کیا وہ کئی دنوں تک جاری رہا۔
اس دوران دلی ایک بار پھر ویران ہونے لگی اور اسی درمیان سید محمد حسینی نے، جو اب تک ’بندہ نواز گیسو دراز‘ کے لقب سے مشہور ہو چکے تھے، دکن کے لیے کوچ کیا۔ ان کے ساتھ اس سفر میں ان کے بہت سے مرید اور دیگر علماء و مشائخ بھی تھے۔
محمد حسینی کو ’گیسو دراز‘ کا لقب کیسے ملا؟
کہا جاتا ہے کہ محمد حسینی کے والد حضرت نظام الدین کے مریدوں میں شامل تھے۔ لیکن جب محمد حسینی دیوگری سے واپس آئے تو وہ زمانہ اُن کے جانشین اور خلیفہ سید نصیرالدین چراغ دلی کا تھا۔
محمد حسینی نے واپسی پر چراغ دلی کے ہاتھوں پر بیعت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن انھوں نے انھیں پہلے دینی علوم پر دسترس حاصل کرنے کی تلقین کی۔
کتاب ’سیر محمدی‘ کا گیسو دراز کی اولین سوانح میں شمار ہوتا ہے، اِس کے مطابق وہ حضرت امام حسین کے بیٹے امام زین العابدین کی پشت میں آتے ہیں اور اس طرح پیغمبرِ اسلام سے اُن کا سلسلۂ نسب 22 ویں پشت پر جا ملتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب وہ چراغ دلی کے مریدوں کے صف میں شامل ہو گئے، تو چراغ دلی اپنی عمر اور معذوری کی وجہ سے پالکی میں سفر کیا کرتے تھے۔ اور اُن کی پالکی کو کہاروں کے بجائے اُن کے مریدین اٹھاتے تھے۔
’صاحبِ تذکرۂ علمائے ہند‘ کے مطابق محمد حسینی کو ’گیسو دراز‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک دن وہ کچھ لوگوں کے ساتھ اپنے پیر و مرشد خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی پالکی اُٹھا رہے تھے،پالکی اُٹھاتے وقت اُن کے گیسو (بال) جو قدرے لمبے تھے، پالکی میں پھنس گئے۔ انھوں نے شیخ کی تعظیم و ادب اور جذب عشق کی وجہ سے بال کو پالکی سے چھڑانے کی کوشش نہیں کی اور سارا سفر اسی حالت میں طے کیا۔ جب اُن کے پیر و مرشد کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ ان کے حسنِ ادب سے بہت خوش ہوئےاور یہ شعر کہا:
ہر کہ مریدِ سیدِ گیسو دراز شُد
واللہ خلاف نیست آں عشق باز شُد
(ترجمہ: جو بھی لمبے بالوں والے سید کا مرید ہو گیا، خدا کی قسم! وہ عاشق ہو گیا)
اُس کے بعد سے انھیں ’گیسو دراز‘ کے نام سے جانا گیا۔ بہت سے لوگ انھیں ’عشق باز‘ کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے گھرانے میں مردوں میں لمبے بال رکھنے کا رواج تھا جو بہت حد تک اُن کے جانشینوں نے قائم بھی رکھا ہے۔
دہلی سے گلبرگہ کا سفر
بندہ نواز گیسو دراز کے درگاہ پر ایک خاص رسم ’جھیلا‘ کہلاتی ہے جو عرس سے ایک ماہ قبل منعقد ہوتی ہےمعین احمد نظامی بتاتے ہیں کہ جب سنہ 1398 کے آخر میں تیمور کی فوج دہلی کے قریب پہنچی، تو اُس وقت حضرت گیسو دراز کی عمر 80 برس تھی۔ وہ شہر چھوڑ کر دکن کی طرف روانہ ہوئے اور مختلف جگہ قیام کرتے ہوئے بالآخر گلبرگہ میں مقیم ہوئے، جو اُس وقت بہمنی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔
بندہ نواز کی مبینہ کتاب ’معراج العاشقین‘ کی تشریح و تنقید میں ثریا پروین لکھتی ہیں کہ ’آپ نے 7 ربیع الثانی 801 ہجری کو دکن کے لیے کوچ کیا۔ راستے میں گوالیار، بھاندیر، ایرچہ، چندیری، بڑودہ، سلطان پور، دولت آباد اور الند میں قیام فرما۔ جن جن جگہوں پر آپ نے قیام فرمایا وہاں جوق در جوق لوگ آپ کے استقبال کو آئے اور حلقۂ بیعت میں داخل ہوتے اور فیوض و برکات حاصل کرتے۔‘
معین احمد نظامی کہتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے والے چشتی سلسلے کے صوفی بزرگوں کے برخلاف، اہلِ اقتدار سے فاصلے پر نہ رہ سکے۔ بہمنی سلطان فیروز شاہ بہمنی نے اُن کا پُرجوش استقبال کیا اور ان کی خانقاہ کے اخراجات کے لیے چند دیہات وقف کر دیے۔
’لیکن کچھ عرصے بعد ان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی، جو بعد میں سیاسی رنگ اختیار کر گئی۔‘
پروفیسر نظامی کے مطابق سنہ 1416 میں سلطان فیروز شاہ نے اپنے بیٹے حسن خان کو ولیِ عہد مقرر کیا اور حضرت گیسو دراز سے دعا لینے کے لیے بھیجا۔ لیکن انھوں نے بظاہر اس سے گریز کیا اور فرمایا کہ ’اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی احمد خان (جو سلطان کے بھائی تھے) کو سلطان مقرر کر دیا ہے۔‘
معین احمد کے مطابق ’یہ بات سلطان کو ناگوار گزری، اور اُنھوں نے حکم دیا کہ وہ اپنی خانقاہ محل کے قریب سے ہٹا لیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے اطاعت کی اور اُس مقام پر منتقل ہو گئے جہاں آج ان کا مزار واقع ہے۔ بعد ازاں، جب احمد خان تخت نشین ہوئے، تو وہ تاعمر اپنے مرشد گیسو دراز کے شکر گزار رہے اور ان کی مکمل حمایت جاری رکھی۔‘
’اسی احمد شاہ کے حکم سے حضرت گیسو دراز کی قبر پر ایک شاندار عمارت تعمیر کی گئی، جو آج تک کی دکن یعنی جنوبی ہند کی سب سے اہم مسلم زیارت گاہ تصور کی جاتی ہے۔‘
بندہ نواز گیسو دراز نے گلبرگہ میں اسلام، روحانیت، محبت اور انسانیت کا پیغام عام کیا۔ ان کی مجلسوں میں مسلمان، ہندو، امیر غریب، عالم، جاہل سب آتے تھے۔ انھوں نے عربی، فارسی، اور دکنی زبان میں تعلیم دی، اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 100 سے زیادہ تصانیف چھوڑی ہیں۔
مقامی رنگ مقامی زبان، دکنی کے پہلے شاعر
پروفیسر جعفری بتاتے ہیں کہ چشتی یا دوسرے سلسلے کے صوفیا کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مقامی زبان میں لوگوں سے خطاب کرتے تھے اور ان کے ہاں مقامی رنگ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی ان کی خانقاہیں جو اُن کی وفات کے بعد درگاہوں میں تبدیل ہو گئیں لوگوں کے لیے عقیدت کے مراکز بن گئے جہاں کوئی بھی حاضر ہو کر روحانی تسکین حاصل کر سکتا ہے۔
ان کے ساتھ ایک بات عام یہ بھی رہی ہے کہ ان کا شعری ذوق بہت اعلی ہوا کرتا تھا۔ بہت سے صوفیا بذات خود اچھے شاعر تھے۔ چنانچہ بندہ نواز گیسو دراز کو اُردو کے پہلے مصنف اور پہلے نثر نگار ہونے کے علاوہ دکن کے پہلے شاعر ہونے کا بھی شرف و اعزاز حاصل ہے۔
مشہور محقق اور ماہرِ دکنیات نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تحقیقی کتاب ’دکن میں اُردو‘ میں خواجہ بندہ نواز کو دکن کا پہلا شاعر تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’موجودہ تحقیقات کے لحاظ سے خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی گیسو دراز دکن کے پہلے شاعر قرار پاتے ہیں۔‘
درگاہ اور عرس کی روحانیت
بندہ نواز کی وفات 16 ذو القعدہ 825 ہجری (یکم نومبر 1422) کو 100 سال سے زیادہ کی عمر میں ہوا۔ اُن کا مزار موجودہ انڈیا میں ریاست کرناٹک کے گلبرگہ (اب کلبرگی) میں واقع ہے جہاں ہر سال قمری تاریخ کے حساب سے تین روزہ عرس 15، 16 اور 17 ذو القعدہ کو منایا جاتا ہے۔
اس موقع پر دنیا بھر سے لاکھوں لوگ درگاہ کا رُخ کرتے ہیں، اور انسانوں کے اس سیل رواں میں مذہب، فرقہ، اور قومیت کی دیواریں مٹ جاتی ہیں۔
دکن آرکائیو سے تعلق رکھنے والے صبغت خان نے ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے حضرت غریب نواز کے بارے میں ایک دلچسپ بات بتائی۔ انھوں نے کہا کہ ’جب مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر بندہ نواز کی درگاہ میں داخل ہوئے تو انھوں نے بہ آواز بلند یہ شعر کہا: ’نیست کعبہ در دکن، جُز درگاہ گیسو دراز/ بادشاہ دین و دنیا، تا ابد بندانواز‘ جس کا مطلب ہے 'درگاہ گیسو دراز دکن کے لیے کعبہ ہے جہاں دین و دنیا کا ابدی بادشاہ بندنواز ہے۔'
وہاں کی ایک خاص رسم ’جھیلا‘ کہلاتی ہے، جو عرس سے ایک ماہ قبل منعقد ہوتی ہے۔ اس موقع پر ایک ہندو عقیدت مند مشعل لے کر آگے آگے چلتا ہے، اور ایک مسلمان چادر لے کر مزار کی گنبد پر چڑھاتے ہیں۔ درگاہ کی یہ روایت ہندو-مسلم اتحاد اور محبت کی بہترین مثال ہے۔
صندل کا جلوس
مختلف رپورٹس کے مطابق عرس کے موقع پر صندل کے جلوس میں شرکت کے لیے مختلف اضلاع اور پڑوسی ریاستوں سے ہزاروں عقیدت مند درگاہ پر جمع ہوتے ہیں۔
ایک رسمی جلوس (صندل شریف) خصوصی دعا کے بعد پبلک گارڈن سے درگاہ کے احاطے تک نکالا جاتا ہے۔
تین روزہ مذہبی تقریبات کا آغاز خدمت فاتحہ سے ہوتا ہے اس کےبعد قوالی اور سماع کے پروگرام ہوتے ہیں اور پھر تبرک تقسیم کیا جاتا ہے اور پھر محبوب گلشن پبلک گارڈن میں نماز عصر کی ادائیگی کے ساتھ ہی جلوس چل نکلتا ہے۔
صندل لے جانے والا جلوس نماز مغرب ادا کرنے کے لیے سپر مارکیٹ کے علاقے میں واقع مباز مسجد سے گزرتا ہے۔ درگاہ پہنچےسے پہلے اس کا گیارہ سیڑھی (11 زینے) پر استقبال کیا جاتا ہے۔
جلوس میں لائے گئے صندل کا پیسٹ خواجہ بندہ نواز کی قبر پر ملا جاتا ہے۔
معروف مؤرخ رعنا صفوی اپنے آن لائن صفحے پر لکھتی ہیں کہ ’جنوب (ساؤتھ انڈیا) میں میں نے دیکھا کہ زیادہ تر درگاہوں میں صندل کی تقریب ہوتی ہے۔‘
’دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ تمام درگاہوں میں صندل بھی ہیں۔ خلد آباد کے تمام اولیاء کے درباروں میں بھی یہ ہم آہنگی کی ثقافت یہ موجود ہے۔‘
ہم نے اس سے قبل اجمیر کی درگاہ کے متعلق بات کرتے ہوئے سمیرہ سیف سے سُنا تھا کہ انھیں ان کی دادی صندل چٹایا کرتی تھیں۔ شاید بسنت کی رسم کی طرح صندل کی رسم بھی وہاں بعد میں پہنچی ہو۔
رعنا صفوی نے ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’گلبرگہ میں حضرت بندہ نواز گیسو دراز کی درگاہ میں ایک خادم صندل کو پیسنے میں مشغول ہے۔‘
اُن کی خانقاہ میں روزانہ سینکڑوں لوگ روحانی سکون حاصل کرتے، دعا کرواتے اور محبت کی باتیں سُنتے۔ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے بھی احترام سے پیش آتے تھے۔ اُن کے در پر سب کو یکساں محبت اور عزت ملتی تھی۔
قصہ مختصر کہ درگاہ بندہ نواز گیسو دراز صرف ایک مزار نہیں، بلکہ محبت، اخوت، اور وحدت و علم کا استعارہ ہے۔ اُن کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں، اور اُن کا پیغام آنے والی نسلوں کے دلوں کو منور کرتا رہے گا۔
بندنواز کا کہنا تھا کہ کوئی جب تک تمام دنیاوی چیزوں سے فارغ نہ ہو جائے، راہِ سلوک میں قدم نہ رکھے۔ ان کے مطابق حقیقت و طریقت کو شریعت کی ضد نہ سمجھنا چاہیے۔ دل سے حرص و ہوس کو دور کریں اور اگر دور نہ ہو تو اس کے لیے مجاہدہ و ریاضت کرتے رہیں۔ کسی بھی حال میں نام و نمود اور شہرت کے طلبگار نہ بنیں۔ اور بازار صرف شدید ضرورت کے وقت جائیں۔