زیر زمین پناہ گاہیں اور بنکر: معروف ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان اور سائنسدان دنیا کو درپیش ممکنہ بڑی تباہی کی تیاری کر رہے ہیں؟

مارک زکربرگ1400 ایکٹر رقبے پر پھیلے کمپاؤنڈ کی تعمیر کر رہے ہیں جو خوراک اور بجلی میں خودکفیل ہو گا، جبکہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان بھی ایسی زمینوں کی خریداری میں مصروف ہیں جن کے ساتھ تہہ خانے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا یہ دنیا کے امیر ترین افراد کسی ایسی بڑی تباہی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے باقی دنیا واقف نہیں ہے؟
زکربرگ
BBC
اس کمپاؤنڈ کے گِرد چھ فٹ اونچی دیوار ہے تاکہ قریب موجود سٹرک سے اس کے اندر کچھ دکھائی نہ دے

فیس بُک کے بانی مارک زکربرگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے امریکی ریاست ہوائی میں اپنے 1400 ایکٹر رقبے پر پھیلے کمپاؤنڈ کی تعمیر کر رہے ہیں۔

اگرچہ اس پر منصوبے پر کام کرنے والے ہنر مند افراد جیسا کہ بڑھئی اور الیکٹریشن وغیرہ کو ایک معاہدے کے تحت اس وسیع و عریض کمپاونڈ کے بارے میں بات کرنے سے روک دیا گیا ہے، لیکن وائر مگیزین کے مطابق اس کمپاؤنڈ میں ایک شیلٹر یعنی پناہ گاہ بھی ہے جو اس کمپاؤنڈ میں بجلی کی رسد اور خوراک کی فراہمی کے معاملے میں خودکفیل ہو گی، یعنی اس کمپاؤنڈ کا خوراک اور بجلی کے حوالے سے بیرونی دنیا پر دارومدار نہیں ہو گا۔

اس کمپاؤنڈ کے گِرد چھ فٹ اونچی دیوار ہے تاکہ قریب موجود سٹرک سے اس کمپاؤنڈ کے اندر کچھ دکھائی نہ دے۔

یہ کمپاؤنڈ گذشتہ کچھ عرصے سے خبروں میں ہے۔ گذشتہ سال جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ بنکر دنیا کو درپیش کسی بڑی ممکنہ تباہی سے بچنے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے تو انھوں نے سادگی سے جواب دیا ’نہیں۔‘

انھوں نے وضاحت کی کہ اس کمپاؤنڈ میں 5000 ہزار مربع فٹ پر پھیلا زیر زمین رقبہ ’ایک چھوٹی سی پناہ گاہ ہے بالکل ایک بیسمنٹ کی طرح۔‘

زکربرگ کی اس وضاحت کے باوجود افواہوں کا سلسلہ تھما نہیں۔ اس کو ہوا اس وقت بھی ملی جب انھوں نے کیلیفورنیا کے شہر پاؤلو آلٹو کے مضافات میں 11 جائیدادیں خریدیں جن میں 7000 مربع فٹ زیر زمین جگہ بھی ہے۔

اگرچہ اُس جگہ کے بلڈنگ پرمٹ (اجازت نامے) میں اس مقام کو بیسمنٹ یا تہہ خانہ کہا گیا ہے لیکن نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اُن کے ہمسائے اسے بنکر یا ارب پتی شخص کی غار قرار دیتے ہیں۔

تصویر
Bloomberg via Getty Images
زکربرگ نے پالو آلٹو میں جائیدادوں کی خریداری پر 110 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں

ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان کے بنکر اور ’آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس‘ کا خوف

اطلاعات ہیں کہ مارک زکربرگ کے علاوہ دیگر ٹیکنالوجی کپمنیوں کے مالکان بھی ایسی زمینوں کی خریداری میں مصروف ہیں جن کے ساتھ باقاعدہ تہہ خانے یا مشکل صورتحال میں پناہ لینے کی غرض سے بنائی گئی جگہیں ہیں۔

لنکڈ ان کمپنی کے شریک بانی ریڈ ہیفمن نے ماضی میں اپوکلیپس انشورنس کی بات کی تھی۔ یاد رہے کہ اپوکلیپس انشورنس سے مراد دنیا کو درپیش بدترین یا تباہ کن صورتحال سے بچنے کی انشورنس ہے۔

اس سے قبل ریڈ ہیفمن نے نیوزی لینڈ میں گھر بنانے کی بات کی بھی کی تھی۔

سوال یہ ہے کیا یہ امیر ترین افراد کسی جنگ، ماحولیاتی تبدیلی یا پھر کسی اور ایسی تباہی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے باقی دنیا واقف نہیں ہے؟

گذشتہ کچھ برسوں کے دوران آرٹیفیشل انٹیلجنس وہ واحد چیز ہے جو نئے خطرات کی فہرست میں شامل ہوئی ہے۔ کئی افراد کے لیے مصنوعی ذہانت کی تیر رفتار ترقی باعثِ پریشانی ہے۔

سنہ 2023 کے وسط میں سان فرانسسکو کی ایک فرم نے چیٹ جی پی ٹی ریلیز کیا تھا اور اب دنیا کے کروڑوں افراد اسے استعمال کر رہے ہیں۔ کمپنی اس چیٹ بوٹ کو وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے اپڈیٹ بھی کر رہی ہے۔

صحافی کیرن ہؤ کی کتاب کے مطابق چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی سے وابستہ چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور اس بات سے متفق ہیں کہ سائنسدان ’آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس‘ (اے جی آئی) بنانے کے بہت قریب ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جب مشین یا مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کے برابر آ جائے گی۔

انھوں نے لکھا ہے کہ چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور نے اپنے ساتھیوں سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ کمپنی کو (اے جی آئی) کی ریلیز سے قبل اہم افراد کے لیے زیر زمین پناگاہیں بنانی چاہییں۔

یہ اس جانب اشارہ ہے کہ معروف اور بڑے سائنسدان اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے وہ مالکان جو آرٹیفیشل انٹیلجنس پر کام کر رہے ہیں، وہ بظاہر بہت خوفزدہ ہیں کہ نہ جانے ایک دن کیا ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ ’آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس‘ (اے جی آئی) کب آئے گی؟ اور کیا اس کے آنے سے واقعی اتنی بڑی تبدیلی آئے گی کہ عام افراد اس سے خوفزدہ ہو جائیں گے؟

توقع سے جلدی آمد اور خدشات

ایلون مسک
Getty Images
ایلون مسک نے اس منصوبے پر زور دیا جس کے تحت اے آئی انتہائی سستا اور ہر جگہ موجود ہو گا

ٹیک لیڈرز کا کہنا ہے کہ اے جی آئی ناگزیر ہے۔ اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹمین نے سنہ 2024 کے اختتام پر کہا تھا کہ ’یہ کئی افراد کے اندازوں سے بھی پہلے آ جائے گی۔‘

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اے جی آئی کے آنے میں پانچ سے دس سال لگیں گے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اے جی آئی سنہ 2026 تک ریلیز ہو سکتی ہے۔

اس طرح سائنس سے وابستہ افراد کے خیال میں یہ آرٹیفیشل آنٹیلجنس زبردست ٹیکنالوجی ضرور ہے لیکن ’یہ انسانی ذہانت کے قریب ہے۔‘

اے آئی دنیا میں تیزی سے بڑھنے والی ٹیکنالوجی ہے۔ دنیا کی کئی کمپنیاں اے آئی پر کام کر رہی ہیں۔

حال ہی میں مصنف ایرک شمٹ نے اپنی کتاب ’جینیئسس‘ میں لکھا کہ ہنری کسنجر ایک انتہائی طاقتور ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کرتے تھے جو فیصلہ سازی اور قیادت انتہائی موثر انداز میں کر سکے۔

وہ افراد جو اے ایس آئی اور اے جی آئی کے حق میں ہیں وہ اس کے کرشماتی فوائد بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ بیماریوں کے علاج کے لیے طریقے دریافت کرنا، موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام وغیرہ۔

ایلون مسک نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سپر انٹیلیجنٹ اے آئی دنیا کے لیے ’عالمی سطح پر زیادہ آمدن‘ کے دور کا آغاز ہے۔

انھوں اپنے اس منصوبے پر زور دیا جس کے تحت اے آئی انتہائی سستی اور ہر جگہ موجود ہو گی۔

مسک نے کہا کہ ’ہر کسی کو بہترین طبی سہولیات، خوراک، گھر، نقل و حمل کے ذرائع میسر ہوں گے، جو جلد ختم نہ ہوں۔‘

تصویر
Getty Images
سیم آلٹ مین

کیا جنرل آرٹیفیشل انٹیلیجنس دنیا کے لیے حقیقی خطرہ ہے؟

یقیناً یہ ایک خوفناک پہلو ہے۔ کیا اس ٹیکنالوجی کو دہشتگرد ہائی جیک کر سکتے ہیں اور اسے ایک بہت بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، یا اگر وہ (جنرل آرٹیفیشل انٹیلیجنس) خود فیصلہ کر لے کہ انسانیت ہی دنیا کے مسائل کی وجہ ہے اور ہمیں تباہ کر دے؟

ورلڈ وائیڈ ویب کے بانی ٹم برنرز لی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ’اگر یہ آپ سے زیادہ ہوشیار ہے، تو ہمیں اسے اپنے کنٹرول میں رکھنا ہو گا۔ ہمیں وقت آنے پر اسے بند کرنے کے قابل ہونا پڑے گا۔‘

حکومتیں اسے کنٹرول کرنے کے لیے حفاظتی اقدامات کر رہی ہیں۔ امریکہ، جہاں سب سے زیادہ اے آئی کمپنیاں موجود ہیں، وہاں صدر بائیڈن نے سنہ 2023 میں صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا کہ جس کے تحت کمپنیاں حفاظتی ٹیسٹ کے نتائج وفاقی حکومت کو جمع کروائیں گی۔

صدر ٹرمپ نے بعد میں اس صدارتی حکم نامے کو جدت کی راہ میں ’رکاوٹ‘ قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا ہے۔

نیل لارنس کیمبرج یونیورسٹی میں مشین لرننگ کے پروفیسر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک فضول بحث ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس کا تصور اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ آرٹیفیشل جنرل گاڑی کا تصور۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ بالکل ایسے ہے کہ ہم دور کا سفر ہوائی جہاز سے کرتے ہیں۔ ہم کم فاصلوں کے لیے گاڑی استعمال کرتے ہیں، لیکن کیفے ٹیریا تک پیدل چل کر جاتے ہیں۔ ایسی کوئی ایک سواری نہیں ہے جو یہ سب کر سکے۔‘

ایلون مسک کا ماننا ہے کہ ہر کوئی اپنا R2-D2 اور C-3PO چاہے گا
Getty Images

پروفیسر نیل کے مطابق اے جی آئی کے بارے میں بات کرنا توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس جو ٹیکنالوجی (پہلے سے ہی) بنائی گئی ہے، وہ پہلی بار، عام لوگوں کو مشین سے براہ راست بات کرنے کی اجازت دیتی ہے اور ممکنہ طور پر وہ اس سے وہ کام لے سکتے ہیں۔ یہ بالکل غیر معمولی چیز ہے۔‘

اس وقت موجود اے آئی ٹولز کو یہ تربیت دی گئی ہے کہ وہ پہاڑوں سے متعلق اہم ڈیٹا اکٹھا کر سکیں، تبدیلیوں کو تلاش کرنا جیسے ٹیومر وغیرہ کی نشاہندہی کرنا۔

بعض معاملات میں اے ائی نے انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اے آئی سے بنا ماڈل قرون وسطیٰ کی تاریخ کا ماہر ہو سکتا ہے اور اگلے ہی منٹ میں وہ ریاضی کی پیچیدہ مساوات حل کر سکتا ہے۔

کچھ ٹیکنالوجی کمپنیاں کہتی ہیں کہ بعض اوقات انھیں یہ نہیں پتہ ہوتا کہ اے ائی پراڈکٹس کا ردعمل کیا ہو گا۔ میٹا کا کہنا ہے کہ اے آئی میں کچھ ایسے اثار بھی پائے جاتے ہیں جس کی بنیاد پر یہ خود سے اپنے آپ کو بہتر کرتا ہے۔

اگرچہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ مشینیں کتنی ہی ذہین بن جائیں حیاتیاتی طور پر وہ انسانی دماغ سے پیچھے ہیں۔ دماغ میں تقریباً 86 ارب نیوران ہوتے ہیں، جو آرٹیفیشل اٹٹیلجنس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔

انسانی دماغ مسلسل نئی معلومات کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے رُکتا نہیں ہے۔ یہ انسانی ذہانت کا ایک بنیادی حصہ ہے اور لیب میں اس جیسے ماڈل کی نقل ابھی نہیں ہو سکی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US