پاکستانی فوج کا قاری امجد کی ہلاکت کا دعویٰ: مفتی مزاحم کے نام سے مشہور طالبان کمانڈر کون ہیں؟

جمعرات کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ افغانستان سے شدت پسندوں کا ایک گروہ پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور اس دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ٹی ٹی پی کمانڈر قاری امجد عرف مزاحم سمیت چار شدت پسند ہلاک ہو گئے۔

پاکستانی فوج نے قبائلی ضلع باجوڑ میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے اہم کمانڈر سمیت چار جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

جمعرات کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ افغانستان سے شدت پسندوں کا ایک گروہ پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور اس دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ٹی ٹی پی کمانڈر قاری امجد عرف مزاحم سمیت چار شدت پسند ہلاک ہو گئے۔

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ قاری امجد کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کے نائب اور رہبری شوریٰ کے سربراہ تھے۔

پاکستان حکومت نے ان کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔

کالعدم ٹی ٹی پی نے تاحال ان کی ہلاکت کی تردید یا تصدیق نہیں کی۔

قاری امجد عرف مزاحم کون ہیں؟

قاری امجد کا شمار کالعدم مسلح تنظیم کے بااثر کمانڈروں میں ہوتا تھا اور انھیں امریکہ نے بھی دسمبر 2022 میں عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

اس وقت امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ قاری امجد کو ٹی ٹی پی میں بیرون ملک، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں آپریشنز کی ذمہ داری سونپی گئی۔

قاری امجد کا آبائی تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تھا اور پاکستانی فوج اور امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق وہ افغانستان میں موجود تھے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی نے ماضی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ قاری امجد طالبان میں متحرک ہیں مگر وہ اس گروہ میں کوئی زیادہ مقبول شخصیت نہیں ہیں۔

’انھیں ٹی ٹی پی کا نائب امیر تعینات کیا گیا اور اس کے ایک بڑی وجہ ان کا مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق بتایا گیا۔‘

ماضی میں دیر سے مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ قاری امجد نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں ہی حاصل کی تھی اور پھر دیر میں جندول کے ایک مدرسے میں دینی تعلیم کے لیے داخل ہوئے تھے۔ اُن کے والد سرکاری سکول میں استاد تھے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے بتایا کہ اپنی جوانی میں یعنی سال 2007-08 میں قاری امجد اس وقت طالبان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جب اس علاقے میں شدت پسندی عروج پر تھی اور تنظیم میں شمولیت کے بعد انھوں نے شدت پسندی کی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

تاہم اس علاقے میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے قاری امجد سنہ 2010 میں افغانستان چلے گئے تھے اور پھر ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں کہ چند برس بعد قاری امجد واپس پاکستان اپنے علاقے میں آئے تھے تاہم کارروائی کے خوف سے وہ جلد ہی واپس افغانستان کی جانب چلے گئے تھے۔

ایک ذریعے نے بتایا کہ قاری امجد کے ایک بھائی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہو گئے تھے تاہم بی بی سی اس کی باقاعدہ تصدیق نہیں کر سکا۔ مقامی افراد کے مطابق منظر عام سے غائب ہونے یا دوبارہ افغانستان جانے کے بعد ان کا اپنے علاقے سے رابطہ کم رہا۔

طالبان
Getty Images
اپنی جوانی میں یعنی سال 2007-08 میں قاری امجد اس وقت طالبان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جب ان کے علاقے میں شدت پسندی عروج پر تھی

ٹی ٹی پی کے بڑھتے حملے اور پاکستان، افغانستان کشیدگی

پاکستانی حکومت بارہا یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ شدت پسند تنظیم افغانستان کی سر زمین کا استعمال کر کے پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔ افغانستان اس الزام کی بار بار تردید کرتا رہا ہے۔

اپنے تازہ ترین بیان میں پاکستانی فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت پاکستان میں شدت پسندوں کے داخلے کی کوششیں کروا رہی ہے تاکہ تنظیم کی ’اندرونی موجودگی کا تاثر دیا جا سکے اور باجوڑ اور مہمند میں خوارج کے گرتے ہوئے حوصلے کو بلند کیا جا سکے۔‘

خیال رہے پاکستانی حکومت اور ادارے شدت پسندوں کو ان کے ناموں سے نہیں پکارتے بلکہ انھیں ’فتنہ الخوارج‘ کہتے ہیں۔

یہی ٹی ٹی پی رواں مہینے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کا باعث بنی تھی۔اس دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا بھاری جانی و مالی نقصان کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

19 اکتوبر کو یہ جھڑپیں قطر میں ہونے والے ایک جنگ بندی کے معاہدے پر ختم ہوئی تھیں۔

تاہم رواں ہفتے افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان استنبول میں ہونے والا مذاکرات کا دوسرا دور ’بے نتیجہ‘ رہا اور اس موقع پر پاکستانی وزرا کی جانب سے جارحانہ بیانات بھی سامنے آئے۔

بدھ کو کو اپنے ایک طویل بیان میں وزیرِ دفاع نے کہا کہ ’پاکستان واضح کرتا ہے کہ اسے طالبان رجیم کو ختم کرنے یا انھیں غاروں میں چھپنے کے لیے مجبور کرنے میں اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔‘

تاہم پاکستان میں سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ترکی کی درخواست پر مذاکرات کا عمل جاری رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب دوحہ میں افغان حکومت کے نمائندے سہیل شاہین نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ دونوں حکومتوں کے وفود اس وقت بھی استنبول میں موجود ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US