جولائی 2024 میں فرانسیسی صدر نے قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک فرانسنیسی پارلیمان مشکلات کا شکار ہے اور مشکل بھی ایسی کہ مالی بجٹ منظور کروانے کے لیے بھی کسی ایک گروہ کے پاس اکثریت نہیں ہے۔
میکخواں 2017 میں ملک کے صدر بنے تھےاس ہفتے فرانس میں کچھ لوگ اس بات پر پریشان تھے کہ ان کے ملک میں جاری سیاسی انتشار اٹلی والوں کے لیے مذاق بن گیا ہے۔
محض دو برس سے بھی کم عرصے میں فرانس میں پانچ وزرائے اعظم تبدیل ہوچکے ہیں، جو کہ ایک ایسا سیاسی کارنامہ ہے جس کی مثال عالمی جنگ کے بعد کے روم میں سیاسی ہلچل کے دور میں بھی نہیں ملتی۔
جولائی 2024 میں فرانسیسی صدر نے قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک فرانسنیسی پارلیمان مشکلات کا شکار ہے اور مشکل بھی ایسی کہ مالی بجٹ منظور کروانے کے لیے بھی کسی ایک گروہ کے پاس اکثریت نہیں ہے۔
روم اور تورینو کے اخبارات نے حالیہ واقعات کی رپورٹنگ میں واضح بدنیتی پر مبنی خوشی کا مظاہرہ کیا ہے۔
وزیرِاعظم فرانسوا بیرو کی برطرفی ہی کیا شرمندگی کے لیے کم تھی کہ اس کے بعد بڑھتے ہوئے قرضوں کے بارے میں وارننگز اور ایسے امکانات کی خبریں چھپنے لگیں کہشاید فرانسیسی معیشت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا سہارا لینا پڑے گا۔
لیکن سب سے زیادہ بات کی جا رہی ہے ایمانویل میکخواں کی مانند پڑتی ہوئی شان و شوکت کی۔
اخبار ایل میسیجیرو نے سوال اٹھایا کہ ’تو اب وہ عظمت کہاں ہے؟‘
اس سال قومی قرض پر سود کی ادائیگی کی لاگت کا تخمینہ 67 ارب یورو (تقریباً 78.68 ارب امریکی ڈالر) ہے، جو اب تعلیم اور دفاع کے علاوہ تمام سرکاری محکموں سے زیادہ رقم کھا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق اس دہائی کے اختتام تک یہ رقم سالانہ 100 ارب یورو (تقریباً 117.439 ارب امریکی ڈالر) کی سطح تک پہنچ جائے گی۔
جمعہ 12 ستمبر کو فِچ نے فرانس کی قرض کی درجہ بندی کم کر دی جس کے سبب فرانسیسی حکومت کے لیے قرض لینا مزید مہنگا ثابت ہو سکتا ہے اور یہ ملک کے استحکام اور قرض کی ادائیگی کی صلاحیت پر بڑھتے ہوئے شکوک کو ظاہر کرتا ہے۔
اس امکان کو اب بعید از قیاس نہیں سمجھا جا رہا کہ فرانس کو قرض لینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے یا یورپی مرکزی بینک سے مداخلت کی درخواست کرنی پڑے۔
اور یہ سب کچھ ایک ایسے بین الاقوامی تناظر میں ہو رہا ہے جس میں یورپ میں جنگ، امریکیوں کی بےرُخی، اور عوامی مقبولیت (پاپولزم) کا ناقابلِ روک عروج شامل ہے۔
گذشتہ بدھکو بلاکونز ٹاؤٹ (بلاک ایوری تھنگ) نامی گروپ کی جانب سے یومِ احتجاج منایا گیا تھا۔ اس احتجاج کو انتہاپسند بائیں بازوکے نظریات کے حامل افرادنے بھی استعمال کیا مگر چند پرتشدد جھڑپوں کے علاوہ اس احتجاج میں سے کچھ اور حاصل نہ ہو سکا۔
تاہم جمعرات کو ایک کہیں بڑا امتحان سامنے تب آیا جب یونینز اور بائیں بازو کی جماعتوں نے حکومت کے منصوبوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے۔
معروف سیاسی مبصر نکولا باوریز کے الفاظ میں ’اس نازک لمحے میں جب فرانس اور یورپ کی خودمختاری اور آزادی داؤ پر لگی ہوئی ہے فرانس خود کو انتشار، بےبسی اور قرض کے ہاتھوں مفلوج پاتا ہے۔‘
صدر میکخواں کا اصرار ہے کہ وہ ملک کو اس دلدل سے نکال سکتے ہیں، لیکن ان کی دوسری مدتِ صدارت ختم ہونے میں صرف 18 ماہ باقی ہیں۔
ایک امکان یہ ہے کہ ملک کی اندرونی طاقتیں اس کی دولت، اس کا بنیادی ڈھانچہ اور اس کے اداروں کی لچک اسے اس صورتحال پر قابو پانے کے قابل بنائیں گی، جسے بہت سے لوگ ایک تاریخی موڑ قرار دیتے ہیں۔
لیکن ایک دوسرا منظرنامہ بھی ہے اور وہ یہ کہ فرانس مستقل طور پر کمزور ہو جائے، بائیں اور دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی نذر ہو کر ’سک مین آف یورپ‘ (یورپ کا مردِ بیمار) بن جائے۔
وزرائے اعظم کے ساتھ کشیدگیاں
یہ پوری صورتحال میکخواں کے اُس تباہ کن فیصلے سے شروع ہوئی جب انھوں نے سنہ 2024 میں موسمِ گرما کے آغاز پر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ حکمرانی کے لیے زیادہ مضبوط بنیاد پیدا کرنے کے بجائے نئی پارلیمان دائیں، بائیں بازوؤں اور مرکزیت کی حامی طاقتوں میں تقیسم ہو گئی۔
کوئی بھی گروہ فعال حکومت تشکیل نہیں دے سکا، کیونکہ باقی دو گروہ ہمیشہ کسی ایک کے خلاف اتحاد بنا لیتے تھے۔
فرانس کے لیے نئے سال کا بجٹ منظور کروانا بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہےمیشل بارنیے اور پھر فرانسوا بیرو چند ماہ وزرائے اعظم کے طور پر لڑکھڑاتے رہے لیکن دونوں اسی بنیادی سوال پر گر گئے جو ہر حکومت کے سامنے ہے: ریاست کو اپنا پیسہ کیسے جمع کرنا اور خرچ کرنا چاہیے؟
بیرو، جو 74 سالہ اعتدال پسند سیاست دان ہیں، نے فرانسیسی قرض کو مرکزی مسئلہ بنا دیا۔ یہ قرض اب تین کھرب یورو سے تجاوز کر چکا ہے، جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 114 فیصد ہے۔
انھوں نے 2026 کے بجٹ سے 44 ارب یورو کی کٹوتی کر کے ادائیگیوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔
بیرو کو گزشتہ ہفتے اُس وقت عہدے سے ہٹا دیا گیا جب بائیں بازو اور دائیں بازو کے انتہاپسند ارکانِ پارلیمان نے اعتماد کے ووٹ میں اتحاد کر لیا۔ لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بہت سے ووٹر بھی وزیرِاعظم کی تجاویز کے مخالف تھے، مثلاً دفاعی اخراجات میں اضافے کے لیے دو ہفتہ وار تعطیلات ختم کرنا۔
صدر میکخواں کا فوری فیصلہ یہ تھا کہ وہ اپنے قریبی حلقے کے ایک فرد کو نئی حکمتِ عملی اپنانے کی ذمہ داری سونپیں۔
سَباسٹیاں لُکورنیو، جو 39 سالہ نرم گفتار نارمن ہیں، کو گزشتہ ہفتے وزیرِاعظم مقرر کیا گیا۔ وہ ایلیزے پیلس میں رات گئے ہونے والی نشستوں کے دوران صدر کے قریبی ساتھی بن گئے تھے۔
تقرری کے بعد میکخواں نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ’سیاسی قوتوں کے درمیان ایک معاہدہ ممکن ہے، بشرطیکہ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کیا جائے۔‘
کہا جاتا ہے کہ میکخواں لُکورنیو کی وفاداری اور اس احساس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ان کے وزیرِاعظم اپنی سیاسی مستقبل کی فکر میں مبتلا نہیں۔
میکخواں کے دو سابق وزرائے اعظم سے تعلقات مثالی نہیں تھے لیکن اب موجودہ وزیرِ اعظم سے ان کے تعلقات اچھے ہیں۔
ماہرِمعاشیات فلیپ آگھیوں جو صدر کے مشیر رہے ہیں اور انھیں اچھی طرح جانتے ہیں دلیل دیتے ہیں کہ ’لُکورنیو کے ساتھ میکخواں دراصل خود وزیرِاعظم ہیں۔ میکخواں اور لُکورنیو بنیادی طور پر ایک ہی ہیں۔‘
لُکورنیو کے کارنامے
میکرون چاہتے ہیں کہ لُکورنیو تبدیلی لے کر آئیں۔ سیاسی طور پر زیادہ تر دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے کے بعد اب وہ بائیں بازو کے ساتھ خاص طور پر سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ معاہدہ کرنے کے خواہاں ہیں۔
قانون کے مطابق لُکورنیو کو زیادہ سے زیادہ اکتوبر کے وسط تک بجٹ پیش کرنا ہوگا۔ اسے سال کے اختتام سے پہلے منظور کیا جانا لازمی ہے۔
حساب کتاب کریں تو یہ ہدف صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتے ہیں اگر ان کا اعتدال پسند بلاک دائیں اور بائیں بازو کے ’معتدل‘ سوچ کے افراد کے ساتھ اتحاد کرلے یعنی قدامت پسند ریپبلکنز اور سوشلسٹ اس معاملے پر ایک صفحے پر آ جائیں۔
سوشلسٹ، جو اپنی حمایت میں اضافہ محسوس کر رہے ہیں، قرض کی کمی کے لیے اہداف مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انتہائی امیر کاروباری افراد پر ٹیکس لگانے اور میکخواں کی 2023 کی پینشن اصلاح کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس نے ریٹائرمنٹ کی عمر 64 سال تک بڑھا دی تھی۔
لیکن یہ خیالات کاروبار کے حامی ریپبلکنز کے لیے ناقابلِ قبول ہیں جنھوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے بجٹ کے خلاف ووٹ دیں گے۔
فرانس کے بڑے آجر یونین موومنٹ آف انٹرپرائزز آف فرانس نے تو یہ بھی کہا ہے کہ اگر لُکورنیو بجٹ کے جمود کے جواب میں ٹیکس بڑھانے کی کوشش کریں گے تو ’بڑے پیمانے پر مظاہروں‘ کا اہتمام کیا جائے گا۔
صورت حال کو مزید بگاڑنے والا عنصر وقت ہے، میکخواں کے جلد رخصت ہونے کا امکان کم ہے۔ مارچ میں اہم میونسپل انتخابات ہیں جن کے بعد مئی 2027 میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔
سیاسی دائرے کے دونوں سروں پر طاقتور جماعتیں موجود ہیں دائیں پر نیشنل ریلی اور بائیں پر فرانس انسومیز جو مرکز کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے پر ’غداری‘ کا نعرہ بلند کریں گی۔
ایسی صورتحال میں کوئی بھی اہم سیاستدان نہیں چاہے گا کہ وہ تیزی سے اپنی حیثیت کھونے والے صدر میکخواں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھے۔
لہٰذا لُکورنیو کا کام بہت آسان نہیں ہوگا۔ اچھی صورتحال میں وہ ایک معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں اور اسمبلی میں فوری شکست سے بچ سکتے ہیں، لیکن ایسا بجٹ لازمی طور پر نامکمل تصور کیا جائے گا۔
اس سے مارکیٹ کو یہ پیغام جائے گا کہ ایک نیا ’فرینچ فکس‘ سامنے آیا ہے۔ قرض کی ادائیگی کے اخراجات مزید بڑھ جائیں گے۔
متبادل ناکامی ہے اور ایک اور وزیرِاعظم کا استعفیٰ۔
یہ راستہ میکخوں کی جانب سے کھینچے گئے منظرنامے کے مطابق ہوگا: ایک اور اسمبلی کی تحلیل، نئے انتخاباتہونے کے امکانات اور اس بار مارین لی پین کی نیشنل ریلی یہ انتخابات جیت بھی سکتی ہے۔
لوگ پہلے ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ میکخواں خود استعفیٰ دیں کیونکہ وہ اس جمود کے ذمہ دار ہیں۔
بیک وقت متعدد بحران
جو لوگ فرانس کی صورتحال کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لیے ہمیشہ ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ صورتحال کو واضح کرنے کے لیے ایک کم ’تباہ کن‘ لہجہ اختیار کریں۔ آخرکار ملک ماضی میں بھی بحرانوں کا سامنا کر چکا ہے اور ہمیشہ ان سے نکلنے میں کامیاب رہا ہے۔ درحقیقت کچھ لوگ میکخواں کے فرانس کی تعریف کے لیے دیگر وجوہات بھی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ژاں فرانسوا کوپے کے مطابق ’فرانسیسی معیشت کے بنیادی ستون، بشمول درآمد و برآمد کا توازن، مضبوط ہیں۔‘
کوپے مزید کہتے ہیں کہ ’ہماری بے روزگاری کی شرح روایتی طور پر برطانیہ سے زیادہ ہے لیکن یہ تباہ کن نہیں ہے۔ ہم میں کاروبار کی تخلیق کی سطح زیادہ ہے اور ترقی جرمنی سے بہتر ہے۔‘
میکرون کے سابق مشیر آگھیوں بھی نسبتاً پرامید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یونان کی طرح گرنے والے نہیں ہیں۔ اور جو بات بیرو نے قرض کے بارے میں کہی وہ ایک بیدار کر دینے والا انتباہ تھی۔‘
ماہرِ معیشت فلیپ ڈیسیرٹین، جو پیرس انسٹی ٹیوٹ آف ہائی فنانس کے ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ ’ہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مداخلت کے امکان کو خارج نہیں کر سکتے جیسا کہ سیاستدان کرتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایسا ہے جیسے ہم ایک سمندری دیوار پر کھڑے ہوں۔ یہ کافی مضبوط لگتی ہے۔ سب اس پر کھڑے ہیں اور ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ مضبوط ہے۔ لیکن نیچے سمندر اسے کھا رہا ہے اور ایک دن اچانک سب کچھ منہدم ہو جائے گا۔‘
’بدقسمتی سے یہی کچھ ہوگا اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو۔‘
اخبار لو موند کی فرانسیس فریسوز کے مطابق ’ہم سب عوامی خرچ کے عادی ہو چکے ہیں۔ پچھلے پچاس سالوں سے ہر حکومت، چاہے وہ بائیں بازو کی ہو یا دائیں بازو کی، اس نے اس طریقہ کار کا استعمال کر کے ناراضی کی آگ کو بجھایا اور سماجی امن خریدنے کی کوشش کی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اب ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے کہ یہ نظام اپنی آخری حد پر پہنچ چکا ہے۔ ہم پرانی ویلفیئر سٹیٹ کے اختتام کے نزدیک پہنچ چکے ہیں۔ لیکن کوئی بھی اس کی قیمت ادا کرنے یا ضروری اصلاحات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘
اب فرانس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کئی بحرانوں کا ملاپ ہے: سیاسی، اقتصادی، سماجی اور یہی لمحے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
جیروم فور اس صورتحال کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ناقابل فہم ڈرامہ خالی تھیٹر کے سامنے پیش کیا جا رہا ہو۔‘
ووٹروں سے کہا جاتا ہے کہ قرض زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، لیکن بہت سے لوگ اس پر یقین نہیں رکھتے یا ان کا کہنا ہے آخر وہ اس سب بحرنوں کی قیمت کیوں ادا کریں۔‘
اس وقت صدارت ایک ایسے شخص کے پاس ہے جو 2017 میں اقتدار میں آیا، جس نے وعدہ کیا کہ وہ بائیں اور دائیں، کاروبار اور مزدور، ترقی اور سماجی انصاف کے علم برداروں کے درمیان رابطوں کو بڑھائے گا۔
بیرو کی بطور وزیرِ اعظم برطرفی کے بعد فرانسیسی مبصر نکولا باوریز نے لو فیگارو میں لکھا کہ: ’میکخواں عوام کی ناراضی کا حقیقی ہدف ہیں اور اس بحری جہاز کے تباہ ہونے کی مکمل ذمہ داری ان پر ہے۔‘
انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’انھوں نے ہمارے ملک کو کھنڈر میں بدل دیا ہے۔‘