’وہ مجھے اندرا گاندھی کا ایجنٹ سمجھتے تھے‘: جب انڈین وزیرِ اعظم مرار جی دیسائی نے خفیہ ایجنسی را کے سربراہ کو گھر بھیج دیا

انڈیا میں مارچ سنہ 1977 میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے بعد لوک سبھا کے انتخابات کرائے تو نہ صرف ان کی پارٹی ہار گئی بلکہ وہ خود اپنی لوک سبھا سیٹ بھی ہار گئیں۔ اس انتخابی مہم دوران اپوزیشن کی طرف سے خفیہ ایجنسی کے کردار پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔

انڈیا میں مارچ سنہ 1977 میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے بعد لوک سبھا کے انتخابات کروائے تو نہ صرف ان کی پارٹی شکست کھا گئی بلکہ وہ خود اپنی لوک سبھا کی نشت بھی بھی ہار گئیں۔

پوری انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن نے ایمرجنسی کے دوران انڈیا کی خفیہ ایجنسیوں انٹیلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انٹیلیجنس ونگ (را) اور سینٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (سی بی آئی) کے کردار کو ایک بڑا انتخابی مسئلہ بنایا۔

وزیر اعظمبننے کےبعد مُرار جی دیسائی نےراکے بانی اور سربراہ رامیشور ناتھ کاؤ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔

کے سنکرن نائر رامیشور کاؤ کے بعد انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے نئے سربراہ بنے۔ وہ اپنی سوانح عمری ’انسائڈ آئی بی اینڈ را‘ میں لکھتے ہیں: ’جنتا پارٹی کی حکومت میں سینیئر وزراء اور خود وزیر اعظم مرار جی دیسائی نے پہلے ہی را کے خلاف ایک تاثر پیدا کر لیا تھا، ان کا خیال تھا کہ اندرا گاندھی اس ادارے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔‘

کے سنکرن مزید لکھتے ہیں کہ: ’کاؤ جب بھی مرار جی دیسائی سے ملنے جاتے، تو وہ یہ کہہ کر ان کی توہین کرتے کہ وہ اعتماد کھو چکے ہیں۔ جب مرار جی دیسائی نے تیسری بار یہ کہا تو انھوں نے واضح طور پر مرار جی دیسائی کو کہا کہ وہ اپنے عہدے سے قبل از وقت ریٹائر ہونا چاہیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مرارجی مجھے را میں اندرا گاندھی کا ایجنٹ بھی سمجھتے تھے لیکن اس وقت کے کابینہ سیکریٹری نرمل مکھرجی نے مجھے را کا سربراہ مقرر کرنے کے لیے راضی کیا کہ میں را کے بانیوں میں سے ہوں۔‘

سنکرن نائر نے بھی استعفیٰ دے دیا

کاؤ کے بعد کے سنکرن نائر را کے سربراہ بنے لیکن انھوں نے صرف تین ماہ تک ہی را کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ مرارجی دیسائی کی حکومت نے را کے سربراہ کے عہدے کا نام ’سیکریٹری را‘ سے تبدیل کر کے ’ڈائریکٹر‘ کر دیا، یہ اقدام نائر کے خیال میں ان کی حیثیت کو کم کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔

مرار جی دیسائی کے دفتر نے نائر کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، لیکن نائر، جنھوں نے کئی بڑے انٹیلی جنس آپریشنز کی قیادت کی تھی، نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔

را میں بیورو کریسی کو سنکرن نائر کے جانے سے بہت دکھ ہوا۔ وہ ایک انتہائی معزز افسر تھے جن کا کسی سے کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا۔ ایمرجنسی نافذ ہونے سے پہلے اندرا گاندھی نے انھیں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کا سربراہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

را کے سیکریٹری بی رمن اپنی کتاب 'دی کاو بوائز آف را' میں لکھتے ہیں: 'سنجے گاندھی نے انھیں آر کے دھون کے ذریعے ایک پیغام بھیجا، جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کریں۔ نائر نے انکار کر دیا، سنجے گاندھی نے ان کی تعیناتی منسوخ کر دی اور ان کی جگہ شیو ماتھر کو آئی بی کا سربراہ مقرر کر دیا۔

سنجے ان سے اس قدر ناراض ہوئے کہ وہ انھیں را سے ہٹا کر ان کے اپنے ریاستی کیڈر میں واپس بھیجنا چاہتے تھے۔

بی رمن نے اپنی مشہور کتاب میں لکھا: 'کاؤ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور سنجے گاندھی کی مداخلت پر اندرا گاندھی سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ اندرا گاندھی نےپھر سنجے سے کہا کہ وہ را کے معاملات سے خود کو دور رکھیں۔'

سنکرن نائر نے مزید لکھا: 'اگلے دن، کاؤ نے مجھ سے کہا، 'مجھے نہیں معلوم کہ مجھے اپنے دکھ کا اظہار کرنا چاہیے یا آپ کو مبارکباد دینا چاہیے۔' میں نے فوراً کہا، 'آپ مجھے مبارکباد دے سکتے ہیں۔'

ایرانی مڈل مین کو 60 لاکھڈالر دینے کا معاملہ

جب مرار جی دیسائی کی حکومت برسراقتدار آئی تو اس نے راکےتمام پرانے ریکارڈ اس امید پر کھنگالے تاکہ ایسے شواہد تلاش کر سکیں کہ اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی نے ادارے کا غلط استعمال کیا تھا۔ تاہم حکومت کو ایک واقعہ کے علاوہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے۔

جنتا پارٹی کی حکومت کو وزارت خزانہ اور ریزرو بینک آف انڈیا کی فائلوں میں کچھ ایسا مواد ملا جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ را، کاؤ اور سنکرن کو ایک ہی معاملے میں پھنسایا جا سکتا ہے۔

بی رمن لکھتے ہیں: 'فائلوں سے پتا چلا کہ ایمرجنسی کے دوران، نائر کو 60 لاکھ روپے یا 60 لاکھ یا چھ ملین ڈالر ایک نمبر والے سوئس بینک اکاؤنٹ میں جمع کرنے کے لیے جنیوا بھیجا گیا تھا۔ جنتا حکومت کو شبہ تھا کہ یہ رقم سنجے گاندھی کے خفیہ اکاؤنٹ میں جمع کی گئی تھی۔ تحقیقات پر پتا چلا کہ یہ اکاؤنٹ درحقیقت ایک ایرانی مڈل مین راشدیان کا تھا جو شاہ ایران کی بہن کا دوست تھا۔'

انڈین حکومت نے اس شخص کو ایران سے کم شرح پر قرض حاصل کرنے کے لیے رکھا تھا اور اسے فیس یا کمیشن کے طور پر چھ ملین ڈالر ادا کیے تھے۔

بی رمن لکھتے ہیں: 'اندرا گاندھی چاہتی تھیں کہ سارا معاملہ خفیہ رہے، اس لیے وزارت خارجہ کے اہلکاروں کے بجائے را کی خدمات استعمال کی گئیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ وزیر اعظم نے کسی غیر ملکی فرد کو کمیشن دینے کی منظوری دی۔ جب یہ حقیقت مرارجی کے علم میں لائی گئی تو انھوں نے اس معاملے کو مزید نہیں بڑھایا۔'

سنکرن نائر نے بھی اس پورے واقعہ کی تفصیل اپنی کتاب 'انسائڈ آئی بی اینڈ را' میں دی ہے۔

مرار جی دیسائی
Getty Images
انڈیا کے سابق وزیراعظم مرار جی دیسائی

را کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی

را کے متعلق مرار جیدیسائی کے شکوک و شبہات کبھی ختم نہیں ہوئے کہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کی مخالفت کرنے والوں کو ہراساں کرنے کے لیے را کا استعمال کیا تھا۔ نتیجے کے طور پر انھوں نے را کے اندر بڑے پیمانے پر چھانٹی کرنے کا فیصلہ کیا۔

جب سنکرن نائر کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے مرارجی دیسائی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس سے نہ صرف را کے ملازمین کے حوصلے پر منفی اثر پڑے گا بلکہ اس کے ایجنٹوں کی نظروں میں اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا جو پیسے کے لیے کام کرتے ہیں۔

بی رمن لکھتے ہیں: 'ابتدائی طور پر جنتا حکومت نے را کے بجٹ میں 50 فیصد کی کٹوتی کی، جس سے وہ اپنے بہت سے جاسوسوں کی خدمات ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ بعد میں مرارجی دیسائی نے 50 فیصد کٹوتی پر اصرار نہیں کیا، لیکن پھر بھی را کے بجٹ میں نمایاں کٹوتی کی گئی۔

'نئے جاسوسوں کی بھرتی مکمل طور پر روک دی گئی۔ بیرون ملک کئی سٹیشنوں پر کئی ڈویژن بند کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ را سنہ 1971 کے مقابلے میں ایک چھوٹی تنظیم تک محدود ہو کر رہ گئی۔'

تحقیقات میں کاؤ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا

مرارجی دیسائی کو کاؤ پر اس قدر عدم اعتماد تھا کہ انھوں نے کابینہ سیکریٹری نرمل مکھرجی کو کاؤ کے دفتر بھیجا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سنکرن کو چارج سونپنے سے پہلے انھوں نے کوئی دستاویزات ضائع نہ کیں ہوں۔

لیکن چند دنوں کے اقتدار میں رہنے کے بعد جنتا حکومت کا کاؤ کے بارے میں تصور بدل گیا۔

را کے سابق افسر آر کے یادیو اپنی کتاب 'مشن را' میں لکھتے ہیں: 'چرن سنگھ نے کاؤ کے سامنے اعتراف کیا کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے تحقیقات کرنے کے بعد، وہ مکمل طور پر مطمئن تھے کہ کاؤ نے درست طریقے سے کام کیا اور ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ برسوں بعد کاؤ نے کہا کہ چرن سنگھ کے رویے نے ان کے دل کو چھو لیا تھا۔'

چوہدری چرن سنگھ
Getty Images
انڈیا کے سابق وزیراعظم چوہدری چرن سنگھ

را کی ذمہ داریوں پر حکومت میں اختلافات

حکومت کی اعلیٰ قیادت را کے مستقبل کے بارے میں کسی فیصلے پر متفق نہیں تھی۔ جہاں مرارجی اس میں سخت کٹوتی چاہتے تھے، چرن سنگھ کی رائے تھی کہ تنظیم کے ساتھ نمایاں طور پر چھیڑ چھاڑ نہیں کی جانی چاہیے۔

دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی (جو بہت بعد میں انڈیا کے وزیر اعظم بنے) کا خیال تھا کہ را کو ان ممالک پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جہاں بڑی تعداد میں انڈین شہری رہتے ہیں۔

رمن لکھتے ہیں: 'اس وجہ سے را کے مستقبل اور ذمہ داریوں کے حوالے سے اعلیٰ قیادت کی جانب سے ہدایات غیر واضح تھیں۔ ہدایات کا انحصار اس بات پر تھا کہ اس وقت حکومت میں کس کے خیالات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔'

واجپائی کے رویے میں بھی تبدیلی

کاؤ نے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں اٹل بہاری واجپائی، جو جنتا حکومت میں وزیر خارجہ تھے، ان کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے تھے۔

جب کاؤ اپنا عہدہ چھوڑنے سے پہلے ان سے ملنے گئے تو واجپائی نے ان پر جاسوسی کرنے اور اندرا گاندھی کو ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات دینے کا الزام لگایا۔

مرارجی دیسائی کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں کاؤ نے واجپائی کے رویے کی شکایت کی۔ کاؤ کو سننے کے بعد دیسائی نے کہا کہ واجپائی کو ان سے اس انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ انھوں نے واجپائی سے اس معاملے پر بات کرنے کا وعدہ کیا اور انھوں نے ہی ایسا کیا۔

کچھ دنوں بعد واجپائی نے کاؤ کو طلب کیا اور مرار جی دیسائی سے شکایت کرنے پر ان سے ناراضی کا اظہار کیا۔

لیکن کچھ عرصے بعد واجپائی کا کاؤ کے بارے میں تصور بالکل بدل گیا۔ سنہ 1998 میں وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے کاؤ کی خیریت دریافت کی۔

کارگل جنگ پر کارگل ریویو کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واجپائی نے کول کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا۔

سنتوک نے را میں حالات کی ذمہ داری سنبھالی

جب اندرا گاندھی 1980 میں اقتدار میں واپس آئیں تو انھوں نے را میں کام کرنے والے چار انڈین پولیس سروس افسران کو اس شبہ میں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا کہ وہ مرارجی دیسائی اور چرن سنگھ کے قریب تھے۔

را کے لیے یہ سیاہ ترین دن تھے لیکن را کے نئے تعینات ہونے والے سربراہ نوشیروان ایف سنتوک نے حالات کو قابو میں کر لیا۔ سنتوک اس وقت جوائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ وہاں تعینات ہونے سے پہلے وہ را میں کاؤ اور سنکرن کے بعد تیسرے نمبر پر تھے۔

انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز انڈین بحریہ میں کیا۔ اس کے بعد وہ انڈین پولیس سروس میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد انھیں انڈین فرنٹیئر ایڈمنسٹریشن سروس کے لیے منتخب کیا گیا، جو شمال مشرقی ریاستوں کے انتظام کے لیے بنائی گئی تھی۔

سنتوک نے تین وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا

کاؤ سنتوک کو پہلے سے جانتے تھے، انھوں نے انھیں را میں شمولیت پر راضی کیا تھا۔

بی رمن لکھتے ہیں کہ ’نائر کی طرح سنتوک بھی ایک بہت ہی پیشہ ور اور غیر سیاسی افسر تھے۔ را کا سربراہ بننے کے بعد انھوں نے بریگیڈیئر آئی ایس حسن والیا کو اپنا نمبر ٹو منتخب کیا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایس پی کارنک اور ان کے بعد شیوراج بہادر ان کے نمبر ٹو بن گئے۔‘

’سنتوک را کے واحد افسر تھے جنھیں مختلف مزاج کے تین وزرائے اعظم ۔۔ مرارجی دیسائی، چرن سنگھ اور اندرا گاندھی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔‘

اندرا گاندھی، جو مرارجی کی سخت مخالف تھیں، نے سنہ 1980 میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد بھی انھیں اپنے عہدے سے نہیں ہٹایا تھا۔

اندرا گاندھی
Getty Images

سنتوک اور دیسائی کے اچھے تعلقات

سنتوک میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ انھیں اپنے پیشروؤں پر سبقت لینے یا تنقید کرنے کی عادت نہیں تھی۔

سنجوئے کے سنگھ اپنی کتاب ’را کے میجر آپریشنز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سنتوک کول اور اندرا گاندھی کے راز افشا کر کے مرار جی کے قریب ہو سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ذاتی طور پر بھی کول کے وفادار رہے۔‘

’سنتوک مرار جی کے دور میں کاؤ کے علاوہ وہ را میں اپنے عہدے سے کسی بھی سینیئر افسر کو نہیں ہٹانے کے کریڈٹ کے مستحق ہیں۔ عہدہ سنبھالنے کے چند مہینوں کے اندر ہی، انھوں نے دیسائی کے ساتھ اچھی ذہنی ہم آہنگی قائم کر لی تھی، جس کی ایک وجہ ان کا گجراتی زبان تھی۔‘

سیٹھنا کے ذریعے مرارجی دیسائی پر دباؤ

سنہ 1977 میں سنتوک کو قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا کہ انڈیا کی طرف سے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے پر وزارت خارجہ کے اندر کچھ حلقوں میں سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔

سنتوک نے اسے انڈیا کے بہترین مفاد میں دیکھا۔ وہ جانتے تھے کہ وزیر اعظم مرار جی دیسائی ممبئی میں مقیم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ہومی سیٹھنا کے مشورے کو نظر انداز نہیں کریں گے۔

نتن گوکھلے لکھتے ہیں کہ ’سنتوک یہ بھی جانتے تھے کہ صرف رامیشور کاؤ ہی سیٹھنا کو مرار جی دیسائی سے بات کرنے کے لیے راضی کر سکتے ہیں۔‘

اندرا گاندھی کی حکومت میں سیٹھنا اور کاؤ نے کئی سال تک ایک ساتھ کام کیا تھا۔ کاؤ نے را کے ایک افسر وی بالاچندرن کو سیٹھنا سے ملنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ معاہدہ انڈیا کے مفاد میں نہیں تھا۔

سیٹھنا اور مرارجی کے درمیان کیا بات چیت ہوئی یہ عوامی سطح پر دستیاب نہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیاجوہری عدمپھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کے سامنے نہیں جھکا۔

گوکھلے لکھتے ہیں کہ ’اگر انڈیا اس معاہدے پر دستخط کرتا تو نہ تو پوکھران-2 ہوتا، نہ انڈیا کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے اور نہ ہی انڈیا اور امریکہ کے درمیان کوئی جوہری معاہدہ ہوتا‘۔

را کے پرانے دن واپس آگئے

وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران مرار جی دیسائی نے را سے حاصل کردہ سٹریٹجک انٹیلی جنس کی اہمیت کو سمجھا۔

سنہ 1979 تک سنتوک کی قیادت میں را نے مرار جی دیسائی کے ذہن سے منفی تصویر کو ہٹانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔

لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی خدمات سے استفادہ کر پاتے، جنتا پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی اور انھیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

سنہ 1980 میں اندرا گاندھی کے اقتدار میں آنے کے بعد را کی اہمیت کا پرانا دور لوٹ آیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US