انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے کانپور میں عید میلاد النبی (12 ربیع الاول) کے موقع پر 'آئی لو محمد' بینر لگانے پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے اور مختلف جگہ ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں اور گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اُترپردیش کے علاقے کانپور میں عید میلاد النبی (پیغمبر اسلام کی پیدائش کا دن) کے موقع پر ایک بینر لگانے پر شروع ہونے والا تنازع طول پکڑتا جا رہا ہے۔ اُس بینر پر ’آئی لوو محمد‘ تحریر تھا۔
اس واقعے سے متعلق مقامی تھانے میں ایف آئی آر کے اندراج کے ردعمل میں ریاست اُتر پردیش سمیت انڈیا کے کئی شہروں میں مسلمانوں نے احتجاج کیا ہے۔
متعدد شہروں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس سے الجھنے اور جھگڑا کرنے کے الزام میں متعدد مظاہرین کے خلاف الگ الگ مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں اور کئی افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
ابتدائی ایف آئی آر کے اندراج کے ردعمل میں شمالی ریاست اتراکھنڈ کے علاقے کاشی پور ہونے والے ایک مظاہرے میں مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ ہوئی جس کے بعد آٹھ مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جبکہ ریاست اُتر پردیش کے علاقے انناؤ میں اسی واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والے پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا۔
انڈیا کی بعض مسلم تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس مسلمانوں کو اُن کی مذہبی آزادی کے اظہار کی پاداش میں نشانہ بنا رہی ہے۔
تاہم متعدد شہروں میں مظاہروں اور گرفتاریوں کے بعد اب کانپور پولیس کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی ایف آئی آر ’آئی لوو محمد‘ والا بینر لگانے پر نہیں بلکہ 12 ربیع الاول کے دن میلاد انتظامیہ کی جانب سے الاٹ شدہ جگہ کے باہر عید میلاد النبی کے جلوس کا خیمہ لگانے پر کی گئی ہے۔
اسی طرح اُتر پردیش میں حکومتی ترجمان راکیش ترپاٹھی نے مسلمان تنظیموں کے دعوؤں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’عقیدے کی بنیاد پر کسی کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔‘
کانپور میں کیا واقعہ پیش آیا؟
کانپور کے پولیس افسر دنیش ترپاٹھی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’12 وفات (عید میلاد النبی) کا جلوس راوت پور تھانے کے علاقے میں اپنے روایتی مقام سے شروع ہونا تھا۔ اس سلسلے میں مسلمان علاقہ مکینوں نے انتظامیہ کی جانب سے مقرر کردہ جگہ کے باہر ایک خیمہ اور ’آئی لوو محمد‘ کا بینر لگایا، جس پر دوسرے فریق (نان مسلم) نے احتجاج کیا۔ تاہم بعدازاں باہمی رضامندی سے بینر کو اُتار کر مقررہ جگہ پر لگا دیا گیا۔‘
دنیش ترپاٹھی نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی آر ’آئی لوو محمد‘ لکھنے پر نہیں بلکہ مقررہ جگہ کے باہر خیمہ لگانے اور جلوس کے دوران ایک دوسرے کے پوسٹر پھاڑنے کے لیے درج کی گئی۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی نے بینر لگا کر ایک نئی روایت شروع کرنے کی کوشش کی جس پر لکھا تھا: ’آئی لوو محمد‘ اور ’دوسری برادری نے اِس کی مخالفت کی۔‘ ایف آئی آر جلوس کے دوران تعینات پولیس اہلکاروں کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔
ایف آئی آر میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ جلوس کے دوران دوسری برادری (غیر مسلم) کی جانب سے لگائے گئے مذہبی پوسٹر بھی پھاڑے گئے۔
یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ 196 اور 299 کے تحت درج کیا گیا جس میں دو گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور نفرت پھیلانے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
ایف آئی آر میں عید میلاد النبی جلوس کے منتظمین سمیت کئی افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
کانپور پولیس کے مطابق اس ابتدائی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔
مقامی صحافی ابھیشیک شرما کے مطابق بینر لگانے پر جھگڑا چار ستمبر کو ہوا تھا اور اس کے اگلے دن یعنی عید میلاد النبی کے روز جلوس اپنے مقررہ راستے پر نکلا مگر پھر چھ روز بعد یعنی 10 ستمبر کی شام ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
کانپور میں ’آئی لوو محمد‘ بینر پر تنازع اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے 15 ستمبر کو کانپور پولیس کو ٹیگ کیا اور لکھا کہ ’آئی لوو محمد‘، کانپور پولیس، یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں اس کے لیے کوئی بھی سزا قبول کرتا ہوں۔‘
اویسی نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا تھا کہ میں پیغمبر اسلام کے لیے دس لاکھ جانیں قربان کروں گا۔
دیگر علاقوں میں احتجاج کی صورتحال اور گرفتاریاں
اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد لکھنؤ میں کئی خواتین نے ریاستی اسمبلی کے سامنے ’آئی لوو محمد‘ کا بینر اٹھا کر احتجاج کیا۔
ان خواتین کی قیادت سماج وادی پارٹی کی لیڈر اور نامور شاعر منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا نے کی۔
سمیہ رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ کئی نوجوان جو اُن کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونا چاہتے تھے، پولیس نے انھیں راستے میں ہی روک لیا۔
سمیہ نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم خواتین ایک گاڑی میں اسمبلی پہنچیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ پولیس نے ہمیں وہاں سے بھی ہٹا دیا۔‘
سمیہ نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے احتجاج میں شامل کئی نوجوانوں کو کئی گھنٹوں تک غیرقانونی حراست میں رکھا۔ تاہم لکھنؤ پولیس نے اس دعوے کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
سمیہ نے کہا کہ 'جب مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی جاتی ہیں تو کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔ جب مسلمان اپنے آئینی حقوق کے تحت اپنے مذہبی خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے مذہبی اظہار اور جذبات کو دبانے کی کوششیں ہیں، جنھیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب لکھنؤ کے ڈی سی پی سینٹرل آشیش سریواستو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسمبلی کے قریب احتجاج کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ ایکو گارڈن احتجاج کے لیے مخصوص جگہ ہے۔ مظاہرین کو وہاں سے پکڑ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔‘
کانپور میں درج ابتدائی ایف آئی آر کے خلاف اناؤ میں بھی جلوس نکالا گیا۔ جس کے بعد پولیس نے مقدمہ درج کرکے پانچ افراد کو گرفتار کر لیا۔
اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز شیئر کی گئیں جن میں اناؤ کے گنگا گھاٹ کے علاقے میں بچوں اور خواتین کو بینرز اٹھائے اور نعرے بلند کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
اُنّاؤ کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (نارتھ) اکھلیش سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ ’اُناؤ میں دفعہ 163 نافذ ہے، بغیر اجازت کے کسی بھی جلوس یا مظاہرے پر پابندی ہے۔ گنگا گھاٹ کے علاقے میں ایک غیر قانونی جلوس نکالا جا رہا تھا۔ جب پولیس وہاں پہنچی، تو کچھ خواتین اور بچوں نے سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جس پر پانچ افراد کو حراست میں لیا گيا اور مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا۔ مزید تفتیش جاری ہے۔‘
اکھلیش سنگھ کے مطابق حالات اب معمول پر ہیں اور پولیس گشت کر رہی ہے۔
دریں اثنا، یوپی حکومت کے وزیر دھرم پال سنگھ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کسی کو بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اطلاع ملنے پر سخت کارروائی کی گئی ہے، کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، اور مزید تفتیش کی جائے گی اور سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
کاشی پور میں تشدد اور ایف آئی آر
اتراکھنڈ کے علاقے کاشی پور میں مسلمانوں نے گذشتہ اتوار کی شام ’آئی لوو محمد‘ والے بینرز کے ساتھ ایک جلوس نکالا اور اس موقع پر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
مقامی صحافی ابوبکر کے مطابق پولیس نے واقعے کے بعد مقدمہ درج کر کے کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔
مقامی صحافی کے مطابق جلوس کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔
مقامی پولیس کے ایس ایس پی مانی کانت مشرا نے کہا کہ ’کاشی پور میں بغیر اجازت تقریباً 400 لوگوں نے مظاہرہ کیا اور پولیس کی گاڑی پر بھی حملہ کیا۔ جس کے بعد سات افراد کو گرفتار جبکہ 10 کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘
اسی طرح اُتر پردیش کے علاقے قیصر گنج میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر فیض الحسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے ابتدائی ایف آئی آر کے اندراج کے خلاف پرامن مارچ کیا جس میں کوئی نعرہ نہیں لگایا گیا اور نہ ہی کوئی قانون توڑا گیا۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔‘
فیض الحسن نے اب ایف آئی آر کو خارج کرنے کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
فیض الحسن کہتے ہیں: ’مسلمان پیغمبر محمد سے محبت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے رسول سے محبت کا اظہار کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے دعوے
اس صورتحال پر انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ معمولی واقعات کو بڑھاوا دے کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ سے وابستہ ندیم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں کئی جگہوں پر مسلمانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی کی اطلاع ملی ہے۔ ہم ابھی تک اس بارے میں ٹھوس معلومات جمع نہیں کر سکے ہیں کہ کتنی ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور کتنے لوگ گرفتار کیے گئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کانپور میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے مسلمانوں میں غصہاور ناراضی ہے لیکن یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، حالات بتدریج اس حد تک بڑھے ہیں۔ ماہ رمضان میں مراد آباد میں گھر میں نماز پڑھنے پر اسی نوعیت کا مقدمہ درج کیا گیا، پھر کچھ لوگوں کو چھت پر نماز پڑھنے سے روک دیا گیا، اب پیغمبر اسلام کے پوسٹر پر مقدمہ درج ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو چُن چُن کر نشانہ بنانے اور ان کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
کانپور واقعے کے بارے میں ندیم خان کا کہنا ہے کہ ’آئی لوو محمد‘ کے بینرز کو پھاڑا گیا جس پر مسلمانوں نے درخواستیں جمع کروائیں مگر ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ اس کے بجائے انھی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ’ہم اپنے آئینی حقوق کے تحت عدالت سے رجوع کریں گے۔‘
کانپور پولیس نے ندیم خان کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
کانگریس سے تعلق رکھنے والے رُکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے سوال کیا کہ ’اگر پیغمبر اسلام سے محبت کے اظہار پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں تو کیا انڈیا کے 30 کروڑ مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے، کیونکہ ہر مسلمان پیغمبر اسلام سے اپنی جان سے زیادہ پیار کرتا ہے؟‘
عمران پرتاپ گڑھی نے اس موقع پر مسلمان نوجوانوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر جلسے جلوس نہ نکالیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ قانونی طور پر مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔
متعدد ایف آئی آرز کے اندراج پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے، اس لیے لوگوں کو احتیاط سے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔
’کسی کو ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘
حکومت اور پولیس کے خلاف امتیازی سلوک کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اتر پردیش بی جے پی کے ترجمان راکیش ترپاٹھی کہتے ہیں کہ ’حکومت مذہب کی بنیاد پر کارروائی نہیں کرتی، جو بھی قانون توڑے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
راکیش ترپاٹھی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس واقعہ کو ایشو بنا کر ریاست میں امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے اور اس پر سیاست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راکیش ترپاٹھی نے کہا کہ ’کسی کو بھی اس کے عقیدے کی بنیاد پر نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے، کسی کو کسی مذہبی نعرے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، تاہم اگر ایسا کوئی نعرہ جو قانونی حدود سے تجاوز کرتا ہے، اس پر ضرور کارروائی کی جائے گی۔ کسی بھی پوسٹر، بینر یا نعرے لگانے کے لیے مخصوص مقامات ہیں، اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی تو کارروائی کی جائے گی۔ یہ عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے شروع کیا جا رہا ہے، جو درست نہیں ہے۔‘
کانپور میں عید میلاد النبی کے موقع پر پیش آئے اس واقعے کے بعد نہ صرف اتر پردیش بلکہ کئی دیگر ریاستوں میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش اور گجرات کے لوگوں نے بھی 'آئی لوو محمد' کے معاملے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
مسلمان سوشل میڈیا پر 'آئی لوو محمد' کے ہیش ٹیگ کے تحت تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد نے اس پوسٹر کو اپنی پروفائل پکچر بھی بنا لیا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر وویک کمار کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں کو کسی مرکزی پالیسی یا مہم کے حصے کے طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، لیکن چھوٹے چھوٹے واقعات اور ان پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ اقلیتیں احساس کمتری کا شکار ہیں۔‘
پروفیسر وویک کمار کا کہنا ہے کہ ’ایک گروپ کو کمزور یا علیحدہ محسوس کرایا جا رہا ہے۔‘