شیخ عبدالعزیز آل الشیخ علما کی سینئر کونسل کے سربراہ اور اسلامی تحقیق و افتا کی جنرل پریذیڈنسی کے چیئرمین تھے جہاں انھیں وزیر کے مساوی عہدہ حاصل تھا۔ اس کے علاوہ وہ مسلم ورلڈ لیگ کی سپریم کونسل کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کو 2009 میں پہلی مرتبہ ’دنیا کے 500 سب سے بااثر مسلمانوں‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا تھاسعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق مفتیِ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل الشیخ وفات پا گئے ہیں۔
وہ سعودی علما کی سینیئر کونسل کے سربراہ اور اسلامی تحقیق و افتا کی جنرل پریذیڈنسی کے چیئرمین بھی تھے اور اس حیثیت میں انھیں سعودی عرب میں وزیر کے مساوی عہدہ حاصل تھا۔ اس کے علاوہ وہ مسلم ورلڈ لیگ کی سپریم کونسل کے چیئرمین کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔
شیخ عبدالعزیز کی نمازِ جنازہ منگل کو نمازِ عصر کے بعد ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد میں ادا کر دی گئی۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے حکم دیا ہے کہ مفتی اعظم کی غائبانہ نمازِ جنازہ مسجدالحرام (مکہ مکرمہ)، مسجد نبوی (مدینہ منورہ) اور مملکت کی تمام مساجد میں بھی ادا کی جائے۔
شاہی دربار نے کہا ہے کہ اُن کی وفات کے ساتھ ’مملکتِ سعودی عرب اور پوری اسلامی دنیا ایک جلیل القدر عالمِ دین سے محروم ہو گئی ہے جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔‘
ان کی وفات پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے شیخ عبدالعزیز کے اہلِخانہ، سعودی عوام اور امتِ مسلمہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کی وفات پر سعودی عرب اور دنیا بھر سے مسلمان سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات شیئر کر رہے ہیں اور بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ ان کی وفات سے سعودی عرب اور مسلم دنیا ایک ممتاز عالم سے محروم ہو گئی ہے۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کی وفات پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کی مذہبی خدمات، علمی رہنمائی اور مسلم دنیا کے اتحاد کے لیے ان کی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آئیے شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل الشیخ کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
https://twitter.com/spagov/status/1970399928502394973
عبدالعزیز آل الشیخ یتیمی میں پلے بڑھے
عبدالعزیز آل الشیخ سعودی عرب کے تیسرے مفتیِ اعظم تھے اور اُن سے پہلے یہ منصب محمد بن ابراہیم آل الشیخ اور عبدالعزیز بن باز کے پاس رہا ہے۔
سعوی عرب کی وزارتِ اطلاعات کے تحت چلنے والے پلیٹ فارم سعودی پیڈیا یا سعودی ڈیجیٹل انسائیکلوپیڈیا کے مطابق عبدالعزیز آل الشیخ 30 نومبر 1943 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے تھے۔
سنہ 1951 میں والد کی وفات کے وقت اُن کی عمر آٹھ برس سے بھی کم تھی۔
وہ محمد بن سنان کے شاگرد رہے جنھوں نے والد کی وفات کے تین سال بعد انھیں قرآن حفظ کرنے میں مدد دی۔
عمر کی 20ویں دہائی میں بینائی کا خاتمہ
سعوی عرب کی وزارتِ اطلاعات کے تحت چلنے والے پلیٹ فارم سعودی پیڈیا کے مطابق عبدالعزیز آل الشیخ نے تقریباً بیس برس کی عمر میں اپنی بینائی کھو دی۔
انھوں نے مملکت کے سابق مفتیِ اعظم محمد بن ابراہیم آل الشیخ سے شریعت کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے علمی سفر کا آغاز تدریس سے کیا اور مختلف جامعات کی علمی مجالس کے رُکن بھی رہے۔
وہ ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد (جامع مسجد) کے خطیب تھے اور ان کا شمار مسجد نمرہ کے نمایاں خطیبوں میں ہوتا ہے۔
شریعت کے حوالے سے ان کی متعدد تصانیف ہیں جن میں فتاویٰ، عقائد پر تحریریں اور حلال و حرام کے احکام سے متعلق مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے فتاویٰ پر مبنی کئی کتب بھی مرتب کی گئی ہیں۔
سعودی عرب میں آل الشیخ خاندان روایتی طور پر مذہبی اور عدالتی اداروں پر کنٹرول رکھتا ہے۔تعلیمی سفر
عبدالعزیز آل الشیخ نے سنہ 1955 سے سنہ 1961 تک چھ برس کے دوران اُس وقت مملکت کے مفتیِ اعظم، محمد بن ابراہیم آل الشیخ سے کتاب التوحید، تین بنیادی اصول اور امام نووی کے چالیس احادیث کی تعلیم حاصل کی تھی۔
انھوں نے سابق مفتیِ اعظم عبدالعزیز بن باز سے علمِ وراثت کی تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح عبدالعزیز بن صالح المرشد سے نحو (عربی گرائمر)، علمِ وراثت اور توحید پڑھا۔ عبدالعزیز الشثری سے عمدۃ الاحکام اور زاد المستقنع کا درس لیا۔
عبدالعزیز آل الشیخ نے 1955 میں ریاض کے معہد الدعوۃ العلمی میں باضابطہ تعلیم کا آغاز کیا۔
بعدازاں 1961 میں ریاض کی امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے کالج آف شریعہ میں داخلہ لیا اور 1964-1965 میں عربی اور شریعت میں تخصص کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے۔
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کی پیشہ ورانہ زندگی
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کو 1965 میں ریاض کے معہد الدعوۃ العلمی میں استاد مقرر کیا گیا جہاں وہ آٹھ برس تک تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
بعدازاں وہ ریاض کی امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے کالج آف شریعہ سے منسلک ہوئے، جہاں 1979 میں انھیں اسسٹنٹ پروفیسر اور 1980 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی ملی۔
انھوں نے ریاض کے اعلیٰ ادارۂ قضا (اعلیٰ عدالتی ادارہ) میں بھی تدریس کی اور سعودی جامعات کی متعدد علمی مجالس کے رکن رہے۔
اپنی تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی علمی نگارشات کی نگرانی اور جانچ بھی کرتے رہے۔ اس ضمن میں انھوں نے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے کالج آف شریعہ، جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے کالج آف شریعہ اور اعلیٰ ادارۂ قضا کے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے مقالہ جات پر نظرثانی اور بحث و مباحثہ کیا۔
1969 میں محمد بن ابراہیم کی وفات کے بعد وہ ریاض کی شیخ محمد بن ابراہیم مسجد میں امام و خطیب مقرر ہوئے۔
اگلے سال انھیں شیخ عبداللہ بن عبداللطیف مسجد میں خطبہ جمعہ کی امامت سونپی گئی، جس کے بعد وہ ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ مسجد کے امام و خطیب مقرر ہوئے۔
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے دروس و خطبات، لیکچرز، کانفرنسوں اور سیمینارز میں بھی شرکت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے مذہبی پروگراموں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔
آل الشیخ نے ترک ڈراموں کی عرب دنیا میں مقبولیت کی بھی سخت مذمت کی اور انھیں توجہ بھٹکانے والی سرگرمیاں قرار دیا۔عبدالعزیز آل الشیخ کن عہدوں پر فائز رہے؟
سعوی عرب کی وزارتِ اطلاعات کے تحت چلنے والے پلیٹ فارم سعودی پیڈیا کے مطابق:
- 1982 میں عبدالعزیز آل الشیخ کو عرفات کی مسجد نمرہ میں امام و خطیب مقرر کیا گیا۔
- 1987 میں وہ ہیئتِ کبار العلما (سعودی عرب میں اعلیٰ ترین دینی اور فقہی ادارہ ہے، جو شریعت اور دینی امور میں رہنمائی فراہم کرتا ہے) کے رکن نامزد ہوئے۔
- 1991 میں وہ لجنۃ الدائمۃ برائے علمی تحقیق و افتا کے مستقل سینئر رکن بنے۔
- 1995 میں شاہی فرمان کے ذریعے انھیں مملکت کا نائب مفتیِ اعظم مقرر کیا گیا۔
- 14 مئی 1999 کو سابق مفتیِ اعظم عبدالعزیز بن باز کی وفات کے بعد، شاہی فرمان کے ذریعے انھیں مفتیِ اعظم سعودی عرب، ہیئتِ کبار العلما کے سربراہ اور الرئاسۃ العامۃ للبحوث العلمیۃ والافتا (جنرل پریذیڈنسی آف اسلامک ریسرچ اینڈ افتا) کا چیئرمین مقرر کیا گیا جہاں انھیں وزیر کے مساوی منصب حاصل تھا۔
عبدالعزیز آل الشیخ نے فقہ، شرعی نظریات اور فتاویٰ پر کئی کتابیں شائع کی ہیں جن میں ’کتاب اللہ، العظیم‘، ’موعظت عرفہ کا مجموعہ‘ اور ’نور على الدرب‘ پروگرام کے فتاویٰ شامل ہیں۔ یہ کتابیں طہارت، نماز، زکوۃ، روزہ اور حج کے احکام سمیت مختلف شرعی موضوعات پر رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔
یہ خاندان محمد بن عبدالوہاب (1703–1792)، جو وہابی اور سلفی فکر کے بانی تھے، کی نسل سے تعلق رکھتا ہے اور تقریباً 250 سال سے حکمران خاندان آل سعود کے ساتھ نہ صرف قریبی تعلقات رکھتا ہے بلکہ دونوں خاندانوں میں آپسی شادیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔حکمران خاندان آل سعود سے قریبی تعلق
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کو 2009 میں پہلی مرتبہ ’دی مسلم 500: دنیا کے 500 سب سے بااثر مسلمانوں‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
ان کی شمولیت ان کے ایک ممتاز اسلامی عالم کے طور پر کردار اور عالمی سلفی تحریک میں ان کے اثر و رسوخ کی عکاسی کرتی ہے۔
’دی مسلم 500‘ میں ان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ بطور مفتی اعظم سعودی عرب میں سب سے اعلیٰ مذہبی اتھارٹی کے حامل ہیں اور عالمی سطح پر سلفی مسلمانوں کی وسیع تحریک میں ایک سرکردہ مذہبی رہنما کے طور پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
’دی مسلم 500‘ میں ان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ سعودی عرب میں آل الشیخ خاندان روایتی طور پر مذہبی اور عدالتی اداروں پر کنٹرول رکھتا ہے، یہ خاندان محمد بن عبدالوہاب (1703–1792)، جو وہابی اور سلفی فکر کے بانی تھے، کی نسل سے تعلق رکھتا ہے اور تقریباً 250 سال سے حکمران خاندان آل سعود کے ساتھ نہ صرف قریبی تعلقات رکھتا ہے بلکہ دونوں خاندانوں میں آپسی شادیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
’دی مسلم 500‘ کے مطابق سعودی عرب کے مفتی اعظم کے طور پر آل الشیخ سعودی عرب میں قائم سلفی مسلمانوں کے عالمی نیٹ ورک کے سب سے اہم مذہبی رہنما تھے۔ ان کے فتاویٰ زیادہ تر قرآن کی لفظی تعبیر پر مبنی ہیں اور مسلمانوں کی زندگیوں میں شامل پرانی تفسیروں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
انھوں نے عوامی طور پر ایسے مسلم ٹیلی وینجلسٹس (ٹی وی پر مذہبی مبلغ یا مذہبی پرچار کرنے والے) پر کڑی تنقید کی جو مسلمانوں کو سالگرہ اور دیگر تقریبات منانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق آل الشیخ نے ترک ڈراموں کی عرب دنیا میں مقبولیت کی بھی سخت مذمت کی اور انھیں ’توجہ بھٹکانے والی سرگرمیاں‘ قرار دیا۔
آل الشیخ نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ پر بھی شدید تنقید کیا کرتے تھے۔
سنہ 2014 میں امریکہ میں سعودی سفارتخانے نے آل الشیخ سے منسوب ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ: 'شدت پسندی، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے نظریات کا کسی بھی طرح سے اسلام سے تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کے پہلے دشمن ہیں اور مسلمان ان کا پہلا شکار ہیں، جیسا کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک گروہوں کے جرائم میں دیکھا گیا ہے۔'
’دی مسلم 500‘ کے مطابق 1932 میں سعودی ریاست کے قیام میں مذہبی اتھارٹیز کا اہم کردار رہا اور اس کے بعد انھوں نے بہت زیادہ طاقت حاصل کی تاہم انھیں ریاست کی اجازت کے بغیر سیاست پر تبصرہ کرنے سے روکا گیا تھا۔
مملکت کے اگلے مفتیِ اعظم کا تقرر کیسے ہو گا؟
مفتیِ اعظم کا عہدہ سعودی عرب میں سب سے اعلیٰ مذہبی اتھارٹی کا حامل ہے اور اس کی تقرری بادشاہ کے حکم سے ہوتی ہے۔
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے 1999 میں اس عہدے کا آغاز کیا تھا اور وہ آل الشیخ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ’دی مسلم 500‘ کے مطابقیہ خاندان سعودی عرب میں مذہبی اور عدلیہ کے اداروں پر اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
نئے مفتیِ اعظم کی تقرری کے عمل میں مملکت کے مذہبی اداروں اور علما کی مشاورت بھی شامل ہو سکتی ہے، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ حتمی فیصلہ سعودی بادشاہ کا ہو گا۔

’امام ترکی بن عبداللہ مسجد کے مینار اُن کی خوش آہنگ تلاوت کے گواہ ہیں‘
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کی وفات پر سعودی عرب اور دنیا بھر سے مسلمان سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات شیئر کر رہے ہیں اور بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ ان کی وفات سے سعودی عرب اور مسلم دنیا ایک ممتاز عالم سے محروم ہو گئی ہے۔
سلمان الھویسین نامی صارف نے لکھا ’خدا شیخ عبدالعزیز بن عبدالله آل الشیخ کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنت کے کشادہ باغات میں مقام عطا کرے اور ان کی خدمات، قربانی، تعلیم اور رہنمائی کے بدلے میں انھیں بہترین جزا دے۔‘
سلمان الھویسین نے مزید لکھا کہ ’عرفات کے پہاڑ ان کے خطبات کی بازگشت سے گونجتے ہیں، جو اپنی نوعیت میں بے مثال ہیں۔‘
عبدالعزیز التریفی نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم ان کی خوش آہنگ آواز میں قرآن کی تلاوت سننے سے محروم ہو گئے ہیں۔‘