جن دو ٹیموں کو یکے بعد دیگرے ’ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم‘ قرار دیا جا رہا تھا، ان میں سے ایک تو گروپ سٹیج سے ہی بے دخل ہو گئی جبکہ دوسری کو ابوظہبی میں پاکستان نے تقریباً واپسی کا پروانہ تھما دیا
بطور بلے باز جس اپروچ سے خود سنتھ جے سوریا کھیلا کرتے تھے، اسی مائنڈ سیٹ کے تحت ان کے تلے پروان چڑھتا سری لنکن ٹاپ آرڈر بھی کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاتھم نسانکا، کوسال مینڈس اور کوسال پریرا اپنے کوچ ہی کی طرح گیند پر لپکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر لپک جھپک کا یہ کھیل ابوظہبی کی اس پچ پر زیادہ چل نہیں سکتا تھا کہ شاہین آفریدی جیسے بولر کو تو اگر پچ پر ہریالی کی کوئی رمق ہی نظر آ جائے، بات زیادہ بڑھنے نہیں پاتی۔
دونوں ٹیموں کے لیے یہ بقا کی جنگ تھی۔ پاکستان ہی کی طرح سری لنکا بھی اپنے پہلے سپر فور میچ سے شکست کا بوجھ لیے آ رہا تھا اور دونوں ہی ٹیمیں جانتی تھیں کہ یہاں ہار کا مطلب ’باہر‘ بھی ہو سکتا ہے۔
سری لنکن بیٹنگ جس اپروچ کے تحت چل رہی ہے، وہ بہرحال اپنی جگہ سُودمند بھی رہی ہے۔ گروپ سٹیج میں سری لنکا نے اپنے تینوں میچ اسی جارحانہ اپروچ کی بدولت جیتے اور اپنے گروپ میں اول درجے پر رہی۔
بنگلہ دیش کے خلاف سپرفور میچ میں اگرچہ سری لنکن بولنگ کی کم مائیگی کھل کر سامنے آئی جب پانچویں بولر کا کوٹہ پورا کرتے کرتے چارتھ اسالانکا میچ ہی گنوا بیٹھے۔ لیکن پاکستان کے خلاف الیون میں بہرحال انھوں نے پانچویں بولر کا اہتمام بھی کیا۔
سری لنکن بیٹنگ کا خیال تھا کہ انڈیا کے خلاف اچھے بھلے مجموعے کے دفاع میں ناکام رہنے والی پاکستانی بولنگ یہاں بھی دباؤ میں تبھی آئے گی جب شروع سےہی جارحیت آزمائی جائے گی۔
لیکن پاکستان نے اپنے حالیہ پاور پلے فارمولے سے پلٹ کر پہلے چھ ہی اوورز سیمرز کو دے دیے۔ یہ سری لنکن بیٹنگ کے لیے یکسر غیر متوقع تھا۔ اور پھر اس سے بھی بڑی حیرت پاکستانی سیمرز کا ڈسپلن تھا۔
شاہین آفریدی اور پہلے اوورز کی وکٹوں کا جو دیرینہ رشتہ پچھلے سال ڈیڑھ میں ماند پڑتا نظر آ رہا تھا، وہ پھر سے بحال ہو گیا کہ ایک بار پھر نہ صرف وہ بہترین پیس سے سوئنگ کرتے نظر آئے بلکہ اپنی سوچ میں بھی بلے بازوں سے ایک قدم آگے دکھائی دیے۔
پارٹ ٹائم سپنرز کے گرد ترتیب شدہ حالیہ پاکستانی بولنگ اٹیک کے لیے یہ بدلاؤ کسی خوشگوار حیرت سے کم نہ تھا کہ ابوظہبی کی کنڈیشنز میں نہ صرف سارا انحصار سیمرز پر رکھا گیا بلکہ یہ کلیہ کامیابی بھی حاصل کر پایا۔
جو ڈسپلن اور درستی مجموعی طور پہ پاکستانی سیمرز نے دکھائی، وہ لائقِ تحسین تھی کہ دو ہی دن پہلے روایتی حریف کے خلاف میچ گنوانے کے فوری بعد ایسی زبردست کارکردگی نبھانا بہت محنت طلب کام ہے۔
جو کام پچھلے میچ میں شیوم دوبے نے پاکستان کے خلاف کیا اور پاکستان کرنے میں ناکام رہا تھا، یہاں بالآخر وہ بھی حسین طلعت کی پارٹ ٹائم سیم بولنگ سے ہوتا دکھائی دیا۔ بہرحال ایسی بیٹنگ کنڈیشنز میں جزوقتی سیمرز کا سامنا کبھی کبھار سپن سے بھی دشوار تر ہوتا ہے۔
لیکن ابتدائی چند اوورز کے لیے ہلکی سی گھاس کی جھلک موجود ہونے کے باوجود بھی یہ ایک بیٹنگ پچ ہی تھی اور یہاں 160 سے کم کوئی بھی مجموعہ قابلِ دفاع نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستانی بولنگ کاوش تو خوب رہی کہ سری لنکن مجموعے کو بہت ہی پیچھے روک لیا مگر پاکستانی بیٹنگ اپنے تضادات سے باہر نہ نکل پائی اور جو ہدف حواس کھوئے بغیر بھی بآسانی پایا جا سکتا تھا، اسے بھی اک ڈرامائی تشکیل میں الجھا سا ڈالا۔
اگرچہ حسین طلعت اور محمد نواز بالآخر پاکستان کو بحران سے کھینچ ہی لائے مگر اب سلمان آغا کو بھی خود پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ آخر کوئی بھی کھلاڑی محض بطور کپتان تو کسی ٹیم کا حصہ نہیں ہو سکتا۔
پاکستانی بیٹنگ فلاسفی چونکہ پچھلے ایک برس سے چھکوں کی تلاش میں سرگرداں ہے تو یہ اصولی طور پہ بجا ہی نہیں کہ صائم ایوب یا محمد حارث سے ان کی لمبی اننگز اور دفاعی شاٹس کی رینج بابت پوچھا جائے لیکن اگر اپنے تمام تر ٹیسٹ تجربے کے باوجود سلمان آغا سپن کے خلاف ڈھیلے پڑ رہے ہیں تو مسئلہ یقیناً تکنیک کا نہیں ہے۔
پاکستانی کرکٹ کلچر میں قیادت کوئی آسان کام نہیں اور اس سے جڑے آف فیلڈ معاملات بھی ایک کپتان کے ذاتی کھیل پر اثر ڈالتے ہیں۔ مگر اس بے رحم کرکٹ کلچر میں بقا کا رستہ بھی تو صرف پرفارمنس ہی ہے۔
جن دو ٹیموں کو یکے بعد دیگرے ’ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم‘ قرار دیا جا رہا تھا، ان میں سے ایک تو گروپ سٹیج سے ہی بے دخل ہو گئی جبکہ دوسری کو ابوظہبی میں پاکستان نے تقریباً واپسی کا پروانہ تھما دیا۔
اب سلمان آغا کی ٹیم کو اپنے شائقین پر صرف یہ ثابت کرنا باقی ہے کہ وہ لٹن داس کی بنگلہ دیشی الیون سے بہتر ٹیم ہے۔