’کيوٹ ایگریشن (یعنی پیاری چیز کو دیکھ کر بھینچنے کا دل چاہنا) مثبت جذبات کے بوجھ کو سنبھالنے کا ایک دماغی ردعمل ہے جو بہت پیاری چیز دیکھنے کے بعد کنٹرول کرنے کے لیے ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے۔‘یاد رہے کہ یہ احساس اور جزباتنقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہوتے۔
چھوٹے بچوں کو دیکھ کر پیار سے بھینچنا کیوٹ ایگریشن یا پیار میں جارحانہ انداز کہلاتا ہےجب بھی میرا بیٹا ہمارے بلّی کے بچے کو دیکھتا ہے اس کے چہرے پر چمک آ جاتی ہے اور وہ اُس بیچارے کو زور سے گلے لگا لیتا ہے۔ ہم اسے کہتے ہیں کہ بلّی کے بچے کے ساتھ آرام سے پیش آؤ لیکن وہ اس نرم و ملائم جانور کو دیکھتے ہی اسے بھینچنا چاہتا ہے۔
یہ کوئی شرارت نہیں اور نہ ہی وہ اس بلّی کے بچے کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ بس جذبات کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔
میرے بیٹے کی عمر 14 برس ہے اور اس کو بھی پیاری چیزوں کو انتہائی زور سے بھینچنے کی عادت ہے جیسی دیگر عمر کے لوگوں میں ہوتی ہے۔
میرے کچھ ساتھی ہیں جن کی عمر 30 یا 40 برس سے بھی زیادہ ہے اور وہ اس عادت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ’جب بھی میں کسی گُلابی رنگت کے بچے یا موٹے گالوں والے بچے کا دیکھتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں انھیں کھا جاؤں۔‘
ابھی حال ہی میں باپ بننے والے میرے ایک اور ساتھی نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو پکڑ کر اسے ’سختی سے دبانا‘ اور اس کے ’موٹے موٹے پاؤں چبانا‘ چاہتے ہیں۔
ماہرین نفسیات اسے ’پیاری سی جارحیت‘ یا کیوٹ ایگریشن کہتے ہیں اور یہ اس امر کی ایک دلچسپ جھلک ہے کہ ہمارا دماغ پیار کی انتہاؤں سے کس طرح نمٹتا ہے۔
پیار کا جارحانہ انداز کیا ہے

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کی ماہرِ نفسیات لیزا اے ولیمز کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’کيوٹ ایگریشن (یعنی پیاری چیز کو دیکھ کر اسے بھینچنے کا دل چاہنا) مثبت جذبات کے بوجھ کو سنبھالنے کا ایک دماغی ردعمل ہے جو کسی پیاری چیز کو دیکھنے کے بعد ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے۔‘
یاد رہے کہ یہ احساس اور جذبات کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہوتے۔
اصل میں اس کیفیت میں ہمارا دماغ خوشی اور پیار کے بہت زیادہ اور تیز جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہم پر پیار کی جارحیت عموماً اُس وقت طاری ہوتی ہے جب ہم بچوں، بلی کے بچوں یا معصوم آنکھوں والے کتے کے بچوں کو دیکھتے ہیں۔
ولیمز کے مطابق، ایسا لگتا ہے جیسے ہم انھیں زور سے دبانا یا چٹکی کاٹنا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت میں اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ پیار کا اظہار ہوتا ہے۔
ہم پیار آنے پر بھینچنا کیوں چاہتے ہیں
خوشی اور پیار کے شدید جذبات سے زہن کیسےنمٹتا ہےکسی بہت زیادہ پیاری چیز کو دیکھ کر اسے پیار سے بھینچنا ایک عجیب مگر عام کیفیت ہے۔ ماہرینِ نفسیات اسے ڈائمارفَس ایموشنل ایکسپریشن کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھار ہمارے اندر کا احساس اور ہمارے چہرے یا عمل کا اظہار ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
یہ ردعمل بظاہر عجیب لگتا ہے لیکن بالکل نارمل ہے۔ امریکا کی ییل یونیورسٹی کے محققین کہتے ہیں کہ یہ کیفیت ہر عمر اور ہر ثقافت کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
پیاری چیزوں کو دیکھ کر دماغ میں ہونے والا احساس
کتوں یا بلی کے بچوں کو دیکھ کر اکثر ان کو لپٹانے اور بھینچنےکا دل کرتا ہے جو کیوٹ ایگریشن کہلاتی ہےجب بھی ہم کسی بہت ہی پیاری چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمارا دماغ ڈوپامائن نام کا ایک ہارمون خارج کرتا ہے۔ یہ ’خوشی دینے والا‘ ہارمون ہے، جو مزیدار کھانا کھانے، محبت محسوس کرنے یا کوئی کامیابی حاصل کرنے پر بھی خارج ہوتا ہے۔
کبھی کبھی جذبات کی یہ شدت معمول سے زیادہ ہو جاتی ہے اور ایسے میں دماغ کا ایک حصہ ’ایمیگڈالا‘ جذبات کو روکنے کے لیے فوراً حرکت میں آتا ہے۔ یوں یہ ہمیں ان جذبات کے مطابق کوئی سخت یا عجیب عمل کرنے سے روک دیتا ہے۔
سری لنکا کی ایک یونیورسٹی کی سینیئر لیکچرر ڈاکٹر کانتی ہیٹی گوڈا کہتی ہیں کہ ’جب دماغ کا کچھ حاصل کر لینے کے احساس والا نظام متحرک ہوتا ہے تو ہمیں لگتا ہے جیسے ہم کسی چیز کو دبانا، چٹکی کاٹنا، کاٹنا یا بھینچنا چاہتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی دماغ کا وہ حصہ بھی متحرک ہو جاتا ہے جو جذبات کو قابو کرتا ہے اسی لیے ہم حقیقت میں ایسا نہیں کرتے۔‘
یہی کھنچاؤ اور روک تھام کا عمل اس کیفیت کو پیدا کرتا ہے جسے ہم کیوٹ ایگریشن کہتے ہیں۔
کیا یہ جذبات نقصان دہ ہیں

ماہرین کے مطابق پیار میں جارحانہ انداز دراصل جذبات کے اظہار اور بہت زیادہ مثبت احساسات کو محفوظ طریقے سے قابو میں رکھنے کا ایک صحت مند طریقہ ہے۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ دماغ ایک ہی وقت میں مختلف اور متضاد جذبات کو کیسے سنبھالتا ہے۔ ماہرِ نفسیات اسے جذبات پر قابو پانے کا ایسا طریقہ سمجھتے ہیں جو ہمیں بہت زیادہ خوشی یا پیار کے جذبات کو ایک محفوظ اور سماجی طور پر قابلِ قبول انداز میں پراسیس کرنے میں مدد دیتا ہے۔
البتہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ اپنے جذباتی ردعمل کو قابو میں رکھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر کپِلا راناسنگھے کہتے ہیں کہ ’چاہے وہ جذبات پیاری چیز دیکھ کر پیدا ہوں، غصے کی وجہ سے ہوں یا خواہش کی وجہ سے اگر ہم انھیں فوراً پورا کرنے کی کوشش کریں تو یہ غلط یا سماجی طور پر ناقابلِ قبول رویے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق ’کسی بھی مضبوط خواہش کا فوراً جواب دینا خطرناک ہے۔ ہمیں اسے قابو کرنا سیکھنا چاہیے۔‘
کیا کیوٹ ایگریشن کا تجربہ ہر کسی کو ہوتا ہے
ماہر نفسیات کے مطابق جہاں آبادی کے 50 سے 60 فیصد حصے کو کیوٹ ایگریشن یا جارحیت پر مبنی پیار کے جذبات کا تجربہ ہوتا ہے وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان جذبات کا کبھی سامنا نہیں کرتے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کے اندر کچھ غلط ہے۔
ماہر نفسیات تاحال یہ جاننےمیں کامیاب نہیں ہو سکے کہ جن لوگوں کو پیاری چیزیں دیکھ کر ان کو لپٹانے یا بھینچنے کا دل نہیں چاہتا تو کیا ان کے پاس پیاری چیزوں کو دیکھ کر احساسات کے اظہار کے مختلف طریقے موجود ہیں۔