یہ کوئی خیالی یا مافوق الفطرت مخلوق نہیں بلکہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ’انرجی ویمپائر‘ یعنی آپ کو پریشان کرنے والا انسان کہا جاتا ہے۔ یعنی ان سے مراد وہ دوست ہیں جن کے ساتھ جب آپ وقت گزارتے ہیں تو وہ آپ کو ذہنی و جذباتی طور پر تھکا دیتے ہیں۔
کیا آپ کی زندگی میں بھی کوئی ایسا شخص ہے جو آپ کی توانائی نچوڑ رہا ہے؟کیا آپ کی زندگی میں کوئی ایسا شخص ہے جو آپ کے صبر کا امتحان لے رہا اور آپ کی توانائی کو چوس رہا ہے؟
یہ کوئی خیالی یا مافوق الفطرت مخلوق نہیں بلکہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ’انرجی ویمپائر‘ یعنی آپ کو پریشان کرنے والا انسان کہا جاتا ہے۔ یعنی ان سے مراد وہ دوست ہیں جن کے ساتھ جب آپ وقت گزارتے ہیں تو وہ آپ کو ذہنی و جذباتی طور پر تھکا دیتے ہیں۔
یہ لوگ اکثر شکایتیں کرتے ہیں، صرف اپنے بارے میں بات کرتے ہیں اور آپ یا آپ کی زندگی میں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں دکھاتے۔
ان کی شناخت کیسے کی جائے؟
ماہرِ نفسیات اور مصنفہ سوزی ریڈنگ کے مطابق ایسے لوگ ہمیشہ توجہ کے طالب رہتے ہیں اور آپ سے ہمیشہ خود کو اہمیت دینے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
یہ لوگ ہمیشہ آپ کے لیے ستائشی جملے ادا کرتے ہیں اور آپ کو خوش رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آپ کو جذبات کا اظہار کرنے کی آزادی نہیں دیتے۔
مصنفہ اور صحافی رادھیکا سنگھانی کہتی ہیں کہ ایسے لوگوں سے ملنے کے بعد آپ کی کیفیت ہی آپ کو خود بتا دیتی ہے کہ آپ کسی ’انرجی ویمپائر‘ سے ملے ہیں۔
’میں کئی بار ایسے لوگوں سے ملنے کے بعد سوچتی ہوں کہ یہ دوستی کام نہیں کر رہی، میں خود کو بالکل خالی اور تھکا ہوا محسوس کر رہی ہوں اور تب سمجھ آتا ہے کہ مسئلہ ان میں ہے، مجھ میں نہیں۔‘
رادھیکا کا خیال ہے کہ آپ کو اپنے احساسات کے اظہار میں مخلص ہونا چاہیےاگر آپ کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے تو ان سے نمٹنے کے تین مؤثر طریقے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:
1- انھیں بتائیں کہ وہ آپ کو کیسا محسوس کرواتے ہیں
اکثر لوگ خود نہیں جانتے کہ ان کا رویہ دوسروں کو کس طرح سے متاثر کر رہا ہے۔
یہ بات کرنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے لیکن کھل کر بات کرنا اور انھیں یہ بتانا کہ ان کا رویہ آپ پر کیسا اثر ڈال رہا ہے، بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
سوزی کہتی ہیں: 'بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں لوگوں کو جب اس بارے میں بتایا گیا تو وہ حیران رہ گئے۔ انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کے رویے کا دوسروں پر کیا اثر ہو رہا ہے۔'
اس قسم کی ایمانداری سے دوستی کو بچایا جا سکتا ہے۔
رادھیکا اس کے متعلق ایک یہ انداز تجویز کرتی ہیں کہ 'جب ہم ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مجھے سنا نہیں جا رہا، مجھ سے کوئی سوال بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔'
’اگر وہ واقعی دوست ہیں تو وہ آپ کی بات سنیں گے اور اسے نظر انداز نہیں کریں گے۔‘
رادھیکا کہتی ہیں: ’اگر وہ فوراً انکار کریں یا دفاعی مؤقف اختیار کریں تو یہ میرے لیے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ یہ وہ شخص نہیں جسے میں اپنی زندگی میں رکھنا چاہتی ہوں۔‘
2- واضح حدود متعین کریں
اگر آپ کے دوست اپنے رویے میں تبدیلی دکھانے کو تیار نہیں اور آپ دونوں کے درمیان تعلق ختم کرنا بھی ممکن نہیں تو اپنی حفاظت کے لیے واضح حدود طے کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ وقت کم کر دینے کی صورت میں ہو سکتا ہے یا اس طرح کے اصول بنانے سے کہ آپ دونوں کب اور کیسے ملیں گے۔
سوزی کہتی ہیں: ’انھیں واضح طور پر بتائیں کہ کیا چیز قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔‘
مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں: ’چلو، ہم بار بار ایک دوسرے کو پیغامات نہیں بھیجیں گے‘ یا ’ہم اپنی جذباتی زندگی پر بات نہیں کریں گے۔‘
جب آپ ان سے ملیں تو معمول کی سرگرمیوں کو بدلنا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ عام طور پر کھانے یا کافی کے لیے ملتے ہیں تو ملنے کا کوئی دوسرا موقع آزمائیں۔
سوزی کا کہنا ہے کہ ’کیوں نہ ایک ساتھ چہل قدمی کریں؟ یا ایک ساتھ ورزش کریں، تاکہ آپ کے اپنے جذباتی تقاضے بھی پورے ہوں۔ اس سے ان کے باتوں پر حاوی ہونے کا رجحان کم ہو جائے گا۔‘
رادھیکا کا کہنا ہے کہ دوست سے ملنے کے بعد اپنے احساسات کا محاسبہ کریں3- دوستی ختم کرنے کے لیے تیار رہیں
اس بات پر خاص توجہ دیں کہ کسی دوست سے ملنے کے بعد آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔
’اگر آپ نے کسی سے ملاقات کی ہے تو سوچیں کہ کیا یہ اس سے آپ کا مزاج اچھا ہوگیا ہے؟ کیا آپ بہتر محسوس کر کے واپس آئے، یا یہ اس اعتبار سے صفر تھا؟ کیا آپ بالکل خالی خالی یا تھکا ہوا محسوس کر رہے ہیں؟‘
ہر شخص کی قوت برداشت کی سطح مختلف ہوتی ہے، اس لیے اپنے احساسات پر بھروسہ کریں کہ آپ کو کب وقت کم کرنا ہے یا کب تعلق ختم کر دینا ہے۔
اگر آپ محسوس کریں کہ اب یہ تعلق مزید نہیں چل سکتا تو رادھیکا کے مطابق دوستی ختم کرنے سے نہ گھبرائیں۔
’بعض مواقع پر اگر آسان ہو تو میں خود کو آہستہ آہستہ ایسے افراد سے دور کر لیتی ہوں، خاص طور پر اگر یہ کوئی نیا نیا شناسا ہے۔‘
اس موقع پر ہمیں سنہ 1963 میں آنے والی فلم 'گمراہ' میں ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا معروف گیت 'چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں' یاد آتا ہے، جس میں ایک شعر ہے جو تعلق کے لحاظ سے انتہائی حسب حال نظر آ رہا ہے۔
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا