’عرب عوام عراق کو نہیں بھولے‘: کیا سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر غزہ کا انتظام سنبھال سکتے ہیں؟

یک بیان میں سر ٹونی بلیئر نے حیرت انگیز طور پر ٹرمپ کے منصوبے کی تعریف کی اور اسے ’جرات مندانہ‘ اور ’'دو سال کی جنگ، مصائب اور مشکلات کو ختم کرنے کا بہترین موقع‘ قرار دیا تھا۔
Getty Images
Getty Images
ٹونی بلیئر دس برس سے زیادہ کے عرصے تک برطانوی وزیرِ اعظم رہے ہیں

دس سال سے زیادہ عرصے تک برطانیہ کے وزیر اعظم کی حیثیت سے کام کرنے والے سر ٹونی بلیئر سیاسی سمجھوتے اور گٹھ جوڑکرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

ان کی شہرت ایک ایسے ماہر مذاکرات کار کی سی ہے جو روایتی دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے نکل کر معاملات کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

لیکن اگر غزہ میں امن ہو جاتا ہے اور انھیں اس علاقے کی انتظامیہ کو چلانے میں مدد کے لیے بلایا جاتا ہے تو کیا ’ٹیفلون ٹونی‘ کے نام سے مشہور سابق برطانوی وزیر اعظم تمام فریقوں کو خوش رکھنے اور مکمل جنگ بندی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟

ان کا کردار ابھی تک واضح نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے 20نکاتی امن منصوبے میں ایک بین الاقوامی عبوری ادارے کا تصور پیش کیا گیا ہے جو جنگ کے بعد غزہ کے حکمرانوں کی نگرانی کرے گا۔ امریکی صدر اس نام نہاد ’بورڈ آف پیس‘ کی صدارت کریں گے اور 72سالہ سر ٹونی بلیئر اس کا حصہ ہوں گے۔

ٹونی بلیئر سے متعلق ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ وہ ایک ’بہت اچھے آدمی‘ ہیں۔ اس مجوزہ تنظیم یا ادارے میں سر ٹونی بلیئر کی موجودگی کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔

سابق وزیر اعظم کئی مہینوں سے غزہ میں امن سے متعلق تجاویز تیار کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے اہم مشیر رون ڈرمر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

اگست میں سر ٹونی بلیئر نے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جس میں غزہ کی پٹی کے لیے جنگ کے بعد کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ایک ماہ قبل انھوں نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کے چیف ایلچی سٹیو وٹکوف سے بھی بات چیت کی تھی۔ ایک بیان میں سر ٹونی بلیئر نے حیرت انگیز طور پر ٹرمپ کے منصوبے کی تعریف کی اور اسے ’جرات مندانہ‘ اور ’'دو سال کی جنگ، مصائب اور مشکلات کو ختم کرنے کا بہترین موقع‘ قرار دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ان تجاویز سے نہ صرف اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امن کا راستہ تلاش کرنے کا امکان پیدا ہوا ہے بلکہ انتہا پسندی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے اور اقوام کے درمیان امن اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے ایک وسیع علاقائی اور عالمی اتحاد بھی پیدا ہوا ہے۔

سنہ 1997 میں وزیر اعظم کی حیثیت سے انھوں نے خطے میں امن کے حصول کے لیے کلنٹن انتظامیہ کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔

Getty Images
Getty Images
انھوں نے جون 2007 میں برطانوی وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑا تھا

جون سنہ 2007میں جس دن انھوں نے میں وزیرِ اعظم کا عہدہ چھوڑا اُسی روز انھیں نام نہاد ’کوارٹیٹ‘ یعنی چار مُمالک کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ گروپ امریکہ، روس، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ پر مشتمل تھا اور امن قائم کرنے کی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ ذمہ داری انھوں نے سنہ 2015 تک نبھائی۔

ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ کوارٹیٹ میں ان کا دائرہ کار صرف معاشی ترقی تک محدود تھا اور انھیں سیاسی عمل سے الگ رکھا گیا تھا۔

اس کے بعد سے ان کے کاروباری اور دیگر مفادات جن میں ان کا ’ٹونی بلیئر انسٹیٹیوٹ فار گلوبل چینج‘ بھی شامل ہے نے انھیں خطے سے وابستہ رکھا ہے۔

سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ یہی چیز ٹونی بلیئر کو ایک منفرد مقام دیتی ہے۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے نزدیک اور قابلِ اعتماد ہیں، مشرقِ وسطیٰ میں ان کا کردار رہا ہے، ان کے وہاں وسیع پیمانے پر تعلقات ہیں اور وہ اسرائیلی و فلسطینی قیادت دونوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کا طویل تجربہ بھی رکھتے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل نک ہاپٹن کا کہنا ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم واحد مغربی رہنما ہیں جنھیں ایسا کردار دینے کے حوالے سے سوچا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ان کے پاس تجربہ بھی ہے اور لوگ اُن پر اعتماد بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ 24 سال سے مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں کسی نہ کسی طور پر نہ صرف شامل رہے ہیں بلکہ اہم کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔‘

’لیکن یہ سب صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتماد حاصل کر سکیں اور اگر وہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کے زیرِ اثر نظر نہ آئیں۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی دکھانا ہوگا کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت بھی ان پر اعتماد کرتی ہے۔‘

تاہم اس سب بات چیت کے درمیان ایک اور بڑا ’لیکن‘ ہے اور وہ یہ کہ جہاں سر ٹونی بلیئر یہ اہم کرداد ادا کرنے جا رہے ہیں یا جس کا امکان ہے وہیں وہ اس کردار کے ساتھ بہت سا بوجھ بھی لے کر آئیں گے۔

کچھ لوگوں کے لیے وہ ایک متنازع شخصیت ہیں اور دوسروں کے لیے شاید اس سے بھی بدتر۔

عراق پر حملے میں بلیئر کا کردار ابھی ’بھلایا نہیں گیا‘

سنہ 2003 میں عراق پر حملے میں شمولیت سے متعلق اُن کا کردار اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے متعلق جھوٹے دعوے اب بھی اُن کی ساکھ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں نے انھیں ’جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔‘

اقوامِ متحدہ کی جانب سےت مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے نامزد کی گئی خصوصی مندوب فرانچسکا البانیز نے بڑے واضح انداز میں کہا کہ ’ٹونی بلیئر؟ بالکل نہیں۔ فلسطین سے دور رہیں۔‘

انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’کیا ہم ہیگ میں ملاقات کریں؟‘ اپنی اس بات میں وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔

سابق برطانوی وزیر خارجہ سر سائمن فریزر نے کہا کہ سر ٹونی بلیئر نے فلسطینی مسئلے میں حقیقی دلچسپی ظاہر کی اور واشنگٹن، اسرائیل اور خلیجی ممالک میں ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ’لیکن عرب عوام عراق کو نہیں بھولے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’غزہ کے مستقبل کی نگرانی کے لیے ایک وسیع بنیاد کی ضرورت ہے اور یہ امریکی یا برطانوی منصوبے جیسا نظر نہیں آنا چاہیے۔‘

حماس کی جانب سے اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔

تنظیم کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے اس ہفتے کہا تھا کہ سر ٹونی بلیئر کو غزہ کا انتظام کرنے کے بجائے عراق پر امریکی حملے کے لیے مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ’بلیئر سے جڑا کوئی بھی منصوبہ بری علامت ہے۔‘

کچھ فلسطینی اور دیگر لوگ بھی ٹونی بلیئر کو تاریخی طور پر اسرائیل اور امریکہ کے موقف کے بہت قریب سمجھتے ہیں۔ سابق بین الاقوامی امن مذاکرات کار نومی بار یاکوو نے کہا کہ ’میرے خیال میں فلسطینی ان پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ وہ انھیں کوارٹیٹ ایلچی کے طور پر ایک بڑا ناکام تجربہ سمجھتے ہیں۔‘

برطانیہ کے وزیرِاعظم کیر سٹارمر نے بھی منگل کو اپنے لیبر کانفرنس خطاب میں ٹرمپ امن منصوبے کی تعریف تو کی مگر اپنے پیش رو کے ممکنہ کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

آٹھ طویل سالوں تک مشرقِ وسطیٰ کے امن ایلچی کے طور پر ٹونی بلیئر کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط بنانا تھا تاکہ ایک دن وہ ایک فلسطینی ریاست چلانے کے قابل ہو سکے۔ لیکن کم ہی لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی آج اس مقام پر ہے۔

فلسطینی یہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے غیر قانونی بستیوں اور آباد کاروں کے تشدد کے خلاف کوئی خاص اقدامت نہیں کیے۔ کچھ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انھیں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مضبوط موقف اپنانا چاہیے تھا، جبکہ انھوں نے زیادہ تر توجہ معاشی ترقی پر مرکوز کیے رکھی۔

Getty Images
Getty Images
کچھ فلسطینی اور دیگر لوگ بھی ٹونی بلیئر کو تاریخی طور پر اسرائیل اور امریکہ کے موقف کے بہت قریب سمجھتے ہیں

ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ ٹونی بلیئر اب بھی مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ختم کرنے کی کوشش میں کیوں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ وہ خود کو ایک مذاکرات کار کے روپ میں دیکھتے ہیں کیونکہ انھوں نے ’گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ‘ طے کر کے شمالی آئرلینڈ میں تصادم کم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ہیلتھ سیکریٹری ویس سٹریٹنگ نے میڈیا کو بتایا کہ سر ٹونی کا کردار ’لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے گا‘ کیونکہ عراق جنگ کا معاملہ اور شمالی آئرلینڈ میں امن قائم کرنا ان کا ’ناقابلِ یقین ورثہ‘ ہے۔

سٹریٹنگ نے کہا کہ ’اگر وہ اپنی مہارت کو اسرائیل فلسطین تنازع میں بروئے کار لا سکتے ہیں جس میں نہ صرف اسرائیلی اور فلسطینی شامل ہوں بلکہ خطے کے دیگر مُمالک یا طاقتیں بھی تو یہ بہت بہتر ہوگا۔‘

حقیقت میں بلیئر کا کردار ایک ثانوی معاملہ ہے۔ ان کے لیے کام کرنے کا موقع صرف اسی صورت میں ہوگا جب یہ امن منصوبہ کامیاب ہو اور قائم رہے۔ تاہم ابھی تک اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

اس سے زیادہ اہم دونوں طرف کے وہ اختلافات ہیں جو ابھی وائٹ ہاؤس کے بیان کردہ فریم ورک میں حل نہیں ہوئے۔

چیٹھم ہاؤس تھنک ٹینک کی مشرقِ وسطیٰ پروگرام کی ڈائریکٹر صنم وکیل نے کہا کہ ’ٹونی بلیئر اور عراق میں مغربی مداخلت کے ان کے سابقہ کرداد پر توجہ دینے سے اس پیس فریم ورک کے حقیقی چیلنجز چھپ جاتے ہیں، جس میں تفصیلات، ٹائم لائنز اور قابلِ عمل اقدامات کا فقدان ہے اور جسے ابھی تک فلسطین یا اسرائیل دونوں ہی جانب سے قبول نہیں کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک کاغذ پر بیس نکات سے آگے بڑھنے کے لیے سنجیدہ کام کے بغیر یہ منصوبہ صرف ایک ظاہری سفارت کاری بن کر رہ جائے گا جو ناانصافی کو قائم رکھے گا اور فلسطینیوں سے خود مختاری اور اختیار چھین لے گا۔‘

لہٰذا شاید اصل اہمیت ٹونی بلیئر کے نفسیاتی ڈرامے یا ان کے بارے میں لوگوں کی متنازع رائے نہیں ہے۔ ایک زیادہ اہم سوال یہ ہو سکتا ہے کہ غزہ میں کسی عبوری اتھارٹی کا کیا کردار ہوگا اور کیا ٹونی بلیئر کے پاس یہ کردار ادا کرنے کے لیے صحیح مہارت اور تجربہ ہے؟

اگر ان کا کام خلیجی رہنماؤں اور وائٹ ہاؤس کے ساتھ رابطہ قائم کرنا ہوگا تو یہ ایک بات ہے۔ لیکن اگر انھیں مؤثر طور پر غزہ کا انتظام سنبھالنے، تعمیر نو، سکیورٹی اور معاشی ترقی کی نگرانی کرنے کا کہا جائے تو یہ بالکل مختلف معاملہ ہے۔ ایک سفارتکار نے مجھے ٹیکسٹ کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’وائسرائے بلیئر؟ یہ کبھی قبول نہیں ہوگا۔‘

اسی بارے میں


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US