پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریمنواز شریف کی جانب سےپاکستان پیپلز پارٹی پر تنقید کا سلسلہ تاحال تھم نہیں پایا ہے اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے طریقہ کار پر اختلاف سے شروع ہونے والا معاملہ اب پانی اور وسائل کی تقسیم کی بحث میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں دوریاں واقعی بڑھ رہی ہیں؟

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریمنواز شریف کی جانب سےپاکستان پیپلز پارٹی پر تنقید کا سلسلہ تاحال تھم نہیں پایا ہے اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے طریقہ کار پر اختلاف سے شروع ہونے والا معاملہ اب پانی اور وسائل کی تقسیم کی بحث میں تبدیل ہو چکا ہے۔
جمعرات کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز شریف نے ایک بار پھر سوال کیا کہ ملک کے تمام صوبوں کو یکساں وسائل میسر ہیں مگر فرق یہ ہے کہ پنجاب کے وسائل اِس کے عوام پر لگتے ہیں مگر باقی صوبوں کو ملنے والا پیسہ کہا جاتا ہے؟
اُن کا مزید کہنا تھا کہ وہ پنجاب کے عوام کے حقوق کے لیے بات کرتی رہیں گی اور اس کے لیے کسی سے معافی نہیں مانگیں گی۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نےپنجاب میں حالیہ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی مدد کے لیے عالمی امداد کی اپیل کرنے سمیت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی معاونت کرنے پر زور دیا تھا، جبکہ پنجاب کہ وزیر اعلیٰ کا اصرار ہے کہ پنجاب حکومت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مختلف تجاویز دی گئی تھیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے تجویز دی تھی کہ سیلاب زدگان کی مدد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کی جائے۔ تاہم مریم نواز شریف نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر مسئلے کا حل بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں اور یہ بھی کہ وہ پنجاب میںسروے کروائیں گی اور ہر متاثرہ خاندان کو 10 لاکھ روپے تک دیے جائیں گے۔
مریم نواز نے پیپلز پارٹی کی تجویز کو ’پنجاب کے اندرونی معاملات میں مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پیپلزپارٹی اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ اس پر پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ پنجاب میں ’فوٹو سیشن‘ کے علاوہ سیلاب زدگان کے لیے کچھ نہیں ہو رہا۔
دو روز قبل فیصل آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلِی پنجاب مریم نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ ذاتی تنقید پر خاموش رہیں گی، تاہم پنجاب کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی۔
مریم نواز نے چولستان میں نہریں نکالنے کے منصوبے کا بھی دوبارہ ذکر چھیڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ نہریں پنجاب کے پانی پر بنیں گی اور کسی کو اِس کی مخالفت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہماری اتحادی جماعت ہے، لیکن اُنھوں نے سیلاب کے معاملے پر سیاست کی۔ ’ہم پنجاب کے عوام کی جانب اُٹھنے والی ہر اُنگلی توڑ دیں گے۔‘
مریم نواز کے اس بیان کی گونج پارلیمنٹ کے ایوانوں تک پہنچ گئی تھی، جہاں وفاق میں ن لیگ کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے مریم نواز سے اپنے اس بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں اتحادی حکومت کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے مریم نواز کے بیان پر ابھی تک ان کی پارٹی اس موقف پر قائم ہے کہ جب تک معذرت نہیں کی جاتی وہ حکومت کی کسی بھی قانون سازی کی سپورٹ نہیں کریں گے۔
بدھ کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے چیمبر میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نےملاقات کی تھی جس میں معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
مگر اس سیاسی بیان بازی کے بیچ بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ماضی میں مختلف مواقع پر اتحادی رہنے والی مسلم لیگ ن اور پپپلزپارٹی کے درمیان ایک بار پھر دُوریاں بڑھ رہی ہیں؟ کیا مریم نواز کو اپنے والد نواز شریف کی بھی آشیر باد حاصل ہے؟ کیا پیپلز پارٹی حکومتی حمایت سے پیچھے ہٹ سکتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے سیاسی ماہرین اور دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سے بات کی ہے۔
’فی الحال کوئی خطرہ نہیں، لیکن آگے چل کر گڑبڑ ہو سکتی ہے‘
ماہرین کہتے ہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال اور عالمی تناظر کے پیش نظر دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان کوئی بڑی دراڑ پڑنے کا امکان نہیں ہے۔
سینیئر تجزیہ کار سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اِس وقت سسٹم سے الگ تھلگ رہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اور اسی لیے فی الحال کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
اُن کے بقول اس وقت ’پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دبی ہوئی ہے، اکیلی پیپلز پارٹی نہیں لڑ سکتی۔ لیکن کل کو اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی آتی ہے، جو کہ آتی رہتی ہے، تو پھر گراؤنڈ تیار ہو گا اور پیپلزپارٹی کے لیے مسلم لیگ ن کو چھوڑنا بھی آسان ہو گا۔‘
سہیل وڑائچ کے بقول دونوں جماعتیں چونکہ صوبائی سطح پر اپنے کشیدہ معاملات طے نہیں کر پا رہیں، لہذا آنے والے دنوں میں اِن کے درمیان کسی حد تک گڑبڑ ہو سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو یہ گلہ ہے کہ اُنھیں پنجاب میں جگہ نہیں دی جا رہی ہے جبکہ اُنھیں یہ بھی پتا ہے کہ جب تک پنجاب میں اُن کی جگہ نہیں بنتی تو وہ وفاق میں نہیں آ سکتے۔ لہذِا اگر سسٹم سے اُن کا یہ گلہ مزید بڑھ گیا تو پھر وہ اپنے کارڈز شو کریں گے۔
سہیل وڑائچ کے بقول مریم نواز یہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہپیپلز پارٹی کو دبائیں گی تو انھیں پنجاب میں مقبولیت ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا معاملہ یا قومی مالیاتی ایوارڈ کی بات ہے تو یہ معاملات پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ طے کرواتی ہے اور آئندہ بھی کرواتی رہے گی۔
پنجاب میں حالیہ سیلاب کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ رُکنے میں نہیں آ رہامستقبل کی سیاسی پیش بندی؟
پنجاب کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ تسلسل سے اس نوعیت کے بیانات دے کر مریم نواز مستقبل کی سیاسی پیش بندی کر رہی ہیں۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے ماجد نظامی نے دعوی کیا کہ دریائے سندھ سے نہریں نکال کر چولستان کو آباد کرنے کا منصوبہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کا ہے، لیکن اب مریم نواز بھی اس کی کُھل کر حمایت کر رہی ہیں۔
ماجد نظامی کے بقول بظاہر مریم نواز کو لگتا ہے کہ اب یہی نظام تسلسل کے ساتھ آگے بڑھے گا، لہذِا اس نظام میں اپنی جگہ مستحکم کرنے اور پنجاب میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرنے کے لیے وہ ایسے بیانات دے رہی ہیں۔
اُن کے بقول پیپلزپارٹی بلوچستان چولستان کینال منصوبے کی مخالف ہے، لہذِا اس منصوبے کی حمایت کر کے مریم نواز اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات مزید بہتر بنانا چاہتی ہیں۔
واضح رہے کہ رواں برس وفاقی حکومت کے گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے اعلان کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر پانی کی تقیسم کے معاملے پر صوبوں میں اختلافات ایک بار پھر سامنے آئے تھے۔
وفاقی حکومت نے دریائے سندھ کے پانی سے نہروں کی تعمیر کے اس منصوبے کو ’چھ سٹریٹجک کینال‘ منصوبے کا نام دیا تھا۔
اس نہری منصوبے کے خلاف سب سے زیادہ آواز صوبہ سندھ سے اٹھائی گئی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس کی کُھل کر مخالفت کی تھی۔ بعدازاں اس منصوبے کا وقتی طور پر روک دیا گیا تھا۔
این ایف سی ایوارڈ کا ذکر کرتے ہوئے ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے معاملے پر سب سے بڑا سٹیک ہولڈر پنجاب ہے۔
اُن کے بقول این ایف سی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کو کچھ تحفظات ہیں، لہذا اس معاملے پر مریم نواز اپنے مؤقف کو اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف سے قریب کر لیتی ہیں تو آگے چل کر اُنھیں سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ وہی طرز سیاست ہے جو نوے کی دہائی میں نواز شریف کرتے تھے’مسلم لیگ ن پنجاب میں سولو فلائٹ کرنا چاہتی ہے‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ مریمنواز ’پنجاب اور پنجابیت‘ کی بات سنجیدگی سے کر رہی ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے والد نواز شریف نے بھی ’پنجابیت‘ کے نعرے پر ہی اپنی سیاست کو آگے بڑھایا تھا۔
اُن کے بقول ’جاگ پنجابی جاگ، تری پگ نوں لگ گیا داغ‘ کا نعرہ ریکارڈ پر ہے۔ اب بھی مریم پنجاب کو اپنا قلعہ بنانا چاہتی ہیں اور پیپلز پارٹی کو یہاں اپنی بحالی کا چیلنج درپیش ہے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ وفاق میں شہباز حکومت پیپلز پارٹی کے سہارے پر کھڑی ہے۔ اس لیے وہاں دونوں جماعتوں کے تعلقات بہتر ہیں۔ لیکن جہاں تک پنجاب کی بات ہے تو یہاں مسلم لیگ نواز سولو پرواز پر ہے اور کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اُن کے بقول جہاں تک معافی کا مطالبہ ہے تو مریم نواز کا جو طرز عمل ہے، اس میں معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
’مریم نواز کو اصل مسئلہ یہ تھا کہ بلاول کسانوں سے کیوں ملے‘

اس معاملے پر دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے گفتگو کر کے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ہی پنجاب میں ایک دوسرے کے خلاف تنقید روکنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کہتے ہیں کہ مریم نواز کو اصل مسئلہ یہ تھا کہ بلاول سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران کسانوں سے کیوں ملے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران مریم نواز کی تعریف کی تھی لیکن ساتھ ہی اُنھوں نے کچھ تجاویز بھی دی تھیں۔
اُن کے بقول بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں حکومت کے پاس ایک مکمل ڈیٹا بیس موجود ہے جس کے ذریعے سیلاب زدگان کی مدد ہو سکتی ہے لیکن مریم نواز کو یہ بات پسند نہیں آئی۔
چوہدری منظور کے بقول پیپلز پارٹی نے پنجاب حکومت کو یہ تجویز بھی دی تھی کہ راشن تقسیم کرنے کے بجائے لوگوں کو فوری طور پر کیش تقسیم کیا جائے، تاکہ وہ اپنی خوراک کے ساتھ ساتھ اپنے جانوروں کے لیے بھی چارہ خرید سکیں۔
چوہدری منظور کےبقول ان باتوں پر مریم نواز غیر ضروری طور پر سیخ پا ہوئیں اور معاملہ پیچیدہ ہوا۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہپارلیمنٹ ہاؤس میں دونوں جماعتوں کے اجلاس میں مریم نواز کو مزید بیان بازی سے روکنے پر اتفاق ہوا تھا، لیکن جمعرات کو مریم نواز نے پھر اس پر بات کی ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ نواز کی رُکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اصل مسئلہ یہ ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ کے ذریعے پیسے بانٹے جائیں جس میں پنجاب کے زیادہ تر متاثرین شمار نہیں ہوتے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے حنا پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ ان کو مسئلہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اُن کے کہنے پر سیلاب زدگان کے لیے عالمی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ کیا پیپلزپارٹی کو اس معاملے میں اپنی رائے مسلط کرنی چاہیے یا پنجاب حکومت کو سروے کے نتائج، زمینی حقائق اور اپنے وسائل کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
’کیا پنجاب کے حقوق کی بات کرنا گناہ ہے؟‘
بی بی سی کے ریاض سہیل سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر ضمیر گھمرو کا کہنا تھا کہ نہروں کا معاملہ ابھی مشترکہ مفادات کونسل میں تھا جب مریم نواز نے جلد بازی میں جا کر اس کا افتتاح کر دیا جس پر احتجاج ہوا اور آخر میں وزیر اعظم کو مداخلت کرنا پڑی۔
اُن کے بقول اب مریم نواز کہتی ہیں کہ ’ہمارا پانی ہماری مرضی‘ تو پھر دوسرے صوبے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’ہماری گیس پیٹرول، ہماری بندرگاہیں ہماری مرضی۔‘
ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں حالیہ سیلاب کے دوران مریم کی حکومت کی اہلیت پر سوالات اٹھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اُنھیں تنقید برداشت کرنا نہیں آتی۔‘
ان کے مطابق مریم نواز دوبارہ 1990 کی دہائی والی سیاست کرنا چاہتی ہیں جس کی تدفین ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ کے ذریعے کر دی گئی تھی۔
دوسری جانب صحافی امداد سومرو کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں دو تین وجوہات ہیں جن کے تحت کہا جا سکتا ہے کہ مریمنواز جارحانہ سیاست کر رہی ہیں، ایک تو پنجاب میں جو سیلاب سے متاثرہ علاقے ہیں وہاں شکایت بہت ہیں۔
امداد سومرو گذشتہ دو دہائیوں سے لاہور سے صحافت کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ماضی میں 1988 میں میاں نواز شریف جب وزیر اعلیٰپنجاب بنے تھے تو بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں، تو اُس وقت وہ بینظیر بھٹو کو اسی طرح ٹارگٹ کرتے تھے۔
اُن کے بقول آخر کار بینظیر بھٹو نے اس کا جواب دینا شروع کر دیا جس کی وجہ سے نواز شریف کو قومی سطح پر پذیرائی ملی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ مریم نواز بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُن کا انداز سیاست اپنا رہی ہیں۔
دوسری جانب حنا پرویز بٹ کا الزام ہے کہ حکومت پنجاب کے خلاف سوشل میڈیا پر مسلسل مہم چلائی جا رہی ہے اور سیلاب پر سیاست کی جا رہی ہے۔
اُن کے بقول ایسے میں وزیراعلی پنجاب نے بطور ذمہ دار اس کا جواب دینا ہی ہے۔ ’آپ اپنے خلاف جاری مہم کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔‘
حنا پرویز بٹ کے بقول وزیر اعلی پنجاب سے معافی مانگنے کا ناجائز مطالبہ کیا گیا، کیا پنجاب کے حقوق کی بات کرنا اور تنقید کرنے والوں کو جواب دینا گناہ ہے؟ ایسے ہتک آمیز مطالبات کرنے والوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔